ملک ریاض کا پیغام ، صاحبان ثروت کے نام

بدھ 10 جون 2015

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

کب تک۔۔۔ آخر کب تک ایسا ہو تا رہے گا؟ کب تک اس معاشرے میں لوگ جہاں اپنے کتوں کے لئے خوراک کو امپورٹ کرتے ہیں ، اپنی نفسانی خواہشات کی تسکین کی خاطر لاکھوں روپے اجار دیتے ہیں وہاں لوگ روٹی کے چند لقموں کی وجہ سے اپنے آپ کو پھندا لگا کے موت کے گھاٹ اتارتے جائیں گے ؟کب تک لوگ بھوک کی وجہ سے اپنے پیاروں کو قتل کرتے رہیں گے؟
تمام اخبارات میں شائع باپ کا غربت کی وجہ سے اپنی معصوم اور پھول جیسی تین ننھی کلیوں کو کچلنے والی خبرشائع ہو ئی جسے پڑھ کر اپنے انسان ہونے پر شرمندگی محسوس ہو رہی ہے۔

تفصیلات کے مطابق بیٹیوں کو قتل کر نے والا ملزم ارشاد ایک عرصے سے بے روز گار تھا جس کی وجہ سے غربت و افلاس نے گھر میں ڈیرے ڈال رکھے تھے۔
خبر کو پڑھنے کے بعد جہاں مجھے اپنے اور اپنے ملک کے صاحب ثروت لوگوں کی عاقبت کی فکر لاحق ہو گئی ہے وہاں اپنے حکمرانوں کی حکمرانی اور اپنے آپ کو خلیفہ المسلمین کہلائے جانے کے متمنی خادم اعلیٰ کی رعایا کے حوالے سے بے خبری پر افسوس ہو رہا ہے۔

(جاری ہے)


معلوم ہو تا ہے کہ ان کے نزدیک صرف میٹرو بس ہی مخلو ق خد ا کی سب سے بڑی خدمت ہے ۔ اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہوئے ایک ایسی ہی تصویر کسی دوست نے شئیر کی ہے جس میں میٹر و بس کے لئے بنا ئے جانے والے پل کے نیچے ایک ماں اپنے معصوم بچے کو گود میں لئے جس کے جسم پر بیماری کے آثار نمایاں ہے لئے بیٹھی ہے اور ساتھ ہی ایک دوسرا بچہ جس کا لباس بھی مفلسی کی تپتی آگ کی نظر ہو گیا ہے ، پل کی جانب اشارہ کرتے ہو ئے کہتا ہے کہ ”ماں ! دیکھو کتنی خوبصورت میٹرو بس ہے۔

اب میں اس میں تعلیم بھی حاصل کروں گا، اب چھوٹے کا علاج بھی اسی میٹرو سے ہو گا ، اب ہمیں کھانا بھی اسی میٹرو بس سے ملے گا۔ دیکھو نہ ماں !“
قارئین !اپنے خادم اعلیٰ ،حضرت عمر فاروق کے جس سنہرے دور کے عد ل و انصاف والے نظام کو مشعل راہ سمجھتے ہوئے یہاں بھی اسے نافذ کر نے کے خواہاں ہیں اسی دور فارقی  کا ایک واقعہ تاریخ کی کتابوں میں چیخ چیخ کے یہ پیغام دے رہا ہے کہ ایسا ہو تا ہے دور فارقی ۔

جب ایک بار کچھ لوگوں پر مشتمل ایک قافلہ مدینہ کے باہر اترا۔آپ  اس کی خبر گیری اور حفاظت کے لئے تشریف لے گئے۔قا فلے کی حفاظت کے لئے پہرہ دے رہے تھے کہ ایک بچے کی رونے کی آواز سُنی، پاس جا کر اس کی ماں کو تاکید کی کہ بچے کو بہلائے،تھوڑی دیر بعد جب پھرادھر سے گذر ہوا تو ایک بار پھر بچے کو روتا پایا۔ بچے کی اس کیفیت کو دیکھتے ہوئے ماں کو ڈانٹنااور کہا تو بڑی بے رحم ہے۔

ماں بولی:آپ کو اصل واقعہ کا علم نہیں ، بات یہ ہے کہ امیر المومنین عمر فاروق نے حکم دیا ہے کہ جب تک بچے دودھ نہ چھوڑیں اُس وقت تک بیت المال سے ان کا وظیفہ مقرر نہ کیا جائے، اس لئے میں اس کا دودھ چھرا رہی ہوں ۔یہی وجہ ہے کہ بچہ رو رہا ہے۔یہ سن کر حضرت عمر  شدید غمگین ہوئے اور فر مایا:” ہائے عمر نے کتنے بچوں کا خون کیا ہو گا اورپھر فوراََ منادی کرادی گئی کہ جس دن سے بچہ پیدا ہو اُسی دن سے اس کا وظیفہ مقرر کر دیا جائے۔


قارئین محترم !ملک ریاض حسین نے روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کی امداد کے لئے دس کروڑ روپے دینے کا اعلان کرتے ہوئے معاشرے کے صاحب ثروت لوگوں کو جو پیغام دیا ہے وہ جلی حروف سے لکھنے کے قابل ہے ۔ ان کا یہ جملہ ان کے کئی سالوں کا تجربہ ہے اور جس کے پیچھے ایک تلخ حقیقت چھپی ہوئی ہے۔ انہوں نے معاشرے کے امیر لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :”میں نے غربت دیکھی ہے اور مجھے اپنا وقت یاد آتا ہے۔

پاکستان کے امیروں نے غر بت نہیں دیکھی۔میں بار ہا اپیل کر چکا ہوں کہ وہ با ہر نکلیں اور پاکستان کے غریب عوام کے مسائل حل کریں ، اپنی دولت تقسیم کریں ورنہ یاد رکھیں کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ ہمارے سیکورٹی گارڈز اور چوکیدار ہمیں مار دیں گے۔ “
کاش! کہ معاشرے کے امیر لوگ اس پیغام کو اُس وقت کے آنے سے پہلے ہی قبول کر لیں جب لوگ اپنی اور بچوں کی بھوک مٹانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کریں گے اور پھرتاریخ بتا تی ہے کہ بھوک و مفلسی کے سامنے جو چیز بھی آتی ہے تباہی و بر بادی اس کا مقدر کر دیا جا تا ہے ۔انقلاب فرانس جس کی منہ بولتی مثال ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :