یہی اصل وجہ ہے

ہفتہ 13 جون 2015

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

پہلا منظر نامہ :گاوٴں کے اسکول میں کئی ٹیچر ہیں، مگر روزآنہ ڈیوٹی پر چند ایک ہی حاضر ہوتے ہیں ۔ زیادہ تر ٹیچروں نے ہفتے میں ایک آدھ دن اسکول میں ڈیوٹی پر آنے کے لئے آپس میں باریاں باندھی ہوئی ہیں۔ محکمہ تعلیم کے ضلعی حکام کو انکا ماہانہ نذرانہ پہنچادیا جاتا ہے۔ یہ سارا انتظام بہ حسن و خوبی چل رہا ہے۔
تحصیل کے ہسپتال میں عام ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ کئی اسپیشلسٹ ڈاکٹر بھی تعینات ہیں ۔ ان ڈاکٹروں کو حکومت تنخواہ کے علاوہ خصوصی الاوٴنس بھی ادا کرتی ہے۔ گذشتہ برسوں میں حکومت نے ہسپتال میں مختلف امراض کے علاج کے لئے جدید مشینری بھی مہیا کی ہے۔ ایک بین الاقوامی این جی او کی ملکی برانچ نے بھی ہسپتال کو کافی آلات فراہم کئے ہیں۔ ان آلات کو درست رکھنے اور وقتاً فوقتاً مرمت کے لئے ہسپتال میں ٹیکنیشن کی تعنیاتی بھی کے گئی ہے اور ضلع کے ہیلتھ آفس میں انجیئرز بھی تعینات ہیں جو تمام تحصیلوں کے ہسپتال میں موجود آلات کو درست رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔

(جاری ہے)

یادہ ترڈاکٹروں نے ہفتے میں ایک آدھ دن ہسپتال میں ڈیوٹی پر آنے کے لئے آپس میں باریاں باندھی ہوئی ہیں۔روزآنہ ڈیوٹی پر چند ایک ہی حاضر ہوتے ہیں۔ ہسپتال میں موجود اکثر تشخیصی مشینیں اور آلات خراب رہتے ہیں۔ متعلقہ انجینئرز اور ٹیکنیشنز بھی زیادہ تر غیر حاضر رہتے ہیں۔محکمہ صحت کے ضلعی حکام کو انکا ماہانہ نذرانہ پہنچادیا جاتا ہے۔ یہ سارا انتظام بھی بہ حسن و خوبی چل رہا ہے۔
ضلع کے سماجی بہبود کے محکمے میں افسروں اور اہلکاروں کی کئی آسامیاں ہیں مگر ر وزآنہ ڈیوٹی پر چند ایک ہی حاضر ہوتے ہیں۔ باقی لوگوں نے ڈیوٹی پر آنے کے لئے آپس میں باریاں باندھی ہوئی ہیں۔ڈویژنل حکام کو انکا ماہانہ نذرانہ پہنچادیا جاتا ہے۔ یہ سارا انتظام بھی بہ حسن و خوبی چل رہا ہے۔
ملک کے سب سے بڑے شہر کی میٹرو پولیٹن کارپوریشن میں افسروں اور اہلکاروں کی ہزاروں آسامیاں ہیں، مگر شہر گند سے اٹا پڑا ہے، گٹر ابل رہے ہیں، گلیاں ٹوٹی ہوئی ہیں، شہر بھر میں کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ کیونکہ ہزاروں بلدیاتی اہلکار ایک مقامی سیاسی پارٹی کے حلف یافتہ کارکن ہیں ، لِہٰذہ اس پارٹی کی دہشت کے بل پر اپنی ڈیوٹیوں سے حاضر رہتے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی دیگر بہت سے ملازمین افسروں کو حصے پہنچاکر غیر حاضر رہتے ہیں۔ یہ سارا انتظام بھی بہ حسن و خوبی چل رہا ہے۔
اسی طرح صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے سیکریٹیریٹ میں کام کرنے والے سیکڑوں ملازمین روزآنہ غیر حاضر ہوتے ہیں۔ یہ سارا انتظام بھی بہ حسن و خوبی چل رہا ہے۔
ایک اور طرف آتے ہیں۔ لوگ کسی وجہ سے حکومت کے خلاف یا کسی سرکاری اہلکار کے خلاف یا مخالف دھڑے کے خلاف جلوس نکالتے ہیں اور اپنے غصّے کے اظہار کے لئے ٹریفک سگنل توڑ دیتے ہیں، سرکاری گاڑیاں جلا دیتے ہیں اور سرکاری عمارتوں کو آگ لگا یتے ہیں۔ گذشتہ اڑسٹھ برسوں سے یہ معاملہ ایسے ہی چل رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ بد انتظامی کا یہ سارا انتظام کیسے بہ حسن و خوبی چل رہا ہے۔اس بات کو تھوڑی دیر کے لئے یہیں چھوڑتے ہیں اور دوسرے منظرنامے پر پر نگاہ ڈالتے ہیں۔
دوسرا منظر نامہ : گاوٴں کی مسجد کے امام صاحب کئی سال سے پانچ وقت کی نمازیں پڑھا رہے ہیں ، روزآنہ ظہر اور عصر کے درمیان گاوٴں کے بچوں کو قرآن پاک پڑھانا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ بغیر کسی ہفتہ وار چھٹی کے امام صاحب اپنے فرائض بخیروخوبی ادا کر رہے ہیں۔ اما م صاحب کی تنخواہ گاوٴں کے لوگ پیسے جمع کرکے ادا کرتے ہیں۔ کئی لوگ نقد رقوم دیتے ہیں اور دیگر گندم، یا چاول کی بوریوں کی صورت میں ادائیگی کرتے ہیں۔
شہری ہاوٴسنگ سوسائٹی کے مکینوں نے یونین بنائی ہوئی ہے۔ سوسائٹی کے تمام مکین باقاعدگی سے یونین فیس ادا کرتے ہیں۔ اس رقم سے سوسائٹی نے خاک روبوں اور چوکیداروں کا انتظام کیا ہوا ہے۔ یہ تمام ملازمین باقاعدگی سے ڈیوٹیوں پر حاضر ہوتے ہیں۔ بغیر اجازت چھٹی کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ کوتاہی کی صورت میں سوسائٹی کے مکین باز پرس کرتے ہیں۔
انجمن صلائے عام کے زیرِ انتظام ہائی اسکول میں پانچ سو سے زیادہ بچے زیر تعلیم ہیں۔ اسکول کے اساتذہ اور دیگر ملازمین کی تنخواہیں ، انجمن کے ارکان کی رکنیت فیس سے ادا کی جاتی ہیں۔ تمام عملہ باقاعدگی سے حاضر ہوتا ہے اور اسکول بھی بہترین نتائج دیتا ہے۔ بغیر اجازت چھٹی کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ کوتاہی کی صورت میں انجمن کے ارکان باز پرس کرتے ہیں۔
مندرجہ بالا دونوں منظر نامے ایک دوسرے سے اتنے مختلف کیوں ہیں۔
پہلے منظرنامے میں لوگ سرکاری ملازموں سے لا تعلق ہیں اور ان کے فرائض کو کسی بھی طرح کے احتساب سے سوا سمجھتے ہیں۔ گاوٴں کے لوگ حکومت کو کسی بھی طرح کا براہِ راست ٹیکس نہیں دیتے۔ اگر اس گاوٴں کے لوگ ٹیکس دیں اور انکو علم ہو کہ اسکول کے ٹیچروں کی تنخواہیں گاوٴں کے لوگ ہی ٹیکس کی صورت میں ادا کر رہے ہیں تو یہ کبھی بھی اسکول میں ایسی بد انتظامی نہ ہونے دیں۔جیسا کہ انجمن صلائے عام کے اسکول میں کوئی بد انتظامی نہیں ہے، کیونکہ عملے کی تنخواہیں ، انجمن کے ارکان ادا کرتے ہیں، لِہٰذا عملے سے باز پرس کا نظام موجود ہے۔ براہِ راست ٹیکس نہ دینے والے عوام ملک میں موجود سہولیات کو صرف مالِ مفت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ حکومت کی طرف سے مہیا کی گئی عوامی سہولیات کو اپنی ذاتی ملکیتی اشیاء کی طرح نہیں اپناتے۔ یہی وجہ ہے ہر احتجاج میں سرکاری اشیاء اور سہولیات کو پرایا مال سمجھتے ہوئے ، غُصّہ ان پر نکالا جاتا ہے۔ اگر ہر شخص ایمانداری سے ٹیکس ادا کر رہا ہو تو وہ کبھی بھی ان چیزوں کو برباد نہیں کرے گا جو اسکے پیسے (ٹیکس) سے خریدی گئی ہونگی۔ لوگ قومی خزانے میں براہِ راست ٹیکس نہ دینے کی وجہ سے سرکاری سہولیات کو اپنی ذاتی چیزوں کی طرح اہمیت نہیں دیتے۔ کیا آپ یہ برداشت کریں گے کہ آپ سے تنخواہ لینے والا آپکا گھریلو ملازم اکثر غیر حاضر رہے، کام چور اور نا اہل بھی ہو اور آپ سے ناراضگی کی صورت میں آپ کے گھر کی اشیاء بھی برباد کردے۔ظاہر ہے کہ نہیں، کوئی بھی اپنے پیسے کو اس طرح ضائع نہیں کرتا۔ مگر سرکار کے سلسلے میں یہی ہورہا ہے کیونکہ آپ سرکاری ملازم کی تنخواہ ادا کرنے میں حَصّہ دار نہیں ہیں، لِہٰذہ آپ کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ سرکاری ملازم نا اہل ہے، کام چور ہے یا ادارے کو برباد کر رہا ہے ۔کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ اٹھارہ کروڑ کے ملک میں صرف نو لاکھ لوگ انکم ٹیکس ادا کر رہے ہیں، باقی سترہ کروڑ اکانوے لاکھ صرف دن رات حکومت کو گالیاں دیتے رہتے ہیں اور ہر وقت رونا روتے رہتے ہیں کہ حکومت نے کشکول پکڑا ہُوا ہے اور دھڑا دھڑ قرضے لے رہی ہے۔ اس ملک کے یونانی حکمت سے بھرے ہوئے ہومیو پیتھک دانشور اکثر اس طرح کی بونگی دلیلیں دیتے ہیں کہ یہاں ہر شخص سیلز ٹیکس کی شکل میں ٹیکس ادا کر رہا ہے، چاہے وہ ٹوٹھ پیسٹ ہی خرید رہا ہو۔ در حقیقت سیلز ٹیکس عام طور پر فیکٹریوں اور صنعتوں میں بنائی گئی ان اشیاء پر ہوتا ہے جنہیں ٹریڈ مارک یا خاص برانڈ نام دیا جاتا ہے ۔ ان اشیاء کو خریدنے والے کی مرضی ہے وہ مہنگی چیز خرید کر زیادہ سیلز ٹیکس دیتا ہے یا سستے برانڈکی وہی چیز خرید کر کم سیلز ٹیکس ادا کرے، اسکی مرضی ہے اگر وہ غیر برانڈڈ مسواک یا اپنے گھر میں لگے نیم کی مسواک سے کام چلا لے اور کوئی سیلز ٹیکس ادا نہ کرے۔ وہ اشیاء جو بغیر کسی خاص ٹریڈ مارک یا برانڈ نام کے فروخت ہوتی ہیں ان پر صارف کوئی سیلز ٹیکس ادا نہیں کرتا۔ مارکیٹ میں کھلا فروخت ہونے والے آٹے، چاول، دالوں، چینی، دودھ، دہی ، گوشت، سبزیوں ، بغیر سلے کپڑوں وغیرہ پر صارف کو کوئی سیلز ٹیکس نہیں دینا پڑتا۔ جبکہ مارکیٹ میں بہت سی اشیاء حکومت کے مقرر کردہ کنٹرول نرخوں پر فروخت ہوتی ہیں تاکہ کم آمدنی والے افراد بھی ضروریات زندگی کی اشیاء خرید سکیں، حکومت کو اس مد میں سب سڈی پر بھاری رقوم خرچ کرنا پڑتی ہیں۔ سیلز ٹیکس صرف وہی ادا کرتا ہے جو قابلِ سیلز ٹیکس اشیاء خریدتا ہے، جبکہ دیگر کو یہ ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑتا ۔ اگر آپ یہ طے کر لیں کہ آپ نے ٹوتھ پیسٹ کے بجائے نیم کی مسواک استعمال کرنی ہے تو نتیجہ کے طور پر حکومت کے خزانے میں کم سیلز ٹیکس جمع ہوگا، تو پھر آپ کے لئے سڑکیں، ہسپتال، اسکول بنانے کے لئے حکومت کہاں سے پیسہ لائے گی اورآپ کی حفاظت اور خدمت کے لئے موجود بیس لاکھ کے قریب پولیس، فوج، رینجرز سمیت پینتیس لاکھ سے زائد سرکاری ملازمین کی تنخواہیں کہاں سے ادا کی جائیں گی۔ دنیا بھر میں سیلز ٹیکس یا خدمات پر موجود ٹیکسوں کو کبھی بھی انکم ٹیکس اوردولت ٹیکس کے متبادل کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا ۔ سیلز ٹیکس یا خدمات پر موجود ٹیکسوں کو انکم ٹیکس اوردولت ٹیکس کے متبادل کے طور پر تسلیم کرنے کا مطلب ہوگا کہ لاکھوں ، کروڑوں اور اربوں کمانے والا بھی وہی ٹیکس ادا کرے گا جو ایک دیہاڑی دار مزدور ادا کرے گا۔اس بات میں کسی پاکستانی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ سرکاری اداروں کی کارکردگی اس وقت تک بہتر نہیں ہوگی جب تک ہر پاکستانی اپنے حِصّے کا ٹیکس ادا نہیں کرے گا۔ اگر آپ ٹیکس ادا نہیں کرتے تو آپ کس بنیاد پر حکومت سے اسکول ، ہسپتال ، بجلی ، گیس ، صاف پانی ، سیکیورٹی کا مطالبہ کرتے ہیں اور سرکاری اداروں کو کارکردگی بہتر دیکھنا چاہتے ہیں۔ حکومت یہ سہولیات دینے کے لئے پیسہ کہاں سے لائے؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ملک قرضے پر قرضہ لیتا رہے؟ آپ چاہتے ہیں کہ قومی خزانے میں ایک پیسہ ادا کئے بغیر سہولیات اسکینڈے نیویا اور یورپی ممالک والی ملیں، جہاں ہر شخص اپنی آمدنی کا پچاس فیصد سے زائد انکم ٹیکس کی مد میں حکومت کو ادا کرتا ہے ۔ ملک فلاحی ریاست صرف اسی وقت بنے گا جب ہر شخص اپنی آمدنی کے مطابق ٹیکس اداکرے اور پھر حکومتی اداروں کا احتساب کرے۔ اسکے بعد عوام اپنی ملکیت (سرکاری) املاک کو بھی کبھی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :