انعام واپس لینے کا اصول بھی اپنایا جائے

ہفتہ 13 جون 2015

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

اس کو 91ء میں نوبل امن انعام سے نوازا گیا۔ شاید نوازا جانا ہی بہتر لفظ ہے کیوں کہ اب لگ رہا ہے کہ اس میں اتنی صلاحیت نہیں تھی جتنی بیان کردی گئی لہذا اس نے انعام "حاصل" نہیں کیا بلکہ اسے" نوازا" گیا۔اس سے پہلے اسے 1990میں تھورولف رافٹوانعام سے بھی نوازا جا چکا تھا۔ یہ انعام ناروے کے ایک انسانی حقوق کے راہنما تھورولف رافٹو(Thorolf Rafto) کے نام سے منصوب ہے ۔

جو 1979ء میں پیراگوئے کے سفر میں تشدد کا شکار ہوئے اور86ء میں وفات پائی۔مختصر تفصیل بیان کرنے کا مقصد قارئین کو اس انعام کی اہمیت بتانا ہے۔ 90ء میں ہی اسے سخاروف ایوارڈ برائے آزادی اظہار ِ رائے دیا گیا۔ یہ ایوارڈ سوویت سائنسدان، جو بعد میں انسانی حقوق کے حوالے سے پہچانے گئے ، (Andrei Sakharov) آندرے سخاروف کے نام سے منسوب ہے اور یورپی پارلیمنٹ1988 سے یہ انعام دے رہی ہے بمعہ 50ہزار یورو انعامی رقم کے۔

(جاری ہے)

زیر بحث شخصیت کو 1992ء میں جواہر لال نہرو ایوارڈ برائے عالمی ہم آہنگی دیا گیا۔ نہرو صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ پھر اسے 92ء میں ہی سائمن بولیور عالمی انعام دیا تھا۔ سائمن بولیور(Simn Bolvar) موجودہ لاطینی امریکہ کی آزادی کا ہیرو شمار کیا جاتا ہے ۔ وینزویلا ، ایکواڈور، پیرو، بولیویا،کولمبیا آج آزاد ریاستیں ہیں تو اس میں سائمن بولیور کا بہت بڑا کردار ہے۔

اس شخصیت کے پاس کینیڈا کی اعزازی شہریت بھی ہے۔ 2014 ء میں دنیا کی طاقتور ترین خواتین میں اس کا نمبر 61واں تھا۔ اس کے علاوہ اسے کانگریشنل میڈل، بھگوان مہاویر عالمی امن ایوارڈ،اولوف پامے ایوارڈ، بھی مل چکے ہیں۔
رافٹو ایوارڈ کی انعامی رقم کم و بیش 20ہزار امریکی ڈالر بنتی ہے۔ نوبل انعام کی 2015 میں انعامی رقم کم و بیش ساڑھے نو لاکھ امریکی ڈالر ہے۔

تو 91ء میں اس کو آدھا بھی شمار کریں تو 4 لاکھ امریکی ڈالر۔ بھگوان مہاویر عالمی امن ایوارڈ کے ساتھ 2012میں کم و بیش 11لاکھ انڈین روپے۔ اوولف پالمے (Olof Palme) ایوارڈ کی انعامی رقم 75ہزار امریکی ڈالر ہے۔عالمی سائمن بولیور انعام کی انعامی رقم 25ہزار امریکی ڈالر ہے۔ سخاروف سے منصوب انعام کی انعامی رقم50ہزار یورو ہے۔ جواہر لال نہرو ایوارڈ کی انعامی رقم کم و بیش 40 ہزار امریکی ڈالر ہے۔

مذکورہ شخصیت کی صرف ان چند بڑے اعزازات کی انعامی رقم ہی شمار کی جائے تو یہ 6لاکھ امریکی ڈالر سے زائد بنتی ہے۔
اب ایک ایسی شخصیت جس کو اتنے اعزازت سے نوازا گیا ہو۔ اور اتنی بڑی انعامی رقم بھی ملی ہو ۔ صرف انسانی حقوق کے حق میں آواز بلند کرنے کے لیے تو آپ تصور کریں کہ اسی شخصیت کی اپنی رہائش کے ارد گرد لاشیں بکھری ہوں اور وہ ایک لفظ تک اس قتل عام پر نہ بھولے تو کیا ان تمام عالمی تنظیموں کو جنہوں نے اس کو انعامات سے نوازا اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے انسانی حقوق کے یہ اعزازت واپس نہیں لے لینے چاہیں؟
اتنی بڑی انعامی رقم اور اعزازت حاصل کرنے والی شخصیت "آنگ سان سو کی" (Aung San Suu Kyi) کی ہے ۔

لیکن حیران کن طور پر یہ انسانی حقوق کی علمبردار خاتون اپنے ہی ملک میں " روہنگیا نسل کشی" پر نہ صرف مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے بلکہ غیر معقول جواز بھی گھڑنے میں مصروف ہے۔ اور اس نسل کشی دو طرفہ معاملہ قرار دے چکی ہے۔ عقلِ انسانی حیران ہے کہ کیسے ایک ایسی راہنما جو اپنی پوری زندگی کو جہدو جہد سے تعبیر کرتی رہی ہے اس نسل کشی پر چپ سادھ چکی ہے۔

ایک برطانوی صحافی مہدی حسن نے اس خاتون راہنما کی خاموشی پر ایک آرٹیکل رکھا جس کا عنوان ہی "آنگ سان سو کی کی ناقابل معافی خاموشی" رکھا۔
ناقدین آنگ سو کی اس خاموشی کو مجرمانہ خاموشی سے تعبیر کرتے ہیں۔ لیکن ان انسانی حقوق کی ان عالمی تنظیموں کی خاموشی پہ بھی حیرت ہے جنہوں نے آنگ سو کو انعامات سے نوازا۔ ناقد کہتے ہیں کہ آنگ سو کیوں کہ 2015 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لے رہی ہے لہذا وہ بدھوؤں کی مخالفت مول نہیں لے سکی۔

لیکن حیران کن طور پر وہ گوتم بدھ کی امن پر مبنی تعلیمات کے بجائے صرف بدھ بکشوؤں کی فکر میں ہے۔ تبت کے روحانی راہنما دلائی لامہ کے مطابق انہوں نے 2012 میں لند ن اور جمہوریہ چیک میں آنگو سو سے دو دفعہ ملاقات میں یہ قصہ چھیڑا لیکن کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔اور آنگ سو نے جواب دیا کہ معاملات سادہ نہیں ہیں بلکہ پیچیدہ ہیں۔ یقینا اگر شکار بدھو مت کے پیروکار ہو رہے ہوتے تو پھر انسانیت کا علم بلند کرنے میں کوئی پیچیدگی حائل نہ ہوتی ۔

02جون کو جونا فشر کا ایک آرٹیکل BBCویب پہ شائع ہواجسکا عنوان تھا" آنگ سو تم کہاں ہو؟" تھا۔شاید وہ بھی ہماری طرح انسانی حقوق کی عالمی چیمپئین کو ڈھونڈنے میں مصروف ہیں۔آنگ سو نے قید و بند کی صعوبتیں اپنے ملک میں ہی کاٹیں اور شاید سیاسی مفادات کے لیے کاٹیں اسی لیے اس کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی سے زیادہ اس کے لیے اہم آنے والے انتخابات ہیں۔

لہذا وہ کیسے اپنی محنت ضائع کر سکتی ہے جس اقتدار کے لیے اس نے اتنی جہدوجہد کی اس کو صرف روہنگیا مسلمانوں کے حق میں بول کر کیسے ضائع کر سکتی ہے۔ میانمار کے لیے اقوام متحدہ کی خصوص رپورٹر یانگی لی نے جب ہمدردی کے کچھ بول بولے تو نسل کشی کے ذمہ دار بدھ راہنما آشن ویراتھو(Ashin Wirathu) نے یانگی لی کے لیے انتہائی گندی زبان استعمال کی ۔ اس پہ بھی عالمی برادری نے خاموشی کی چادر اوڑھے رکھی۔

شاید برما میں تیل و گیس کے ذخائر نہیں اسی لیے اس خطے میں ہونے والی انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی بھی عالمی طاقتوں سے اوجھل ہے۔
لیکن جیسے دنیا میں اعزازت کی تقسیم کے لیے قواعد و ضوابط بنائے جاتے ہیں اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اعزازت کی واپسی کے لیے بھی مستقبل میں کوئی لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ اگر کسی کو انعام خاص جہدوجہد پہ دیا جائے تو اس سے انعام جہدوجہد کے مخالف کام کرنے پہ واپس بھی لیا جا سکے۔

اگر انعام انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے پہ دیا جائے تو پھر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پہ وہی انعام واپس بھی لیا جا سکے۔ کاش ایسا ہو جائے۔ اور ایک اصول وضع کر لیا جائے کہ چاہے مسلمان ہو ، عیسائی ہو، یہودی ہو، پارسی ہو، بدھ کا پیروکار ہو، یا ہندو ہو اسے شمار انسان ہی کیا جائے گا ۔
غلطی صرف اور صرف مکمل طور پر روہنگیا مسلمانوں کے آباء و اجداد کی ہے جو ایک اندازے کے مطابق سولہویں صدی میں اس خطے میں تجارت کے لیے آئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔

پوری دنیا میں کم و بیش20لاکھ روہنگیا النسل مسلمان ہیں۔ جن میں سے کم و بیش 8 لاکھ میانمار(برما) میں ہیں۔ اس پورے معاملے میں غلطی ہرگز کسی اور کی نہیں صرف روہنگیا مسلمانوں کی اپنی ہے۔ وہ کس بل بوتے پر توقع کر بیٹھے کہ دنیا کی کل آبادی کا 23%مسلمان بھائی ان کی مدد کریں گے؟ وہ کس گمان میں تھے کہ ان پہ کڑا وقت آیا تو مسلمان ممالک انہیں اپنا لیں گے؟ روہنگیا کو یقینا جلنا ، مرنا ، کڑھنا ہی چاہیے۔

کیوں کہ تیل کی دولت سے مالا مال اسلامی دنیا، ایٹمی طاقت کی حامل اسلامی دنیا، مضبوط معیشت رکھنے والی اسلامی دنیا کیوں کہ چند لاکھ مجبور روہنگیوں کو پناہ دیں گے۔ ان کی معیشیت کا دیوالیہ تو یقینا ان چند لاکھوں لوگوں سے نکل جائے گا۔ پوری اسلامی دنیا(سوائے ترقی ، اور اب کہیں جا کے انڈونیشیا و ملائیشیا) سے اتنا تک نہیں ہو سکا کہ آنگ سانگ سو کی کو انسانی حقوق کے اعزازت سے نوازنے والے اداروں کو یہ تک کہہ سکیں کہ اس کے اپنے ملک میں انسانی قدریں پامال کرنے کی ہر حد پار کی جا چکی ہے تو وہ لاچار روہنگیا کو سہارا کیسے دے سکتے ہیں۔

آج جس مقام پہ روہنگیا ہیں کل ہم میں سے کوئی پہنچا تو کیا تب دوسرے ہمارے حق میں خاموش ہوئے تو کیا ہمارا دل خون کے آنسو نہیں روئے گا؟ ذرا سوچیے۔۔۔۔ اور عزت و شرم باقی ہو تو روہنگیامسلمانوں کی مدد کیجیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :