پنجاب کا’زنانہ بجٹ‘ اوردیواروں کے ساتھ روایات کے لٹکتے لاشے

جمعرات 18 جون 2015

Muhammad Nawaz Tahir

محمد نواز طاہر

ایک دونی دونی سے آگے بڑھے تو بڑوں نے اخبار پڑھنے پر لگادیا۔تب ’ مشرق‘ اور ’مساوات‘ ملتا تھا پھردو کی قیمت میں تیسرا ’ امروز‘ بھی شامل ہوگیا، تھوڑا آگے بڑھے تو پاکستان ٹائمز اور ڈان پڑھنے کا وخت بھی پڑ گیا،مقصد الفاظ ، زبان و انداز اور حالات کے آگاہی تھا ، صحافتی اداروں، کارکنوں اور قوم کی بدقسمتی کہ امروز کی قبر کی مٹی بھی خشک ہوکر اُڑ چکی ہے، پاکستان ٹائمز اور مشرق طوائف جیسی حیثیت میں ہیں البتہ ڈان روزانہ نکلتا ہے( اللہ کرے مزید ترقی پائے)۔

حالات کی آگاہی کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت کے مواد کے ساتھ ساتھ اخبارات میں سیاستدانوں کی جملہ بازی خاصی دلچسپ ہوا کرتی تھی جو ضیائی ’ فوجی سورج ‘ کی روشنی میں تاریک ہوگئی ، کم و بیش ڈیڑھ دہائی کے بعد اسمبلیاں وجود میں آئیں تو یہ جملے بہت ساری تبدیلی کے بعد پھر سے پڑھنے بلکہ سننے اور لکھنے کا موقع مل گیا۔

(جاری ہے)

پارلیمانی زبان کی کیا خوب ادائیں و حسن اور ان سے بڑھ کر کمال کاتحمل تھا۔

پنجاب اسمبلی میں جب نوابزادہ غضنفر گل نے معروف لکھاری اور دانشور بشریٰ رحمان کو بلبلِ پنجاب قراردیا تو ان کے چہرے پر بھی بلبل سی چہک تھی ، پوری متانت ، ہلکی سی مسکراہٹ اور کھلے دل سے بشریٰ رحمان نے اس خطاب کا خیر مقدم کیا اور پھر بشری رحمان تو اسمبلی میں کم بولیں ، بلبل زیادہ چہکتی رہی۔بشریٰ رحمان آج بھی اگر اس لمحے کو یاد کرتی ہونگی تو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ اس وقت کیلئے ’ہوکا‘ ضرور بھرتی ہونگی۔


وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل گیا ہے ،اخبارات کی املا، الفاظ سے بدسلوکی بھی ویسے ہی ہے جیسے پارلیمانی زبان’ و یہلے واروں‘ کے تھڑے کی زبان بن گئی ہے۔ یہاں کی روایات میں بھی اسی تھڑے کی عکاسی ہورہی ہے ۔
وہ دن بھی یاد ہے جب پرانے پارلیمانی انداز میں جماعت اسلامی کے سید احسان اللہ وقاص نے بڑی پارلیمانی رنگینی کے ساتھ خواتین کی جانب (مثبت)اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ خواتین اسمبلی میں ایسے ہی ہیں جیسے کھانے کے ساتھ سویٹ ڈش ہوتی ہے۔

اس لفظ کے بعد وہ امدای الفاظ استعمال کرنے والے تھے کہ اسمبلی میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا ۔ مشرف ترمیم سے اسمبلی میں خواتین کی اتنی بڑی تعداد پہلی بار یہاں آئی تھی جن میں سے زیادہ تر نے شائد کبھی پارلیمان زبان سنی یا پڑھی نہیں تھی اور اسمبلی کی روایات سے بھی آگاہی نہیں تھی، ویسے بھی مشرف کی روشن خیالی کی پیداوار خواتین ایک’ مولوی‘ کے یہ الفاظ ہضم نہیں کرسکتی تھیں ، جو ہنگامہ کھڑا ہوا ، توبہ توبہ ۔

۔۔روش خیالوں نے احسان اللہ وقاص کا بہن بیٹی قراردینے کا مقدس رشتہ بھی اپنے ہنگامے میں دفن کردیا اور جب تک معذرت کیساتھ الفاظ واپس نہیں لئے گئے تب تک یوں لگ رہا تھا جیسے بھارتی فوج اسمبلی میں داخل ہوگئی ہے اور ہرطرف ’پھڑ لو پھڑلو‘ مچی ہوئی ہے۔اس کے بعد احسان اللہ وقاص نے پارلیمانی رویہ ترک کردیا اور سیدھی سیدھی بات کرنا شروع کردی البتہ ذومعنی الفاظ اور منفی اشاروں کی شکایات عام ہوگئیں یہاں تک کہ ایک ایسا موقع بھی آیا جب ایک وزیر کو ایسے ہی اشاروں کی بنیاد پر ایوان سے نکال دیا گیا۔


قواعد و روایات پیچھے چھوڑتے ہوئے سپیکر ڈپٹی سپیکر وزراء ، حکومت اور اپوزیشن ہر کوئی اپنے انداز سے چلنے کا عادی ہوگیا ، یہاں تک ایک بار جب ایک سپیکر کی توجہ دلائی گئی کہ آپ نے آئین و قانون کو روند ڈالا ہے تو انہوں نے مسکرا کرٹال دیا کہ سب چلتا ہے ۔یوں اسمبلی نے اپنی روایات کے انحطاط کا سفر جاری رکھا۔
پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون وزیرخزانہ نے بجٹ پیش کیا جس پر بحث کے دوران پارلیمانی زبان اور انداز ایک بار پھر جماعت اسلامی کے حصے میں آیا اور وہ بھی صوبائی امیر و پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر وسیم اختر کے ،جو چودھری اقبال گجر کی طرح ایوان میں صاف ستھری زبان استعمال کرنے کی خاص پہچان رکھتے ہیں ۔

انہوں نے بجٹ پربحث میں حصہ لیتے ہوئے اپنی تقریر کے ابتدا میں بجٹ کیلئے زنانہ بجٹ کے الفاظ استعمال کیے تو حکومتی ارکان نے شور شروع کر دیا اور احتجاج کیا ، اعظمیٰ زاہد بخاری نے یہ الفاظ واپس لینے کا مطالبہ کیا اورایوان سے واک آؤٹ کی دھمکی بھی دیدی تو سپیکر نے وضاحت کی زنانہ بجٹ کوئی لفظ نہیں، بجٹ زنانہ یا مردانہ نہیں ہوتا ،سب کا بجٹ ہوتا ہے اس لئے زنانہ بجٹ کے الفاظ کارروائی کا حصہ نہ بنائے جائیں ۔

ڈکٹر وسیم اختر یہ کہتے ہی رہ گئے کہ زنانہ بجٹ سے مراد منفی الفاظ ہرگز نہیں بلکہ پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار خاتون وزیر کے بجٹ پیش کرنے کے حوالے سے یہ الفاظ استعمال کر رہے ہیں اور ان کے اگلے افاظ تو سنیں وہ کیا توصیفی الفاظ کہنے جارہے ہیں لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی ، انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ وزیر خزانہ ایک ماہر معاشیات اور پڑھی لکھی تجربہ کار خاتون ہیں ، خواتین بحیثیت مجموعی نرم دل ہوتی ہیں اور ہم توقع رکھتے ہیں کہ اگلی بار جب انہیں خود بجٹ بنانے کا موقع ملے گا تو وہ اپنی مہارت اور بصیرت معاشرے کے محروم طبقات کے مفاد میں استعمال کریں گی۔


احسان اللہ وقاص کی طرح ڈاکٹر وسیم اختر کو معافی تو نہ مانگنا پڑی لیکن میرا خیال ہے کہ دوبارہ یہ پارلیمانی انداز اختیار نہیں کریں گے، ویسے بھی اب بشریی رحمان کے دور کے ذہین اور روایات کے امین کھلے دل والے انگوٹھا چھاپوں کی اسمبلی نہیں گریجویٹ اسمبلی ہے۔
اب سردار امجد حمید دستی جیسے الفاظ اداکرنے اور حنیف رامے جیسا گرہ لگانے والا یہاں کوئی نہیں ۔۔ بس ڈنگ ٹپاؤ ، نوکری بچاؤ ، خوشامد کرو اور کام نکالو ہی روایت اور ضرورت بن چکی ہے ۔پرانی روایات بھی ان کی امین روحوں کی تصاویر کی طرح اسمبلی کی عمارت کی دیواروں کے ساتھ لٹکی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :