17جون :جب خون کی ہولی کھیلی گئی

بدھ 24 جون 2015

Muhammad Tahir

محمد طاہر

حضرت عطا ء اللہ شاہ بخاری فرمایا کرتے تھے کہ مجھے پوری زندگی میں دولوگوں کی تلاش رہی لیکن وہ نہ ملے۔ ایک وہ، جس نے صدقہ کیا ہو اور مفلس ہوگیا ہو اور دوسرا وہ جس نے ظلم کیا ہو اور اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے محفوظ رہا ہو۔ آج سے ایک سال پہلے ، ٹھیک اسی دن ماڈل ٹاؤن میں قیامت صغریٰ برپا ہوئی۔ کسے معلوم تھا کہ 17جون کا سورج لہو کے سائے میں طلوع ہو گا؟کسے معلوم تھا کہ قوم کی جان و مال کی حفاظت کرنے والے حصار ہٹانے کی آڑ میں خون کی ہولی کھیلیں گے۔

کسے معلوم؟ایک حکمران تھا جو راتوں کو اٹھ کر رعایا کی جان و مال کی حفاظت کرتا تھا اور کہا کرتا تھا ”اگر دریاءِ فرات کے کنارے بکری کا بچہ بھی مر گیا تو عمر اس کا ذمہ دار ہوگا“ اور ایک آج کے حکمران ہیں جو کبھی معصوم نہتے شہریوں پر گولیوں کی برسات کرتے ہیں تو کبھی نابینا افراد پر ڈنڈے اور لاٹھیاں بر سا کر اپنی مردانگی کا اظہار کرتے ہیں۔

(جاری ہے)


ماڈل ٹاؤن واقعہ کی جے آئی ٹی رپورٹ شائع ہوئی تو دل کیا ماتم کروں جے آئی ٹی پر،ان کی سوچ ،ان کے افکار و نظریات اور ان کے فیصلے پر۔ جو لوگ اہل ِ منہاج کو اس واقعہ کا ذمہ دار سمجھتے ہیں ،میں ان لوگوں کودعوت دیتا ہوں کہ ایک بار اس واقعہ کی ڈاکومنٹری فلم دیکھ لیں جو کہ مختلف ٹی وی چینلز کی کلپس کو جوڑ کر بنائی گئی ہے ۔ اس دیڈیو کا دورانیہ تقریباِِ بارہ منٹ ہے۔

یہ ویڈیو آپ کو انٹرنیٹ سے آسانی سے میسر ہو سکتی ہے۔ اگر کسی کو یہ ویڈیو نہ ملے تو میں اس کو دیڈیو دکھانے کو تیار ہوں۔ ویڈیو دیکھنے کے بعد اپنے دل پہ ہاتھ رکھ لیجئے گا اور وہی کچھ بولیے گا جو آپ کا دل کہے ۔ دعوت دیتا ہوں سب کو۔۔ ایک بار ۔۔صرف ایک بار یہ ویڈیو ضرور دیکھیں۔اور پھر فیصلہ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہوگا۔آپ کو ڈاکومنٹری میں دل سوز مناظر دکھائی دیں گے۔

منہاج القرآن کانمائندہ سید الطاف حسین ، ڈی آئی جی آپریشن رانا عبد الجبار ، ڈی سی او کیپٹن (ر) عثمان ، اور ڈی ایس پی سکیورٹی پرویز بٹ کو بیریئرز لگانے کے قانونی احکامات دکھارہا ہوگا اور معاملہ بات چیت سے حل کرنے کی درخواست کر رہا ہوگا۔ آپ گولیوں کی گرگراہٹ سن کر اپنے آپ کو کسی جنگی محاذ پر محسوس کریں گے ۔ آپ کوتھانہ فیصل ٹاؤن کا کانسٹیبل ریاض بے گناہ نوجوان کو خون میں نہلانے کے بعد ”ویری گُڈ“ اور” بیوٹی فل شاٹ“جیسے کمنٹس کہتا سنائی دے گا۔

ڈی ایس پی سکیورٹی علی سلیمان ، انسپکٹر رؤف کو ادارہ کو ٹیک اوور کرنے کا حکم دے رہا ہوگا۔آپ اپنی آنکھیں کھول کر دیکھیں، آپ کو حکومتی دہشت گرد گلو بٹ گاڑیوں کے شیشے توڑتے ، ڈنڈا فضا میں بلند کرتے ، نعرہ تکبیر لگاتے اور پولیس کے اہلکار اسکی پیروی کرتے ہوئے نظر آئیں گے ۔ ایس پی ماڈل ٹاؤن طارق عزیز، گلو بٹ کو گلے لگاکر شاباش دیتا بھی دکھائی دے گا۔

ایس پی ہیڈ کوارٹر معروف واہلہ اپنی فورس کے ساتھ مرکزی سیکرٹریٹ کے سامنے موبائل فون پر افسران اعلیٰ سے ہدایات لیتے ہوئے دکھائی دے گا۔ آپ کو آوازیں سنائیں دے گی ” وٹے اندر نہیں دینے ، انہاں نوں صرف گولی دینی اے۔“یعنی اگر اندر پتھر پھینکو گے تو جواب میں وہی پتھر ہم پر واپس ماریں گے اس لیے صرف گولیوں کی بارش کردو۔پولیس اہلکار دوسرے گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر پر سیدھی فائرنگ کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔

آپ کوبے گناہ شہری موقع پر جام ِ شہادت نوش کرتے دکھائی دیں گے۔اگر آپ کی آنکھ اور کان دیکھ اور سن سکتے ہیں تو ایک منظر ایسا بھی دکھائی دے گا جو آ پ کا سینہ چیر دے گا۔ ایک عورت منہ میں گولی کھانے کے بعد منہ ہی کے بل زمین پر گرتی ہوئی دکھائی دے گی اورمختلف آوازیں سنائی دیں گی ” ارے !کوئی تو میر ی بیٹی کو اٹھا لو“،” او اللہ ! میری بہن فو ت ہوگئی“۔

ایک معصوم بیٹی اپنی والدہ تنزیلہ کو کھونے کے بعد سراپہ سوال دکھائی دے گی اورلوگوں سے پوچھ رہی ہوگی ” میری ماما کا قصور کیا تھا ؟“۔ آپکو دکھائی دے گا کہ ایمبولینس کے ڈرائیورز بے گناہوں کی جان بچانے کے جرم میں ڈنڈے کھا رہے ہیں۔آپ اپنی آنکھیں کھولیں، آپ کو محافظوں کی وردیوں میں چھپے ہوئے ڈاکو ، چور اور لٹیرے قریبی دکانوں سے اشیاء اٹھاتے اور پیسے چراتے نظر آئیں گے۔

جب قوم کے محافظ چنگیزی دور کی یاد تازہ کرنا شروع کردیں تو پھر انکی وردیوں کے ساتھ ساتھ انکی زبانیں اور ضمیر بھی کالے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔آپ ظلم کی انتہا دیکھیں ،ریسکیو اہلکار ایک زخمی نوجوان کو اٹھا کر ایمبولینس کی طرف لیجارہے ہوتے ہیں اور پولیس اہلکار اس پر بھی ڈنڈوں کی بارش کر رہے ہوتے ہیں۔میں نے پڑھاتھا کہ اللہ تعالیٰ سفید داڑھی والوں سے حیاء کھاتا ہے۔

انکے کہے ہوئے الفاظ کو رد نہیں کرتا۔ رات کا آخری پہر تھا جب میں یہ ویڈیو دیکھ رہا تھا ، میں نے جب باریش عمر رسیدہ شہریوں کو ڈنڈوں ، لاتوں اور گھونسوں کی نظر ہوتا دیکھا اورسفید داڑھی کو خون سے لال ہوتے دیکھا ، یوں لگا جیسے مجھ پر ابھی چھت آن گرتی ہو۔ میں سوچنے لگا انسانیت کہاں کھوگئی ہے؟مسلمان کہاں کھو گیا ہے؟ تب آسمان گرا نہ زمین پھٹی۔

آپ کو ایک عمر رسیدہ شخص ” مجھے مت مارو، مجھے مت مارو“ کی صدا لگاتا دکھائی دے گا۔ لیکن کالی وردی والوں کا ضمیر ذرا بھی نہ جاگا ،شاید ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سو چکا ہوگا۔ رسول پاک ﷺ نے تو جنگ میں عورتوں ،بچوں اور بوڑھوں کو نقصان پہنچانے سے منع کیا لیکن کلمہ گو، اپنے نبی ہی کی تعلیمات کی دھجیاں اڑا تے رہے۔کیا یہ لوگ مسلمان کہلانے کے لائق ہیں ، مسلمان نہیں تو انسان کہلانے کے ہی سہی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کا کہا ہوا ، کب سچ ہوتا ہے۔
حاکمِ شہر کی اُس بند گلی کے پیچھے
آج اک شخص کو پھر خون اگلتے دیکھا
تم یہ کہتے ہو کہ ہوتے ہیں درندے ظالم
ہم نے انسان کو ،انسان نگلتے دیکھا
پنجاب حکومت تمہیں مبارک ہو۔ جے آئی ٹی رپورٹ آپ کے عین حق میں آئی ہے ۔ آپ سرخرو ہو گئے ۔ آپ کے عہدے بحال ہو گئے ۔

آپ کو وزارت قانون کا قلمدان پھر سے مل گیا۔ لیکن جے آئی ٹی رپورٹ مرتب کرنے والے ، پنجاب پولیس اور گورنمنٹ کے اہلکاران ترمذی شریف کی حدیث کوذرا غور سے پڑھ لیں ۔حدیث ہے”قیامت کے دن سب سے پہلے خون ریزی کا حساب سنایا جائے گا۔ “اگر آپ کو اس حدیث سے بھی استثنیٰ حاصل ہے جیسے تمام معاملات میں حاصل ہوتا ہے تو پھر آپ جشن منائیں ، بے گناہ شہریوں کو گولیوں سے چھلنی کریں یا نابینا افراد پر ظلم کی داستان رقم کریں ، وکیلوں کو موت کے گھاٹ اتاریں یا ڈاکٹر ز کو سڑکوں پر گھیسٹیں ۔

آپ جو چاہیں وہی کریں کیونکہ آپ طاقتور اور عوام کمزور۔یا پھر دوسری صورت میں اس وقت کا انتظار کریں جب خدا کی بے آواز لاٹھی حرکت میں آئی گے۔پھر تمہیں تمہاری جے آئی ٹی تو کیا دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکے گی ۔ تمہیں اپنے ظلم کا حساب دینا ہوگا۔ اور وہ آخری حساب ہوگا۔ جی ہاں ۔۔آخری حساب۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :