اشتعال

ہفتہ 13 جون 2015

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

غصہ ایک وقتی اشتعال ہے ۔غصہ بے صبری، طلماہٹ ، جلد بازی ،گھبراہٹ اور بے قابو طبیعت میں کئے گئے افعال کا نام ہے۔غصہ اس وقت آتا ہے جب ہماری مرضی کے مطابق کوئی کام نہ ہورہا ہو۔غصہ دوسرے کو مرعوب کرنے ،خوف زدہ رکھنے یا ناخوشگوار صورت حال میں اچانک مبتلا ہونے کے بعد آتا ہے ۔غصہ میں انسان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے اور معاملات کو بے چینی کی چکی میں پیس دیتا ہے۔

شروع میں غصہ ہماری تحویل اور قابو میں ہوتا ہے لیکن بعد میں ہم اس کی جکڑ میں آ جاتے ہیں۔ اشتعال انگیز الفاظ کی ادائیگی کے بعد اکثر معافی مانگنا پڑتی ہے۔ ناخوشگوار صورت حال میں طبیعت پر ضبط نہ رہنے سے انسانی ذہن درست فیصلے کرنے کی صلاحیت سے عاری ہو جاتا ہے۔ ایسی حالت میں کئے گئے اقدامات سے انسان مزید پیچیدہ صورتحال میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

(جاری ہے)

بالغ نظر اور حقیقت پسند آدمی کا وصف اور شان یہ ہوتی ہے کہ وہ بدترین حالات میں بھی اپنے جذبات و احساسات پر قابو رکھتا ہے۔
ناکامی اور شکست سے دوچار ہو جا نے پر مشتعل ہونے کی بجائے ٹھنڈے دل ودماغ سے ان اسباب کا کھوج لگانا چاہیے جن کی بدولت ناکامی ہوئی۔ غوروفکر کے نتیجے میں جس مسلہ یاخامی کا پتہ چلے اس پر پردہ ڈالنے کی بجائے کھلے دل سے اس خامی کا اعتراف کرنا چاہیے اور اسے دور کرنے کے لئے مثبت قدم اٹھانا چاہیے ۔

بے بسی، بد دلی اور پسپا ئی کی بجائے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کر کے آگے بڑھنا چاہیے۔
چڑ چڑے پن کا ایک سبب عزت نفس کا مجروح ہونا ہے۔جب کوئی رائے کو مسترد کرتا ہے یا کوئی ٹوکنے کی کوشش کرتا ہے تو اشتعال پیدا ہوتا ہے۔بے شک ہمیں اپنی رائے بہت عزیز ہوتی ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ ہمارے رائے کو مسترد کرنے والا ہمارا خیر خواہ ہو۔ ہمیں ٹھنڈے دل سے اس تنقید کا تجریہ کرنا چاہیے کہ یہ حقیقت پر مبنی ہے یا غیر حقیقی ہے۔

اگر رائے غیر حقیقی ہو تو بے شک مسترد کر دینا چاہیے لیکن اگر مختلف پہلوؤں سے تجزیہ کرنے کے بعد محسوس ہو کہ یہ رائے درست ہے تو بصد شکریہ قبول کر لینا چاہیے۔کوئی بھی خلافِ خواہش صورت حال دیکھ کر یک لخت چراغ پا ہونے کی بجائے صرف چند لمحوں کے لئے سوچنا چاہیے ۔سبب کی گہرائیوں میں جانے سے خیالات بٹ جاتے ہیں اور اشتعال کی شدت کم ہو جاتی ہے۔


حالات کا بے پناہ دباؤ بھی انسان کو چڑ چڑا بنا دیتا ہے۔لوگ ترقی اور کامرانی کی خواہش میں اندھا دھند اور سرگرم زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنے اوپر آرام سیر و تفریح تک حرام کر لیتے ہیں۔ایسے لوگ چڑ چڑے ہو جاتے ہیں۔اس کا سبب اعصابی تناؤ اور تھکن ہوتی ہے۔اس صورت حال سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے معمولات کی دانش مندانہ منصوبہ بندی کی جائے تاکہ کام کے ساتھ ساتھ آرام اور تفریح کے لئے بھی مناسب وقت ملتا رہے۔


یہ کتنی غیر دانشمندانہ بات ہے کہ ہم رعب و دبدبے کے لئے سخت غصے میں آتے ہیں۔یہ بجا کہ بعض اوقات ہم اپنے ٹارگٹ کو مرعوب کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن ہم بھی دیر تک اعصابی تناؤ کا شکار رہتے ہیں۔ مزا تو تب ہے کہ ٹارگٹ بھی ہٹ ہو جائے اور ہم بھی ردعمل سے بچ جائیں ۔علمِ نفسیات کہتا ہے کہ چڑچڑے پن کا ردِ عمل ہونا ہی ہوتا ہے چاہے اس کی جو بھی شکل اور صورت ہو۔لہٰذا اعلٰی قسم کی دانشمندی یہ ہے کہTense Situationمیں غصیلے الفاظ کی بجائے پر مزاح الفاظ سے کام لیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :