یہی زندگی ہے !

پیر 15 جون 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

سوامی راما مشہور ہندو یوگی تھے ،وہ ایک بار جاپان کے سفر پے جا رہے تھے ،جس بحری جہاز پروہ سوار تھے اسی جہاز میں ایک نوے سالہ جرمن بوڑھا بھی سوار تھا ،بوڑھے کی آنکھیں اندر دھنس چکی تھیں ،دانت گر چکے تھے ،بال مکمل سفیدتھے، کھال لٹکی ہوئی تھی ،ہاتھوں پر رعشہ طاری تھاا ور پاوٴں لڑکھڑا رہے تھے ۔بوڑھے کی وضع قطع سے لگتا تھا یہ صرف دو چار دن کا مہمان ہے اوردو چار دن کے بعد اس کے اگلے سفر کا پروانہ جاری ہو جائے گا۔

سوامی راما نے دیکھا وہ بوڑھا اس عمر میں چینی زبان سیکھنے کو کوشش کر رہا ہے ،اس نے ایک چینی کتاب اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی جسے وہ بمشکل پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ چینی زبان دنیا کی مشکل ترین زبان ہے اور اسے سیکھنا دنیا کا مشکل ترین کام ، چینی زبان سیکھنے سے بہتر ہے آپ چوہدری شجاعت کی زبان سیکھ لیں کم از کم دو چار لفظ تو آپ سیکھ ہی جائیں گے۔

(جاری ہے)

چینی زبان کے مشکل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں حروف تہجی نہیں ہوتے یہ صرف تصویری زبان ہے اور ہر لفظ کے لیئے ایک مخصوص تصویر ہوتی ہے ۔مثلا اگرآپ کسی کو لڑائی جھگڑے کی مثال سمجھانا چاہتے ہیں تو اور اسے الفاظ میں بیان کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیئے آپ کے پاس کو ئی الفاظ نہیں بلکہ آپ کو تصویر سے سمجھانا پڑے گا ،مثلا آپ ایک تصویر دکھائیں گے جس میں دو عورتیں ایک چھت کے نیچے بیٹھی نظر آئیں گی اور اگلا بندہ خود ہی سمجھ جائے گا ۔

اب اگر آپ چینی زبان سیکھنا چاہتے ہیں یا اس کے بارے میں تھوڑی بہت واقفیت چاہتے ہیں تو آپ کو ہزاروں لاکھوں تصویریں ذہن میں بٹھانا پڑیں گی اور انہیں مکمل طور پر ذہن نشین کرنا ہو گا ۔سوامی راما کو شدید حیرت ہوئی کہ یہ بوڑھا نوے سال کی عمر میں چینی زبان سیکھنے کی کو شش کر رہا ہے اور اب اگر یہ زبا ن سیکھ بھی جاتا ہے تو اس عمر میں اس کا فائدہ۔

وہ بوڑھا روزانہ سورج طلوع ہوتے ہی جہاز کے عرشے پرآجاتا تھا اور سورج غروب ہونے تک مسلسل اس کتاب میں کھویا رہتا ،سورج غروب ہوتا ،جہاز کے عرشے پر اندھیرا چھا جاتا تو وہ بوڑھا اپنے کمرے میں چلا جاتا ۔تین دن تک سوامی راما بوڑھے کے یہ معمولات دیکھتے رہے ،آخر ان سے رہا نہ گیا اور ایک دن وہ بول پڑے”میں نے سنا ہے کہ چینی زبان سیکھنے کے لیئے دس سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے اور آپ کی عمر سے لگتا ہے کہ آپ اتنا عرصہ زندہ نہیں رہیں گے تو آپ یہ ساری تکلیف کیوں اٹھا رہے ہیں “بوڑھے نے کتاب بند کی ،کن انکھیوں سے سوامی راما کو گھورا اور بولا ”میں کتنے سال مزید جیتا ہوں مجھے اس کی کوئی پرواہ ہے اور نہ میرے پاس ایسی فضول باتوں پر توجہ دینے کا وقت،میری عمر نوے سال ہے اور میرا نوے سالہ تجربہ کہتا ہے کہ میں کسی بھی وقت مر سکتا تھا لیکن میں نہیں مرا، اب تک زندہ ہوں ،اگر میں اب تک زندہ ہوں تو مجھے امید ہے میں مزید کچھ عرصہ بھی زندہ رہ سکتا ہوں ،کیا میں آپ کی عمر پوچھ سکتا ہوں “سوامی راما کی عمر اس وقت تیس سال تھی ،سوامی نے فورا بتایا کہ میں تیس سال کا ہوں ،سوامی کا جواب سن کر جرمن بوڑھے نے طنزیہ مسکراہٹ چہرے پے سجائی اور بولا ”میرے بیٹے میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ تم برصغیر کے لوگ اور تمہارے ملک کیوں بوڑھے ہو جاتے ہیں ،تم لوگ کچھ کرنے کی بجائے صرف موت کا انتظار کرتے ہو اور بس ،اس لیئے بوڑھا ہونا تم لوگوں کا مقدر ہے “
کم ہمت،زندگی سے مایوس ،اپنے مستقبل سے ناامیداور مرنے کے انتظار میں بیٹھے رہنے والوں کے لیئے جرمن بوڑھے کا یہ بہترین تجزیہ ہے ۔

ہم نے کام سے جی چرانے اور محنت سے بھاگنے کا آسان فارمولا ڈھونڈ لیا ہے کہ آخر ایک دن مر ہی جانا ہے ،مرنے سے انکار نہیں اور کوئی سلیم العقل انسان اس سے انکار کر بھی نہیں سکتا لیکن مرنے سے پہلے ہمیں جینا بھی تو آنا چایئے ،مرنے کے لیئے جینا لازم ہے ،جو جتنے اچھے انداز میں جیئے گا وہ اتنے اچھے انداز میں مرے گا ،موت سے مفر ممکن نہیں لیکن ہمیں جینے کا سلیقہ بھی تو آنا چاہیئے۔

جو انسان جس حال میں جینا چاہے اوپر والا اسے اسی حال میں رکھتا ہے ، اوپر والا ہاتھ اور نیچے والا ہاتھ دونوں برابر نہیں ہو سکتے ،د ن بھر محنت کرنے والے اور دن بھر سونے والے کو آپ ایک قطار میں کھڑا نہیں کر سکتے،ہاتھ سے لکڑیاں کاٹ کے بیچنے والے اور در بدر مانگ کر کھانے والے دونوں انسان ہیں ،دونوں کے ہاتھ پاوٴں ایک جیسے ہیں ،دونوں اس اوپر والے کی تخلیق ہیں فرق انہوں نے خود پیدا کیا ہے ،مانگ کر ذلت و رسوائی کی زندگی گزارنے اور محنت کر کے عزت واحترام کی زندگی گزارنے کافن دونوں نے خود سیکھا ہے ۔

آپ محنت کریں وہ پھل آپ کی جھولی میں ڈال دے گا ،صرف ایک ہی تو پھل ہے جو وہ سب کو ضرور مہیا کرتا ہے،اور وہ ہے محنت کا پھل ،آپ کسی غلط کام میں بھی محنت کریں اس کا نتیجہ ضرور ملے گا ۔لمبی عمر پانا اور جلدی مرجانایہ بھی کسی حد تک انسان کے اپنے بس میں ہے ، آپ اسباب اختیار کریں اوپر والا نتائج ضرور دے گا ۔آپ دیکھ لیں وہ جرمن بوڑھا مزید پندرہ سال تک زندہ رہا،اس نے ایک سو پانچ سال عمر پائی ،نہ صرف چینی زبان سیکھی بلکہ مرنے سے پہلے چینی زبان میں ایک کتاب بھی لکھ ڈالی جبکہ سوامی راما اس واقعے کے دو سال بعد صرف بتیس سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

اس بوڑھے کی طویل العمری میں اس کی محنت اور زندہ دلی کا بڑا کردار تھا ،وہ جینا چاہتا تھا ، وہ زندہ رہنے کے لیئے جد و جہد کر رہا تھا اس لیئے پھر وہ زندہ رہا بھی۔
نطشے کی میز پر ایک تختی پڑی رہتی تھی ،اس تختی پر صرف دو الفاظ تحریر تھے ،جب بھی کوئی شخص نشے سے اس کی روح ، محنت اورزندگی کے بارے میں سوال کرتا تو نطشے اس تختی کی طرف اشارہ کر دیتا تھا ، اس تختی پر لکھا تھا ”پرخطر زندگی گزارو“۔

جینے کا اصل مزا اسی میں ہے آپ ہر وقت کسی نئی جستجو، کسی نئی حقیقت ، نئے ادراک اور نئی سوچ کی تلاش میں ہوں ۔آپ ہر وقت کسی نئی مصیبت اور نئے مسائل میں گھرے ہوئے ہوں ۔محفوظ اور پر سکون زندگی گزارنے والا زندگی کی حقیقتوں اور لذتوں سے آشنا نہیں ہو سکتا،وہ زندگی کے تجربات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا،قبروں میں رہنے والے بہت محفوظ ہوتے ہیں ،پر سکون ،کم از کم باہر سے کوئی خطرہ نہیں ،جوہڑ بھی پر سکون ہوتا ہے لیکن گندا ،بدبو دار جس میں کو ئی ہاتھ ڈالنا بھی گوارانہیں کرتا ،اور بہتی ندی اپنا ایک وجود رکھتی ہے ، مسلسل بہاوٴ،لوگ چلو بھر کر اس سے بھیک مانگتے ہیں ،یہی زندگی ہے خود بہتے جاوٴ ،دوسروں کو سیراب کرو۔

ہم پتھر ہیں ،وہ پتھر جو گلاب کے پھول کے پاس ساری زندگی بے جان پڑا رہتا ہے ، ہزاروں سالوں سے ایک ہی جگہ ،ایک جیسے دن رات، ایک جیسا موسم، اس کے ساتھ اگنے والے گلاب کی زندگی اگرچہ مختصر ہے لیکن وہ مختصر سی زندگی میں اپنا نشان چھوڑ جاتا ہے ،صبح سویرے کھلتا ہے ، سورج کی کرنو ں میں رقص کرتا ہے، آسمان کو چھونے کی جستجو کرتا ہے ،پوری جرات کے ساتھ سورج کا مقابلہ کرتا ہے اور شام کو سوکھ کر مرجھا جاتا ہے ،پھول کی یہ ایک دن کی زندگی پتھر کی ہزاروں سالوں کی زندگی سے بہتر ہے ۔

پتھر ہزاروں سالوں میں نہیں جان پاتا کہ کھلنا،پھول بننا ،مرجھانااور زندگی کی تبدیلیوں سے گزرنا کتنا خوبصورت تجربہ ہے اور پھول ایک دن میں زندگی کے تمام تجربات سے گزر کر ہمیشہ کے لیئے امر ہو جاتا ہے۔یہی زندگی ہے ،یہی روشنی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :