بھارت کا جنگی جنون

اتوار 28 جون 2015

Farrukh Shahbaz Warraich

فرخ شہباز وڑائچ

یہ سنہ 2000ء کی بات ہے جب بھارتی اخبارٹیلی گراف نے ایک خبر شائع کی۔خبر یہ تھی کہ پاکستانی فوجی جنگلی سوروں کو بھارتی سرحد میں دھکیل دیتے ہیں جو بھارتی علاقے میں جا کر تباہی مچا دیتے ہیں۔جس سے کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے اخباری رپورٹ کے مطابق 50سے زائد جانوروں کے غول بھارتی فصلوں کو تہس نہس کر دیتے ہیں۔ضلع فیروزپور کے گاؤں ہزارہ سنگھ وار کے ایک سردار نے کہا یہ جانور رات نو بجے سے صبح رات تک فصلوں میں رہتے ہیں۔

اخبار کے مطابق کسان آٹے میں دھماکہ خیز مواد لپیٹ کر کھیتوں میں دبا دیتے ہیں،جس سے ان سوروں کے منہ زخمی ہوجاتے ہیں جس کے بعدان کی وحشت مزید بڑھ جاتی ہے۔اخبار نے لکھا بارڈر سیکورٹی آفیسر کے مطابق یہ پاکستان کی آئی ایس آئی کی نئی پلاننگ ہے۔

(جاری ہے)

اس واقعہ کے ٹھیک دو ماہ بعد بھارت کے صوبے راجھستان میں دو عقاب پکڑے گئے۔جن کے بارے میں اس وقت کی بھارتی سرکار نے کہا کہ ”یہ دونوں عقاب پاکستانی ایجنسی کے جاسوس عقاب ہیں،ان عقابوں کے پروں کے ساتھ ٹرانسمیٹر نصب کیے گئے ہیں جن کی مدد سے یہ عقاب بھارتی خفیہ ٹھکانوں کی اطلاعات پاکستان کو پہنچا رہے ہیں۔

اب 2015ء میں آ جائیے فاختہ جو کہ پوری دنیا میں امن کی علامت سمجھا جاتا ہے یہ بھی کبوتر کے ہی خاندان سے ہے ۔پرانے وقتوں میں کبوتر پیغام رسانی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا،ایک عرصہ تک عشق و محبت کے پیغام بھی اسی امن پسند پرندے کے ذریعے ہی محبوب تک پہنچ پاتے تھے۔یہ امن پسند خوبصورت پرندہ دو ہزار برس سے انسان کا دل بہلا رہا ہے ۔یہ پیاراپرندہ بڑوں چھوٹوں سبھی کو پسند ہے۔

ہمارے قومی شاعر،علامہ اقبال نے بھی نوجوانی میں کبوتر پال رکھے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ اس پرندے کی معیت انھیں خوشی و مسّرت عطا کرتی ہے۔آج ماہرین نفسیات بھی تسلیم کرتے ہیں کہ چرند پرند پالنے سے انسان کو روحانی سکون ملتا ہے۔دور جدید میں مشہور امریکی باکسر،مائیک ٹائیسن کبوتر پالنے کا شوقین ہے۔
پرندوں کیلئے کوئی سرحد معنی نہیں رکھتی مگر پرندوں کو اس بات کی خبر نہیں کہ تنگ نظر پڑوسی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔

پرندے تو پرندے ہیں ان بیچاروں کو ان جغرافیائی لکیروں کا کیا علم کہ کہ یہ جو اس پار لکیر کھینچی گئی ہے اسے بارڈر کہتے ہیں۔قوموں میں نفرت نے اتنا عروج نہیں دیکھا کہ ایک پرندے کو ہی اس کا نشانہ بنا لیا جائے۔سرحد پار کے مکینوں کو سوچنا چاہیے یقینا اس طرح کی بوکھلاہٹ،االزام تراشیوں سے نفرت کا لاوا مزید بڑھکے گا۔’مہا بھارت “ کو حقیقی معنوں میں مہا بھارت بن کر دکھانا چاہیے۔

کیا ان بھارتی اہلکاروں کو انعام و اکرام سے نہیں نوازنا چاہیے جو اتنے اہم پاکستانی جاسوس کو قید کر چکے ہیں۔ان بہادر اہلکاروں نے جان پر کھیل کر مبینہ پاکستانی جاسوس یعنی کبوتر کو قید کیا ہے ۔ہو سکتا ہے آنے والے دنوں میں بھارتی سرکار ان جانبازوں کو خصوصی ایوارڈ سے نوازے۔
معصوم کبوتر کی گرفتاری پر جمہوریت کے نام نہاد چیمپئن بھارت نے جس بوکھلاہٹ اور خوف کا ثبوت دیا پوری دنیا میں اس کی جگ ہنسائی کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

پٹھان کوٹ سے پاکستانی کبوتر کو جاسوسی کے الزام میں پولیس حراست میں رکھنے پر دنیا بھر میں جگ ہنسائی کے بعد بھارتی حکام نے اسے جانوروں کی نگہداشت کے لئے قائم ایک خصوصی مرکز کے حوالے کردیا ہے۔پاکستان دشمنی میں بوکھلاہٹ کا شکار بھارتی خفیہ اداروں کو کچھ نہ ملا تو سرحد کے قریب سے ایک کبوتر کو ہی پاکستانی جاسوس کہہ کر دھڑلیا اور پھر مقامی اسپتال میں اس کا ایکسرے بھی کرایا گیا ور جب کچھ نہ ملا تو تفتیش کی غرض سے اس کا ریمانڈ بھی حاصل کرلیا، بھارتی اداروں نے صرف اسی پر بس نہ کیا بلکہ اس کبوتر کو پاکستانی جاسوس ثابت کرنے کے لئے دن رات ایک کردیئے اور اس کے پاوٴں سے اردو میں تحریر کردہ ایک خط بھی برآمد کرلیا جس سے متعلق دعویٰ کیا گیا کہ خط میں ایک لینڈ لائن نمبر بھی ہے جو پاکستان کے ضلع نارووال کا ہے اس کے علاوہ کبوتر کے پروں میں لگی ہوئی مہر پر بھی کافی واویلا کیا گیا۔

خیر اب تو یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ بھارت امن کی فاختہ کو کب تک قید کئے رکھتا ہے۔حیرت ہے بھارتی جنگی جنون کو امن کی علامت سمجھا جانے والا یہ پرندہ بھی کم نہ کر سکا۔آئیے عباس تابش کے اشعارپڑھتے ہیں
میرے اعصاب معطل نہیں ہونے دیں گے
یہ پرندے مجھے پاگل نہیں ہونے دیں گے
یار اک بار پرندوں کو حکومت دے دو
یہ کسی شہر کو مقتل نہیں ہونے دیں گے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :