بے چارہ کراچی

جمعہ 26 جون 2015

Abdur Razzaq Sajid

عبدالرزاق ساجد

کراچی والوں کے بھی کیا نصیب ہیں بے چارے گولی سے بچ جائیں تو سورج ان کی جان لے لیتا ہے۔ اس بار گرمی ایسی پڑی کہ کراچی والوں کے لئے سانس لینا دو بھر ہو گیا۔ گرمی نے 1600سے زائد انسانی جانوں کو نگل لیا اور شاید یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا قدرتی سانحہ ہے کہ گرمی کی وجہ سے اتنے بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کی ضیا ع ہوا۔ ہونا تو یہ چاپئے تھا کہ اتنی بڑی قدرتی آفت پر حکمرانوں پر نیند حرام ہوجاتیں لیکن یہاں الٹا ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

وفاقی حکومت اسے سندھ کی ناکامی گردان رہی ہے تو سندھ حکومت اسے وفاق کی بے اعتنائی۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما سید خورشید شاہ نے کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے ادارے کے الیکٹرک کے حوالے سے وفاقی حکومت کو مشورہ دیا کہ ’کے الیکٹرک کو ٹیک اوور کرلیں، ہم حمایت کریں گے‘۔

(جاری ہے)

اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ شدید گرمی سے سینکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں، یہ کے الیکٹرک کا نہیں پاکستان کا مسئلہ ہے۔

پیپلز پارٹی رہنما کا کہنا تھا کہ ہم کراچی کی ہلاکتوں کا رونا رو رہے ہیں اور حکوت کتاب کھول کر بیٹھ گئی ہے۔انھوں نے کہا کہ "خدا کے لیے حکومت حساب کتاب چھوڑ دے، لوگوں کی جان بچائے"۔خورشید شاہ کا مزید کہنا تھا کہ ’ملک کو آپ اور ہم نے مل کر چلانا ہے‘، 'جو بجلی استعمال کرتا ہے وہ بل ادا کرے'۔اپوزیشن رہنما نے حکمران جماعت پر طنز کرتے ہوئے سوال کیا کہ کہاں ہے وہ بجلی جس کے بارے میں نواز لیگ کہتی تھی کہ 24 ہزار میگاواٹ بجلی ایک بٹن دبا کر سسٹم میں آجائے گی؟
اس سے قبل ایوان میں توانائی کے بحران پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے بجلی بحران پر بحث کے لیے تحریک پیش کی۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ کراچی میں گرمی سے اموات ہوئیں جس پر افسوس ہے تاہم کراچی کی صورت حال کی ذمہ دار وفاقی حکومت نہیں ہے۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ کراچی میں اگر پانی کی قلت ہے تو وہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔خواجہ آصف نے سوال کیا کہ تھر میں سیکڑوں بچوں کی اموات ہوئیں، کیا اس کی ذمہ داری بھی وفاقی حکومت پر ڈالی جائے گی؟ملک میں جاری بجلی بحران پر خواجہ آصف کا کہنا تھا یکم رمضان سے جو بحران شروع ہوا اس نے ملک کے طول و عرض میں بے چینی پیدا کی ہے۔

وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ اس وقت شہروں میں 5گھنٹے اور دیہات میں 8گھنٹے لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔
سندھ اسمبلی میں خطاب کے دوران بھی سید قائم علی شاہ کی سندھ کی صورتحال اور امدادی کاموں سے لاعلمی مکمل طور پر عیاں تھی ۔دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات عابد شیر علی نے کچھ یوں گلفشانی فرمائی ہے کہ اگر کوئی گرمی سے مر جائے تو اس میں حکومت کا کیا قصور؟ حضرت سے سوال ہے کہ کیا حکومت صرف پروٹوکول لینے، گاڑیوں پر گھومنے، ہٹو بچو اور رعب داب برقرار رکھنے کا ہی نام ہے اور اگر یہ سب کرنا ہے تو ایسی حکومت سے ویسے ہی بھلے۔

ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں اور کتابوں میں بھی پڑھا ہے کہ تاریخ کارخ بدلنے والے حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں کہ اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا اور پیاسا مر گیا تو قیامت والے دن عمر  سے اس کی جواب طلبی ہو گی۔ لیکن یہاں کمال فیاضی سے ہمارے حکمران فرماتے ہیں کہ سندھ میں گرمی اور پیاس سے مرنے والوں سے وفاقی حکومت کا کیا تعلق اور حکومت کا کیا قصور۔

پورے ملک کے انتظامی سربراہ نوازشریف اس دوران کہیں بھی نظر نہیں آ رہے۔ کراچی میں لوگ مر رہے ہیں لیکن نوازشریف صاحب ہیں کہ وزیراعظم ہاؤس کے ٹھنڈے ٹھار کمروں کو چھوڑ کر کراچی میں گرمی سے بدحال لوگوں کو دلاسا دینے کے لےئے جانے کو تا دم تحریر تیار نہیں ہیں۔ سندھ حکومت کی نا اہلی بھی کمال درجے کو پہنچی ہوئی ہے کراچی میں لوگ گرمی اور پیاس سے مر رہے ہیں اور سندھ حکومت نے وفاق کے ساتھ ساس بہو کی سیریل شروع کررکھی ہے۔

کبھی گرمی سے ہلاکتوں کی ذمہ داری وفاق پر ڈالی جا رہی ہے اور کبھی لوڈ شیڈنگ کو اس کی وجہ قرار دیا جا رہا ہے ۔ لوڈ شیڈنگ بھی اس سانحے کا ایک جز ہو سکتی ہے لیکن کلی طور پر لوڈ شیڈنگ کو اس سانحے کا سبب قرار نہیں دیا جا سکتا کیوں کہ لوڈ شیڈنگ تو پچھلے دس سال سے جاری ہے ۔ اس طرح کے حالات سے نمٹنے کے لئے ادارے بنائے جاتے ہیں جو کسی بھی ناگہانی آفت سے لوگوں کو بچاتے ہیں لیکن یہاں ڈیزاسٹر مینجمنٹ اٹھارٹی کو صرف سیلاب اور زلزلہ کی حد تک ہی کار آمد سمجھا جاتا ہے حالانکہ محکمہ موسمیات نے پہلے ہی حکومت کو خبردار کر دیا تھا کہ رواں سال کراچی میں گرمی معمول سے زیادہ پڑنے کا امکان ہے اور اس کے لئے حکومت کو پہلے سے ہیٹ سٹروک سینٹر قائم کرنے چاہئے تھے اور عوام میں گرمی سے بچاؤ کی تدابیر کے لئے آگاہی پیدا کرنے کے لئے مہم چلائی جانی چاہئے تھی لیکن سندھ کی صوبائی حکومت مکمل طور پر اس صورتحال کا تدارک کرنے میں ناکام رہی ہے جس کا خمیازہ کراچی کی غریب اور ناچار عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے اور لوگ حکمرانوں کے سکھ چین کے لئے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں دوسری طرف اس صورتحا ل میں ہمارے میڈیا خصوصا الیکٹرانک میڈیا کو بھی کردار ادا کرنا چاہئے تھا اور ہیٹ سٹروک کے حوالے سے عوام کو آگاہ کرنا چاہئے لیکن میڈیا محض جاں بحق ہونے والوں کی تعداد بتانے میں مصروف رہا۔

ان حالات میں اللہ کے حضور ہی دعا کی جا سکتی ہے کہ یا اللہ کراچی والوں کے حالات پر رحم فرما اور ہمارے حکمرانوں کو ہدایت!آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :