مودی ۔حسینہ۔اور ہمارے کچھ اپنے

ہفتہ 20 جون 2015

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

جب سے " مودی " نے " حسینہ" کے پہلو میں بیٹھ کے سلگتا بیان دیا ہے تب سے ایک عجیب سی خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ جلتی پہ تیل کا کام بھارتی وزیر کے بیان نے کر دیا۔آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ اس میں خوشی کی بھلا کیا بات ہے۔بقول ہمارے ایک عزیز دوست فہیم پٹیل صاحب کے بقول ہم پاکستانی ہوں نہ ہوں لیکن بھارتی دشمن ضرور ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ہم دن رات پاکستان کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں لیکن بھارتی ہرزہ سرائی کے بعد میں خود کو پاکستانی پاکستانی محسوس کر رہا ہوں۔

یہ کیفیت صرف ایک پٹیل صاحب کی نہیں ہوتی بلکہ ہر پاکستانی کی ہوتی ہے۔ ہم دن رات وطن عزیز میں سہولتوں کا رونا روتے رہیں۔ اس پہ لعن طعن کرتے رہیں لیکن جب کوئی پاکستان کی طرف میلی نگاہ سے دیکھے یا دھمکی آمیز لہجہ اختیار کرے۔

(جاری ہے)

اور خاص طور پہ یہ دھمکی بھارت کی طرف سے دی جائے توپھر اس کے بعد پھر اس قوم کا جذبہ دیکھنے والا ہوتا ہے۔ اور شاید ہر کچھ عرصے بعد بھارت کوئی نہ کوئی پھلجڑی چھوڑتا ہی اسی لیے ہے کہ اس قوم کا جذبہ دیکھا جائے کہ کم ہوا ہے یا نہیں۔

اور جب اسے نظر آتا ہے کہ یہ جذبہ تو آج بھی 65ء والا ہے تو جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔لیکن ہر دفعہ دشمن یہ دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے کہ اس کا مقابلہ ایک پاکستان سے نہیں بلکہ اس کے مقابلے پہ اٹھارہ کروڑ سے زائد پاکستان ہیں۔ کیوں کہ ایک عام مزدور بھی بھارت کے مقابلے میں خود کو ایک مکمل پاکستان سمجھتا ہے۔
مودی کا بیان شاید وہ خفت مٹانے کے لیے ہے جو دورہء چین میں اقتصادی راہداری کے حوالے سے موقف کی ناکامی کی صورت میں اٹھانا پڑی۔

مودی سرکار چین کو یہ باور کروانے میں ناکام رہی کہ پاکستان اس منصوبے کا اہل نہیں۔ اور یہ خفت جب چھپائے نہ چھپی تو حسینہ کے پہلو میں جا کر اپنا غصہ نکالنا شروع کر دیا۔ مودی سرکار کے حالیہ بیانات نہ صرف ان کی اپنی خفت چھپانے کے لیے اہم ہیں بلکہ ان لوگوں کے منہ پر بھی طمانچے کی صورت ہیں جن کی تحریروں کا آغاز و اختتام ہی "موسٹ فیورٹ نیشن" کے لفظوں پہ ہوتا تھا۔


مودی کے حالیہ بیانات اور وزراء کی شعلہ بیانیوں کے حوالے سے کڑیا ں ملانے کی ضرورت اس لیے بھی نہیں ہے کہ کڑیاں خود بخود ہی ملتی جاتی ہیں۔ ہماری فوج ضرب عضب میں مصروف ہے۔ وزیر اعظم صاحب بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر شاید کچھ کہنے سے قاصر ہیں لہذا یہ ذمہ داری ان کے پیادے ہی سر انجام دے رہے ہیں اور خوب سر انجام دے رہے ہیں لیکن حقیقت میں بھارت ان پیادوں کے بیانات سننے کے لیے پھلجڑیاں نہیں چھوڑتا بلکہ وہ ان سپوتوں کے جذبے کا جائزہ لیتا ہے جو تمام طرح کی تنقید سے ماوراء ہو کر مادر وطن کے دفاع میں مصروف ہیں۔

اور فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں جس طرح کا جواب بھارت کو ہمارے خاموش اور دھیمے جرنیل نے دیا ہے اس سے بنیا لنگوٹ سنبھالنے میں مگن ہو گیا ہے۔
حسینہ کی پاکستان دشمنی نہ تو کسی سے ڈھکی چھپی ہے نہ ہی اس میں کوئی دو رائے ہیں کہ پاکستان نواز بنگالیوں کے گلے میں پھندے ڈالنا مکارصفت حسینہ کا اولین مقصد ہے۔ مودی کے دورہء بنگلہ دیش کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ حسینہ واجد نے جناب کو لبریشن ایوارڈ سے بھی نوازا۔

یہ ایوارڈ پاکستان دشمنی کا ایوارڈ تھا جس سے حسینہ نے مودی پہ یہ واضح کیا کہ ہم دونوں مشترکہ طور پہ پاکستان سے دشمنی کا عفریت پالیں گے ۔اس ایوارڈ سے ہمیں کوئی سروکار نہیں کیوں کہ اس قوم کا جذبہ ہی دشمن پہ لرزہ طاری کرنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن اس ایوارڈ سے توجہ چند پرانی تصاویر کی طرف چلی گئی ۔تصاویر بنگلہ دیش میں ہونے والی ایک کانفرنس کی تھی ۔

اور اس کانفرنس کا موضوع تھا Bangladesh Liberation War Honourیعنی بنگلہ دیش کے قیام میں مددگار ہونے والوں کے لیے اعزازاور اس کانفرنس میں شرکت کرنے والوں کو بنگلہ دیش کی آزادی کے دوستوں سے تعبیر کیا گیا تھا۔ یا اس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کو توڑنے کی خوشی منائی جا رہی تھی۔ اور پاکستان توڑنے کی حمایت کرنے والوں کو انعامات سے نوازا جا رہا تھا۔

ان تصاویر کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس میں ایسے چہرے بھی نظر آ رہے ہیں جن کے قلم کی کاٹ اور لفظوں کی دھار تلوار سے زیادہ تیز سمجھی جاتی ہے۔ اور جو صحافت کے مہاتیر بنے بیٹھے ہیں۔ اور سونے پہ سہاگہ کہ انہیں اس کانفرنس میں شرکت پہ آج تک افسوس نہیں ہوا۔ اب میں ایک طالبعلم کی حیثیت سے منتظر ہوں کہ حسینہ، مودی گٹھ جوڑ پہ ان کا قلم کیا لکھتا ہے اور ان کی زبان کیا بولتی ہے جن کا حسینہ واجد نے 71ء میں مدد پر شکریہ ادا کیا ۔

یا زبان بولتی بھی ہے یا نہیں۔
یہ وطن کی حرمت پامال کرنے والے نام نہاد صحافی ، دانشور، اہل عقل تو خیرحصہ بقدرے جثہ ڈال ہی رہے ہیں۔ لیکن دکھ کی انتہا ہے کہ جن کے ہاتھ میں اس ملک کی بھاگ دوڑ ہے وہ ایوان زیریں میں آتے ہیں اور ترقی کے دعوے کر کے رخصت ہو جاتے ہیں۔ شایدشہنشاہ ء عالم کے " نورتن" ان کو یہ بتانا بھول گئے کہ جناب دشمن للکار رہا ہے۔

اس کی للکار کے جواب میں ترقی کے دعوؤں کے بجائے ایک دھاڑ کی ضرورت ہے۔ لیکن شاید"بیربل" نے کہہ دیا ہو گا کہ جناب چھوڑیے آپ دھاڑ کر کیوں اپنے تعلقات خراب کریں گے۔ دھاڑنے بھی انہیں دیجیے جو خارجہ، داخلہ، اندرونی و بیرونی جنگوں سے پہلے ہی نمٹ رہے ہیں۔ اور ایسا ہی ہوا۔ کہ بیان دینے کی ذمہ داری کسی اور کی تھی لیکن دینا کسی اور کو پڑا۔

ایوان اقتدار کے باسی یہ حقیقت تو شاید جانتے ہی نہیں کہ جب سرحدوں پہ دشمن غرا رہا ہو تو میٹرو بس کے بجائے ٹھوس جواب کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیوں کہ کتے کی غراہٹ کا جواب شیر کی دھاڑ سے نہ دیا جائے تو کتا بھی شیر بن جاتا ہے۔
مودی و حسینہ گٹھ جوڑ اٹھارہ کروڑ سے زائد پاکستانی فوج سے مقابلہ کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف 313کا جذبہ ہے اور دوسری طرف ایک کبوتر سے خوفزدہ عیاری۔

پاکستانی کے قبائلی علاقوں کی قیادت نے بھی بھارت کو خبردار کیا ہے اور شاید مودی سرکار نے 48ء کی تاریخ تو پڑھ رکھی ہو گی۔ ہم آپس میں لڑیں یا خوش رہیں۔ تنقید کریں یا توصیف کریں۔ باہم دست و گریباں ہوں یا باہم شکرو شیر ۔بیرونی دشمن کے لیے ہم ایک فولادی مکے کی صورت ہیں۔ جس کا وار جبڑوں کو اپنے جگہ سے ہلا دے گا۔
اور ان نادان اپنوں کے لیے صرف یہی پیغام ہے جو اغیار کے تمغے سجانا اعزاز سمجھ رہے ہیں کہ یہ دھرتی اگر عزت کے مینار پہ چڑھا سکتی ہے تو یہ خود سے وفا نہ کرنے والوں کو رسوا بھی کر سکتی ہے۔

اس دھرتی کے خمیر میں اگر خلوص و عزت کی مٹھاس ہے تو اس میں دھتکار اور ذلت کی رسوائی بھی ہے۔ آپ فیصلہ کر لیں کہ آپ کو مادرِ وطن کی حرمت زیادہ عزیز ہے یا دشمن کے انعام و تمغے۔ پاکستان پائندہ باد

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :