انسان کو بھی میسرنہیں انسان ہونا

جمعرات 18 جون 2015

Dr Ghazanfar Ali Khan

ڈاکٹر غضنفر علی خاں

ایک وقت ایسا تھا جب کوئی حادثہ ہوتا تو لوگ حادثے سے متاثرہ افراد کا سہار ابنتے اور جہاں تک ممکن ہوتا ان کی امداد کرتے۔ اب یہ وقت آگیا ہے کہ ایک اندھوں کی دوڑ ہے اور وہ بھی اندھیرے میں کسی کو کسی کی نہ خبر نہ پتہ۔اب تو انسان خود سے انسانیت کا پتہ پوچھے تو شاید درست پتہ نہ بتاسکے۔
زندگی خوشی اور غمی سے عبارت ہے ۔کبھی خوشی آتی ہے تو انسان کو ایسا لگتا ہے کہ جہاں روشن اور رنگوں سے بھرا ہوا ہے اور کبھی غم کا دور شروع ہوتا ہے جو محسوس ہوتا کہ ختم ہی نہیں ہوگا۔

پھر امید کی کرن نظر آتی ہے اور آہستہ آہستہ غم کا گھپ اندھیرا چھٹ جاتا ہے ۔سانحہ پشاور کیسا سانحہ تھا روح تک کانپ گئی کہ معصوم پھولوں جیسے بچوں پر اتنا ظلم ہوکہ نہ تو ضبطِ تحریر میں لایا جاسکتا ہے نہ زبان سے بیان ہوسکتا ہے۔

(جاری ہے)

روزانہ میڈیا پر بارہا دفعہ حادثات کی خبر سنی لیکن اس خبر کو سن کر تو جیسے اپنی سانس بند ہوتی محسوس ہوئی ۔آنکھیں اشکبار ہوئیں،دل پریشان ،والدین کے دکھ کا کیا اندازہ ہو جن کے لخت جگر کی آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔

وہ ماں اپنے ہر دکھ کو بھول کر صرف اپنے بچے کے روشن مستقبل کی آس لگائے ہوئے تھی۔ وہ باپ جو شب و روز محنت کرکے اپنے لعل کے لیے ہر چھوٹی سے لے کر بڑی خواہش کو پورا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا تھا اس کے دل پر کیا گزری ہوگی۔
انسان میں اگر انسانیت ہو تو فرشتوں سے افضل اور اگر انسانیت کا پہلو نکال دیاجائے تو حیوانوں سے بھی بدتر۔سمجھ سے باہر ہے کہ انسان یہ کرسکتا ہے ۔

پھر اندر سے آواز آتی ہے ہے کہا انسان اگر انسان ہے تو نہیں کبھی نہیں لیکن یہ تو درندگی اور سفاکی کی وہ مثال ہے کہ چنگیز خاں بھی پناہ مانگے۔ جنگ اور دشمنی کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں ۔بچے دشمن کے بھی ہوں تو آخر بچے ہیں ۔ فصل بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے۔آخر کب سکھ کا سانس نصیب ہوگا ،کب ہمارے ملک میں امن کا قیام ہوگا ،کچھ معلوم نہیں ایک خوف کی فضا ہے۔


مذہب اور انسانیت کسی طور پر بھی کمزورں،مظلوموں،عورتوں،بوڑھوں اور بالخصوص بچوں پر ظلم ، جبر ،بربریت کی اجازت نہیں دیتے۔اسلام کا مذہب تو امن،پیار اور شفقت کا پیام اور پرچا ر کرتا ہے۔خود پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی مبارک سے ہمیں سبھی کے ساتھ پیار اور محبت کا درس ملتا ہے بالخصوص بچوں کے ساتھ۔
آج ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ دو طرح سے خوف کا سامنا ہے ایک برائے نام ماڈرن اور مہذب معاشرہ اور دوسرا اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے ظلم کرنے والا طبقہ ۔

اب ایک عام انسان کہاں جائے آخرجینا تو ہے۔یہ بچے تو اللہ تعالیٰ کے پاس چلے گئے اور ان کو شہادت کا مرتبہ ملا ۔ ان کے بارے میں تو ہم قیاس نہیں کرسکتے کہ و ہ اللہ کے پاس کس طرح کی زندگی میں ہوں گے کیونکہ شہید کو مردہ نہیں کہا جاسکتا۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات اور بلند فرمائے۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ انتہا کی تکلیف اور کرب کے بعد وہ بچے ہمارے پاس سے چلے گئے اب ان والدین کا کیا ہے۔

ایک اور اذیت کی داستان ہے جو تاحیات شب و روز ان کو سننا ہوگی۔ بچے تو خوشبو تھے ۔خداکے پاس چلے گئے لیکن ان والدین اور عزیز و اقربا پر ہرروز جو کرب کی کیفیت چل رہی ہے اس کا اندازہ لگانا بھی محال ہے۔
یہ پھول سے بچے اب خواب سے ہو گئے
اوڑھ کر پھولوں کا کمبل اب گہری نیند سو گئے
ساتھ چلیں گے منزل تک ہوتا تھا پہلے یہ گماں
راستے میں میرے بچے نہ جانے کہاں کھو گئے
ایک اہم پہلو وہ یہ ہے کہ مذہب اسلام جو کہ اصل میں امن اور سلامتی کا دین ہے اس مذہب کو غلط طریقے سے پیش کیا جارہا ہے۔

اسلام اور سیرت النبیﷺ ہمیں پیار،شفقت،بردباری، برداشت اور دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کی طرف راغب کرتے ہیں۔
اگر ہم آقا دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو ہمیں اس بات کا پرچاربھی کرنا ہوگا کہ پیارے آقاﷺ نے انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی ہے اور بچوں کے ساتھ ان کا پیار تو مثالی ہے۔یہ کون ہیں جو اسلام کی غلط تصویر کشی کررہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں شعوراجاگر کرناچاہیے کہ ہم تفریق اور باہمی جھگڑوں سے نکل کر پیار اور محبت کی ترویج کریں جوکہ اسلام کاخاصہ اور طرہٴ امتیاز ہے اور اپنے بچوں کے روشن اور محفوظ بنانے کے لیے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیارے اصولوں پر چلیں اور محبت اور امن کا پیغام عام کریں اور نفرت کو مٹائیں۔اسلام تو وہ پیارا دین ہے جس میں بچیوں کو زندہ درگو ہونے کی رسم کا خاتمہ کیا اور انسانیت کو عروج دیا۔


ضرورت اس امر کی ہے کہ نفرتوں کو مٹا کر انسانیت کو فروغ دیا جائے ،ملکی اور بین الاقوامی سطح پر امن و آشتی کا پرچار کیاجائے تاکہ ہمارا آج اور کل دونوں محفوظ ہوسکیں اور انسان اپنی انسانیت کا بھرم قائم رکھ سکے۔ عالمی سطح پر بھی ظلم و بربریت کی کئی داستانیں رقم ہوتی رہی ہیں جن میں فلسطین اور بوسنیا کی مثالیں واضح ہیں۔حال ہی میں برما کے مسلمانوں بالخصوص بچوں پر جو ظلم ڈھایا جارہا ہے ،دل کو چیر رہا ہے۔

اس طرح کے واقعات جو دنیا میں رونما ہورہے ہیں انسان سے سوال کررہے ہیں کیا انسان واقعی انسان ہے؟ مزید براں نفرت کا وہ طوفان ہے جو اپنے اندر لسانی و مذہبی اور گروہی تفرقات کا زور لیے ہر چیز کو تہس نہس کیے جاتا ہے۔بین المذاہب میں موجود غلط فہمیاں دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ انسان کو انسان سمجھا جائے اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :