عقل سے پیدل!

جمعرات 11 جون 2015

Nabi Baig Younas

نبی بیگ یونس

8جون ہفتے کو اپنے دفتر کے دو دوستوں کے ہمراہ میٹرو پر سفر کیلئے نکلا۔ جیو نیوز اسلام آباد دفتر کے عقب میں میٹرو کے پریڈ ایونیو اسٹیشن پر پہنچے،یہ اسلام آباد سیکریٹریٹ کے بعد مٹرو کادوسرا اسٹیشن ہے، دونوں کے درمیان فاصلہ صرف تین سو میٹر ہے۔ میٹرو کارڈ بنوائے، ایک منٹ میں ہمارے سامنے بس رُکی تو اُس وقت میری حیرانی کی کوئی حد نہیں رہی جب میں نے بس کو کھچاکھچ بھرا دیکھا۔

سیکریٹریٹ سے راولپنڈی جانے والی اکثر عام مسافر گاڑیاں تین بجے کے بعد خالی ہوتی ہیں کیونکہ یہاں چند ایک سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر ہیں جہاں کام کرنے والے لوگ دو تین بجے تک گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ لیکن پانچ بجے سیکرٹریٹ سے آنے والی ہر میٹرو بس مسافروں سے بھری دیکھنا حیران کن تھا،،، کہاں سے آرہے ہیں اتنے لوگ،، کون ہیں یہ مسافر،، میں اپنے ساتھیوں سے مسکراتے ہوئے پوچھتا رہا۔

(جاری ہے)

مسافروں کے حلیے اور چہروں کا جائزہ لیتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ یہ آوارہ اور لفنگے قسم کے لڑکے ہیں۔۔۔ پتہ چلا کہ یہ لوگ صبح راولپنڈی کے صدر اسٹیشن سے بیس روپے کا ٹکٹ لیکر میٹرو بس میں سوار ہوتے ہیں اور اسلام آباد کے آخری سیکریٹریٹ اسٹاپ یا اس سے پہلے پریڈ ایونیو، شہید ملت ، سیونتھ ایونیو یا سینٹارس اسٹاپ پر میٹرو بس سے اُتر کر پلیٹ فارم سے باہر نہیں آتے بلکہ واپس آنے والے میٹرو بس میں بیٹھ کر صدرجاتے ہیں، اور صدر میں پھر اسلام آباد آنے والی میٹروبس میں سوار ہوتے ہیں ، اور یوں پلیٹ فارم کے اندر سے ہی بس تبدیل کرکے پورا دن میٹرو سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

ان لوگوں میں چھوٹے چھوٹے لڑکوں اور نوجوانوں کے ساتھ ساتھ ادھیڑ عمر کے لوگ بھی شامل ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر میرا تجسس بڑھ گیا اور اتوار کو دفتر سے چھٹی کے باوجودایک دوست کے ساتھ پھر میٹرو میں سوار ہونے کیلئے گھر سے صدر پہنچا۔ میرے پاس میٹرو کے دو کارڈ تھے جن میں سے ایک دوست کو تھمادیا۔ صدر پہنچے توٹکٹوں
کے حصول کیلئے ایک نہیں دو نہیں تین نہیں بلکہ کئی قطاروں میں لوگ کھڑے تھے اور یہ قطاریں اسٹیشن پر ہی نہیں بلکہ نیچے فٹ پاتھ اور سڑک پر بھی تھیں۔

سارے لوگ ایسے دھکم پیل میں لگے تھے جیسا میٹرو بس کا نہیں بلکہ جنت کے حصول کا ٹکٹ حاصل کرنا تھا، میں نے کئی لوگوں سے استفسار کیا آپ نے کہاں جانا ہے، جواب ایک ہی طرح کا ملا، جی میٹرو میں جانا ہے،،، کیوں جانا؟ بس ویسے ہی ! یعنی کام نا کاج، نا ہی یہ پتہ کہاں جانا اور کہاں اُترنا لیکن صرف ایک ہی مقصدوہ یہ کہ میٹرو میں سوار ہونا ہی ہونا ہے، نہ منزل کا پتہ نہ منزل کے حصول کا اور نہ ہی واپسی کا کوئی علم۔

ہم میٹرو میں سوار ہوئے تو ہر جانے والی بس مسافروں سے بھری تھی۔یہ لوگ بس میں بیٹھتے تو ہیں لیکن اُترنے کا کوئی نام نہیں لیتا،یہ کیوں اُتریں بھئی، انہوں نے نہ کسی نوکری پر پہنچنا ہے، ان کا کوئی کام کاج ہے نہ ہی کوئی پوچھنے والا۔ایک سولہ سترہ سالہ لڑکے نے بڑے فخر سے بتایا کہ وہ صبح نو بجے صدر سے میٹرو بس میں سوار ہوا اور دن میں ایک مرتبہ واش روم کیلئے پلیٹ فارم سے باہر آیا، پورا دن ایک بس سے دوسری بس میں سوار ہوتا رہا۔


یہ سب کچھ دیکھ اور سن کرمیرا یقین مزید پختہ ہوگیا کہ اِس ملک میں لوگوں کی اکثریت عقل سے پیدل ہے۔ یار، میٹرو میں سفر اینجوائے کرنا ہے تو ایک بار بیٹھو، یہ نہیں کہ بس میں سوار ہوکر اُترنے کا نام ہی نہ لو اور ایک بس سے اُتر کر دوسری پر بیٹھو ، دوسری سے تیسری ، تیسری سے چوتھی اور یوں پورا دن بس میں گزارتے رہو ۔ جن چند ایک لوگوں نے اپنے دفاتر جانا ہے وہ بچارے کئی گھنٹوں تک لائن میں کھڑے ہونہیں سکتے اور عام پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہوئے دفتر پہنچتے ہیں۔

اس قوم کو ترقی یافتہ ممالک کی طرز کی سواری میٹرو تو مل گئی لیکن یہاں زیادہ تر لوگ عقل سے پیدل ہیں! ان لوگوں کو میٹرو راس نہیں آتی، جدید طرزکی زندگی کیلئے عقل اور شعور کا ہونا لازمی ہے، جہاں لوگوں کی عقل پیدل ہو وہاں کسی سہولت کا کوئی فائدہ نہیں!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :