ایک لوہار کی

ہفتہ 13 جون 2015

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

خیبر پختون خوا میں بلدیاتی انتخابات میں مبینہ منظم دھاندلی کے خلاف اپوزیشن کے سہ فریقی اتحاد کی اپیل کردہ ہڑتال ٹھس ہو گئی ،البتہ شور شرابے کا جمہوری حق اس نے استعمال کیا،تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے اپوزیشن کو فہمائش دینے کی کوشش کی کہ احتجاج ضرور کیا جائے ،لیکن فساد نہ کیا جائے ، یعنی جو کام ہم کئی ماہ تک مرکزی حکومت کے خلاف کرتے رہے وہ غلط تھا ، آپ لوگ وہ نہ کریں، ہمیں جیسی کرنی ویسی بھرنی منظور نہیں ،کے پی کے اپوزیشن جماعتوں کے مطابق اس احتجاج کو منظم کیا جائے گااور آئندہ آنے والے مراحل سخت ہوتے چلے جائیں گے ۔


صوبائی اپوزیشن کو زیادہ پھرتیاں نہیں دکھانی چاہییں ، 2013کے عام انتخابات کی بابت ہونے والی تحقیقات مکمل ہوا چاہتی ہیں ، چند دن بعد فیصلہ ہو جائے گا، اگر دوبارہ انتخابات کا فیصلہ آتا ہے تو ظاہر ہے پورے ملک میں ہی نئے انتخابات ہوں گے۔

(جاری ہے)

اس صورت میں صوبائی حکومت بھی ٹائیں ٹائیں فش ہو جائے گی ، رہے بلدیاتی انتخابات تو اس کے لیے بھی جوڈیشل کمشین والی پریکٹس کی جا سکتی ہے ، اگر دوبارہ انتخابات کا فیصلہ نہیں آتا تو پھر جی بھر کے پھپھولے پھوڑے جائیں، ایسے موقع پر اصلی کے ساتھ ساتھ فصلی بٹیر بھی کے پی کے اپوزیشن کے ساتھ ہوں گے، پھرصرف ہڑتال اور احتجاج کیا پہیا جام کی اپیل بھی جا سکتی ہے اور اپیل کامیاب بھی ہو گی ، کیوں کہ فصلی بٹیروں کا ہجوم صوبائی حکومت کی ہوا نکالنے کا کام بہ خوبی کر سکے گا۔


####
درد ِسر کے واسطے صندل لگانا ہے مفید
اس کا گھسنا اور لگانا درد سر یہ بھی تو ہے
سائنس دانوں کی ایک تحقیق یہ ہے کہ خشک میوہ جات کی آدھی مٹھی روز کھانا نہ صرف صحت کے لیے مفید ہے بلکہ مسلسل کھاتے رہنے والے کی عمر بھی بڑھ جاتی ہے۔ بہت اچھی بات ہے ، لیکن جہاں غریب کو دو وقت کی سادہ اور خشک روٹی بھی میسر نہ ہو وہ بے چارہ خشک میوہ جات کی گردان توکر سکتا ہے ، کھا نہیں سکتا ، البتہ کچھ نفساتی ماہرین کے نزدیک تصور کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ،اگرسائنس دان لگے ہاتھوں یہ تجربہ اور تحقیق بھی کر لیں کہ جو شخص تصوراتی طور پر روزانہ آدھی کی بجائے ایک مٹھی خشک میوے کھالے اس کی صحت اور لمبی عمر کے بارے میں ان کی کیا رائے بنتی ہے کیا پتا غریبوں کا بھلا ہو جائے ، لوگ تصور ہی تصور میں اخروٹ ، پستہ ،بادام ، کشمش وغیرہ کھاتے رہیں گے ، ویسے اس طرح کی خبروں اور تحقیقات سے غریب کو دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ سائنس دانوں کا کام تحقیق کرنا ، تجربے کرنا اور نتائج جاری کرنا ، کسی کو فائدہ پہنچتا ہے یا نقصان اس سے ان کو کچھ غرض نہیں ہوتی۔


####
سابق ڈپٹی وزیر اعظم چودھری پرویز الہی نے سوال ٹھایا ہے کہ انڈین سرکار کے چیف مودی کے خلاف سب اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں، میاں نوازشریف چپ کیوں ہیں ، انہیں کس بات کا ڈر ہے ۔ چھوٹے چودھری صاحب کو تھوڑا حوصلہ رکھنا چاہیے ، یہ تو انہوں نے سنا ہی ہوگا ، ” سو سنار کی ایک لوہار کی ۔ “ میاں صاحب کے چپ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں کچھ ڈر ہے بلکہ ابھی تو ان کے وزیر وزراء چوٹیں مار رہے ہیں ، میاں صاحب خواہ مخوا کی بڑ بولیوں کے قائل نہیں ، وقت آنے پر ان کی ایک چوٹ چودھری صاحب سمیت سب کی چوٹوں کو پیچھا چھوڑ دے گی ۔


####
”الٹی گنگا “اور کہیں بہے نہ بہے انڈیا میں ضرور بہتی ہے ، ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی گجرات میں میں تین ہزار بیت الخلا ہونے کے باوجود لوگ سڑک کنارے اور پارکوں میں اپنی مشکل آسان کر تے ہیں ، وہاں کی مقامی سرکار نے انہیں بیت الخلا استعمال کرنے کی ترغیب کی خاطر بڑے جتن کر لیے، لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ۔

پہلے سرکار نے ہر بیت الخلا کے باہر ایک اہل کار مقرر کیا جو ہر راہ چلتے کو توجہ دلاتا کہ بھائیو ، بہنو اپنی مشکل بھی آسان کرو اور حکومت کی بھی ، بیت الخلا استعمال کرو ، سرکار کو پارکوں اور سڑکوں سے آ پ کے کیے کرائے کو اٹھانے میں دقت پیش آرہی ہے۔کسی کسی نے کام دھرے لیکن اکثر نے مذاق اڑایا اور پارکوں کا ستعمال جاری رکھا، اب سرکار نے فی باری ایک بندے کو بیت الخلا استعمال کرنے پر ایک روپیا دینا طے کیا ہے، یعنی بجائے اس کے کہ لوگ روپیا دیں ، سرکار روپیا دے رہی ہے ، لوگ ایسے سیانے ہیں روپیا بھی لے لیتے ہیں ، وہاں رکھے صابن پر بھی ہاتھ صاف کر لیتے ہیں لیکن پارکوں کو آباد رکھنا اب بھی ان کا مشن ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :