آتشزدگی

بدھ 24 جون 2015

Naveed Sadiq

نوید صادق

لاہور میں بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ لاہور کے عین وسط میں ایک مصروف اور اہم مارکیٹ…لبرٹی مارکیٹ میں ایک مشہور سٹور میں آگ بھڑکتی رہی اور دن بھر ہمارے شہر کے سارے کے سارے فائر فائٹر اسے بجھانے کی کوشش کرتے رہے لیکن یہ آگ کسی طور قابو میں نہیں آ پا رہی تھی۔ ہمارا عجیب حال ہے، ایسے واقعات کم و بیش ہمارے ملک میں روز پیش آنے لگے ہیں لیکن ہم ہیں کہ نہ ہم نے اس طرف کوئی توجہ کی اور نہ کسی نے ہماری توجہ کبھی اس طرف مبذول کروانے کی سعی کی۔

ملک میں سڑکوں کا جال بچھتا جا رہا ہے، لاہور کے بعد اسلام آباد اور اب ملتان اور اس کے بعد سنا ہے کراچی میں بھی میٹرو بس چلے گی،لیکن ہمارے بنیادی مسائل وہی کے وہی ہیں۔کراچی، لاہور، فیصل آباد، پشاور کون سا بڑا شہر ایسا ہے جس میں اس نوعیت کے حادثے نہیں ہو رہے لیکن مجال ہے جو ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے کان پر کوئی جوں تک بھی رینگی ہو۔

(جاری ہے)

بجلی پانی گیس تو خیر ہمارے بڑے مسائل بن چکے ہیں اور اب سنا ہے کہ ان پر غور و خوض کی چنداں ضرورت اس لیے نہیں کہ ہمارے عوام بخوبی ان کی عدم موجودگی سے پیدا شدہ بحرانی کیفیات کے عادی ہو چکے ہیں۔ لیکن یہ آئے روز بڑی عمارتوں اور فیکٹریوں اور مارکیٹوں میں آگ کا بھڑک اٹھنا شاید کچھ لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہو لیکن ہم اپنے تئیں ایسا قیاس کرنے سے گریز کرتے ہوئے اپنے قارئین پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ آگ کیوں لگتی ہے؟ یہ کوئی اتنی بڑی سائنس نہیں کہ سمجھ میں نہ آ پائے۔

ہمارے نزدیک اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو وہی ذاتی مفاد کی طلب، جو ہماری قوم کا خاصہ بلکہ پہچان بن چکی ہے۔ ہم اپنے فائدے کے لیے ہر حد پار کرجانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ سو ہوتا کیا ہے کہ کچھ ٹیکس کے مسائل، کچھ انشورنس سے متعلقہ معاملات اور بعض اوقات کچھ خاص قسم کا ریکارڈ جو کچھ معروف و مقبول ہستیوں کے لیے مستقبل میں وبال جان بن سکتا ہے… بس اتنی سی بات اور پوری عمارت، پوری فیکٹری جلا کر راکھ کر دی جاتی ہے۔

یہ تو رہی وہ وجہ اور خرابی جس کا تدارک شاید اب خود ہمارے اختیار میں نہیں رہا۔ذرا سے منافع کے حصول کی خواہش ہمیں دیوانہ بنا دیتی ہے۔
عمارات وغیرہ میں آگ لگنے کی دوسری اور بڑی اہم وجہ غیر معیاری بجلی کے تاروں کا استعمال ہے۔ ہمارے ہاں عام رویہ ہے کہ عمارت یا فیکٹری کی تعمیر کے وقت کروڑوں بلکہ اربوں روپے لگا دیے جاتے ہیں لیکن جب بجلی کی وائرنگ کی باری آتی ہے تو ہم کمپرومائز پر اتر آتے ہیں۔

سستی تاروں کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ مہنگی کیوں مہنگی ہے اور سستی کیوں سستی۔ بس کچھ روپے بچا لیتے ہیں۔ پھر الیکٹریکل لوڈ ڈسٹری بیوشن کے مناسب ڈیزائن کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ بجلی کے تار میں کاپر(Copper )کی مطلوبہ مقدار کی عدم موجودگی سے تاریں گرم ہو کر آتش زدگی کا سامان مہیا کرتی ہیں۔ اسی طرح اگر بلڈنگ کے لیے لوڈ ڈسٹری بیوشن مناسب انداز میں اس شعبہ کے کسی ماہرسے ڈیزائن نہیں کروایا گیا تو اس صورت میں بھی بات آتش زدگی تک پہنچ سکتی ہے۔


بنظرِ غور دیکھا جائے تو دونوں صورتوں میں ہماری زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے یا بچانے کی قومی عادت سامنے آتی ہے۔ یہ ایک طویل موضوع ہے اور اس پر مزید گفتگو بھی ہو سکتی ہے لیکن ہمارے نزدیک اگر ان دو وجوہات پر حکومتی اور عوامی سطح پر توجہ دی جائے تو صورت حال بہتر ہو سکتی ہے۔ اب رہی یہ بات کہ آگ تو لگ گئی، لیکن بجھائی کیوں نہیں جا رہی۔

تو اس بارے میں عرض ہے کہ ہمارے ہاں، اللہ بھلا کرے جناب پرویز الٰہی اور ڈاکٹر رضوان کا کہ ان کی کاوشوں سے ہمارے ملک میں ریسکیو 1122کے شعبہ کا قیام عمل میں آیا۔ یہاں ہم جناب شہباز شریف کو بھی داد دیں گے کہ انھوں نے اس کی مزید ترقی پر توجہ دی اور یہ ادارہ تمام اداروں سے بہتر کارکردگی دکھاتا نظر آنے لگا۔ ڈاکٹر رضوان نے اس ادارے کی کارکردگی کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے ایسا کنٹرول سسٹم ترتیب دیا کہ شروع شروع میں تو ہمیں یقین ہی نہیں آ پایا کہ ہمارے ملک میں ایسا سسٹم بھی بن سکتا ہے۔

لیکن ہمارے عزیز دوست جناب محرم سجاد نے ہمیں بتایا کہ یہ بالکل سچ ہے اور اس پر پوری طرح عمل بھی ہو رہا ہے۔ کہیں کوئی حادثہ ہو جائے، 1122کو فون کرنا اور قلیل وقت میں ایمبولینس موقع پر موجود ہوتی تھی، اسی طرح ریسکیو کی دیگر کاروائیوں کا حال تھا لیکن پھر اچانک خدا جانے کیا ہوا کہ لاہور کی سطح پر 1122 سروس غیر فعال ہوتی نظر آنے لگی۔ وجوہات کچھ بھی رہی ہوں لیکن یہ ایک حقیقت ہے۔

اور لبرٹی مارکیٹ میں آتش زدگی کے اس واقعے کے بعد تو ہمیں یقین ہو چلا ہے کہ اب کم از کم لاہور شہر میں ریسکیو کے معاملات 1122کے بس کے نہیں رہے۔یہ سب متعلقہ افسران کی نااہلی ہے کہ کوئی اور وجہ، حکام بالا کو اس طرف توجہ دینا ہو گی وگرنہ معاملات مزید بگڑتے چلے جائیں گے۔وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف کہ ایک متحرک شخصیت ہیں، یقیناً وہ خود بھی اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہوں گے لیکن ہم اپنے کالم کی وساطت سے ان کی توجہ اس طرف مبذول کروانا چاہتے ہیں کہ تحفظ دہشت گردوں سے ہو کہ مفاد پرستوں سے، نااہلوں سے ہو کہ کام چوروں سے… عوام کی بنیادی ضروریات میں سب سے اہم ٹھیرتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہم ڈاکٹر رضوان سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس طرف خصوصی توجہ دیں کیوں کہ وہ ایک بڑا ویژن رکھنے والے انسان ہیں، وہ بخوبی جانتے ہوں گے کہ آگ سے بچاوٴ کے جدید انداز کیا کیا ہیں، دنیا بھر میں کیا کیا طریقے رائج ہیں، اور ہمارے ہاں اسے کس انداز میں بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ پھر سب سے بڑی بات یہ کہ 1122سروس کا آغاز لاہور شہر سے کیا گیا تھا، اب اسی شہر میں اس کی کارکردگی کا گراف نیچے گرتا جا رہا ہے۔ آخر کیوں؟ یہ ایک سوال ہے، جس کا جواب ہم اور آپ تو نہیں جانتے لیکن یقیناً ڈاکٹر رضوان اور دیگر ذمہ داران اس سے بخوبی آگاہ ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :