آنگ سانگ سوچی کے دیس میں ظلم کی داستان

جمعرات 18 جون 2015

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والی آنگ سانگ سوچی کے ملک برما میں ظلم و جبر کی ایسی تاریخ رقم کی جارہی ہے جس کی شائد تاریخ میں مثال نہ ملے اور اس پر مستزاد ان کی کی خاموشی ہے ۔ میانمار کی ریاست رخائن میں کئی دہائیوں سے آباد لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کو کیا پتہ تھا کہ جس زمین پرانہوں نے آنکھ کھولی وہی زمین ان کے لئے تنگ کردی جائیگی۔

بدھ مت کے شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی پرتشدد کارروائیوں سے پریشان سینکڑوں برمی مسلمانوں کی کشتی بیچ منجدھار ہچکولے کھا رہی ہے۔ بنگلا دیش اور کئی بین الاقوامی کیمپوں میں محصور روہنگیا مسلمانوں کو کیمپ چھوڑنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔ ان حالات میں میانمار کی” اصول پسند،جرات مند،جمہوریت ، انسانی حقوق کی علمبرداراور نوبل امن انعام یافتہ آگ سانگ سوچی کی خاموشی دنیا بھر کیلئے سوالیہ نشان بن گئی ہے۔

(جاری ہے)

میانمار پارلیمان میں حزبِ اختلاف کی رکن 69 سالہ سوچی اکثر حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتی نظر آتی ہیں لیکن روہنگیا مسلمانوں کے معاملے پر انہوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔اس وقت وہ ملک میں عام انتخابات کی مہم چلا رہی ہیں اور خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ اس موقع پر روہنگیا مسلمانوں کی حمایت کر کے شدت پسند بدھ مت کی مخالفت مول لینا نہیں چاہتیں۔


روہنگیا مسلمانوں کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ انڈو آریان اور میانمار کی ریاست رخائن کے باسی ہیں۔ برمی حکومت بد ھ دہشت گردوں کے دباو میں آکر یہ موقف اختیار کئے ہوئے ہے کہ روہنگیا کے لوگ مقامی نہیں بلکہ برطانوی راج کے دوران بنگال سے نقل مکانی کر کے برما کے قریب واقع ایک ریاست رخائن میں آبسے تھے۔ جسے 1862ء میں قبضہ کر کے باقاعدہ برما کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔

برطانیہ کی پہلی مردم شماری 1872ء کے مطابق 60 ہزار کے لگ بھگ مسلمان رہتے تھے اس کے بعد دوسری مردم شماری 1911ء میں کروائی گئی اس کے مطابق یہ تعداد بڑھ کر دو لاکھ کے قریب ہوگئی تھی۔ برمی مسلمانوں کے برئے دن اس وقت شروع ہوئے جب 1942ء میں دوسری جنگ عظیم اپنے عروج پر تھی اور روہنگیا مسلمانوں کی ایک خاص بڑی تعداد برطانوی فوج میں بھرتی ہو چکی تھی۔

بتایا اجاتا ہے کہ ایک معمولی واقعے کے نتیجے میں مسلمان فوجیوں اور مقامی بدھ راہبوں کے درمیان تصادم ہوگیا اور قتل و غارت گری کے نتیجے میں سینکڑوں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہیں سے فرقہ واریت کی بنیاد پڑی اور پھر چل سو چل نفرت کی آگ ایسی جلی کے انسانوں کے جسم بھسم ہوتے گئے اور یہ خطہ لسانی اور مذہبی منافرت کا شکار رہا ہوا۔
57 کے قریب مسلم ممالک ہیں جن میں کئی مال و دولت سے مالا مال ہیں لیکن مجال ہے کسی نے ان بے بسوں کی جانب رحم بھری آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا ہو اور ان کی مدد کرنے کی کوشش کی ہو۔

ہزاروں تباہ حال روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ اتنی گھمبیر صورت اختیار کر چکا ہے کہ بے گھر ہونے والے یہ لوگ آج کل پرانی اور شکستہ کشتیوں پر سوار سمندروں میں در بدر بھٹک رہے ہیں اور کوئی بھی ملک اْنہیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہو رہا۔ انسانی اسمگلروں کے خلاف تھائی حکومت کا کریک ڈاوٴن شروع ہونے کے بعد سے چار ہزار سے زیادہ روہنگیا مہاجرین میں سے زیادہ تر انڈونیشیا، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور میانمار پہنچے ہیں جبکہ باقی بدستور سمندروں کی بے رحم لہروں کے رحم و کرم پر محوِ سفر ہیں۔

میانمار میں روہنگیا اقلیت کی آبادی کا اندازہ ایک اعشاریہ ایک ملین لگایا گیا ہے تاہم وہاں کی حکومت انہیں اپنا شہری تسلیم نہیں کرتی اور یوں عملاً یہ مسلمان کسی بھی ملک کی شہریت نہیں رکھتے۔ میانمار کی راکھین ریاست میں آباد اس مسلمان اقلیت کو مقامی بودھ آبادی کی طرف سے انتہائی شدید امتیازی سلوک اور ناقابلِ تصور مظالم کا سامنا ہے جبکہ میانمار کی حکومت کا موقف یہ ہے کہ روہنگیا کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک ر وا نہیں رکھا جا رہا۔


پرنٹ اور الیکٹرونکس اور سوشل میڈیا پر شور و غوگا کے بعد بند آنکھیں اور کان کھلنا شروع ہوئے ہیں مگر ابھی تک وہ دیکھنے اور سننے کی صلاحیت سے محروم ہیں لیکن پھر بھی امریکا نے کہا ہے کہ میانمار کی حکومت کو روہنگیا مسلمان اقلیت کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہیے، جو وہ اپنے باقی شہریوں کے ساتھ کرتی ہے اور یوں جنوب مشرقی ایشیا میں مہاجرت کے موجودہ بحران کی اصل جڑ کو ختم کرنا چاہیے۔

امریکا نے میانمار کے تمام سیاسی رہنماوٴں پر زور دیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے معاملات میں آواز بلند کریں۔ اوباما کے دورِ صدارت میں میانمار میں جمہوری عمل کی ترویج کو بے پناہ اہمیت دی جا رہی ہے، ایسے میں واشنگٹن حکومت نے میانمار کی حکومت پر ایسے تمام تر مسائل کو حل کرنے کے لیے دباوٴ بڑھا دیا ہے، جو اس ملک میں جمہوری عمل کی بحالی کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔

نائب امریکی وزیر خارجہ این رچرڈ نے کہا، ”روہنگیاز کے ساتھ برما کے شہریوں کا سا سلوک کیا جانا چاہیے، اْنہیں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کیے جانے چاہییں تاکہ یہ بات واضح ہو کہ باقی شہریوں کی طرح وہ بھی میانمار کے شہری ہیں۔“این رچرڈ ایک مرتبہ راکھین ریاست کا دورہ بھی کر چکی ہیں۔ اْسی دورے کا حوالہ دیتے ہوئے اْنہوں نے جکارتہ میں صحافیوں کو بتایا کہ وہاں اْنہیں جبر کا ایک ایسا ماحول نظر آیا تھا، جو اْنہوں نے اپنے کسی بھی بیرونی سفر میں نہیں دیکھااین رچرڈ نے کہا کہ امریکا میانمار پر کوئی پابندیاں عائد نہیں کرنے جا رہا تاہم پابندیوں کا ہتھیار استعمال کرنے کا امکان ہر وقت موجود رہتا ہے۔

ابھی بھی میانمار کے خلاف کچھ پابندیاں بدستور جاری چلی آ رہی ہیں۔این رچرڈ نے نہ صرف بنکاک میں روہنگیا مہاجرین کے موضوع پر منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں امریکا کی نمائندگی کی بلکہ وہ اسی سلسلے میں ملائیشیا اور انڈونیشیا کے دورے بھی کر چکی ہیں۔ اْنہوں نے توقع ظاہر کی کہ میانمار سات سو سے زیادہ مہاجرین کی اْس کشتی کو ساحل تک آنے دے گا، جسے میانمار کی بحریہ نے روک رکھا ہے اور ساحل کے قریب نہیں آنے دی رہی۔یہ کشتی گنجائش سے زیادہ مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ خصوصاً امیر ممالک ان بے بس مجبوروں کی حالت زار کا خیال کرتے ہوئے ان کی ہر ممکن مدد کرنے کے لئے وقت ضائع نہ کریں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :