دانشوروں سے ایک سوال!

پیر 8 جون 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

شاید 2013کی بات ہے ،میں اور کسابی جوشی ایک ورکشاپ میں شریک تھے،یہ ورکشاپ لاہور کی ایک پبلک سیکٹر یونیورسٹی کی طرف سے آرگنائز کی گئی تھی ،کسابی جوشی نے ورکشاپ کے بعد مجھ سے ملنے کا وعدہ کیا تھا ،ورکشاپ ختم ہوئی میں باہر لان میں آ گیا کچھ دیر بعدکسابی جوشی اوراس کی دوست لکشمی لامہ میرے سامنے کھڑی تھیں ۔ ان دونوں کے چہروں پر چھائی ہوئی اداسی نے خوشگوار موسم کو ضرورت سے ذیادہ سنجیدہ بنا دیا تھا اور میں ان کی آنکھوں کے پیچھے چھپے ہوئے احساسات کو سمجھنے کی ناکا م کوشش کر رہا تھا ۔

کسابی جوشی نیپالی صحافی تھی اور وہ حکومت پاکستان کی دعوت پر پاکستان آئی تھی ،کسابی بدھ مذہب کی پیروکار تھی اور ورکشاپ کے شروع میں ہی اس نے مجھے اپنے مذہب کے بارے میں بتانا شروع کر دیا تھا،اس نے مجھے وہ جگہ بھی دکھائی جہاں گوتم بدھ کی پیدائش ہو ئی تھی ،گوتم بدھ کی جنم بھونی کے ارد گرد بنے ہوئے مندر اس نے مجھے بڑے شوق سے دکھا ئے تھے ،اس نے مجھے وہ دیا بھی دکھایا جو گوتم بدھ کی جنم بھونی کے سامنے مسلسل ایک ہزار سال سے جل رہا تھا، اس نے بتایا تھا کہ یہ دیا آج تک مسلسل جل رہا ہے اور آج تک اس میں تیل کا ایک قطرہ بھی نہیں ڈالا گیا ،اس نے مجھے کٹھمنڈو میں بنے دنیا کے سب سے بڑے مندر بھی دکھا ئے تھے اور ان مندروں میں ادا کی جانے والی عبادات کا تعارف بھی بڑی تفصیل سے کروایا تھا ۔

(جاری ہے)

کبھی کبھار ہماری گفتگو کا رخ مذہب کی طرف مڑ جاتا تھا اور ہم دونو ں بڑی دلچسپی سے ایک دوسرے کے مذہب کے بارے میں تفصیلا ت جانتے تھے ،میں نے اسے بتایاکہ اسلا م میں خدا اورپیغمبر کا کیا تصور ہے اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ایک ارب پینسٹھ کروڑ مسلمان کس رشتے کی بنیاد پر ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہو تے ہیں۔ ان دنوں میانمارکا ایشو عالمی میڈیا کا موضوع بنا ہوا تھا،میں نے میانمار میں بدھ مت کے پیرو کاروں کی طرف سے برمی مسلمانوں پر حملے،ان کا قتل عام اور اور ان پر ہونے والے ظلم کا ایشو کسابی کے سامنے رکھا اور اس سے تفصیل چاہی ۔

کسابی نے قہقہہ لگایا، کندھے سے بیگ اتارا ،بینچ سے ٹیک لگائی اورمیری طرف متوجہ ہو کر بولی”مجھے امید تھی کہ مجھ سے پاکستان میں اس طرح کے سولات کیئے جائیں گے مگر مسئلہ یہ ہے کہ میں گزشتہ تین دنوں سے اس موضوع پے ریسرچ کر رہی ہوں مگر مجھے پاکستانی میڈیا میں اس موضوع پر کوئی خاص انفارمیشن نہیں مل سکی “میں نے سوچا شاید یہ جان چھڑانا چاہ رہی ہے اور شاید یہ اپنے ہم مذہب بدھوؤں کی سفاکا نہ حرکا ت پر خاموشی کا پردہ ڈالنا چاہتی ہے ۔

میں نے عرض کیا کہ ایسا نہیں ہو سکتا ،ہو سکتا ہے کسی مقامی اور لوکل اخبار میں اس ایشو پر کوئی خبر نہ چھپی ورنہ پاکستان کے تمام بڑے اخبارات میں اس ایشو پر خبریں ضرور چھپی ہوں گی اور اب تو یہ بین الاقوامی ایشو بن چکا ہے ۔کسابی جوشی نے بڑی آسانی سے میری بات رد کر دی اور بولی ”میں گزشتہ تین دنوں سے مغز کھپا رہی ہوں ،مجھے خود اس ایشو سے انٹرسٹ ہے اور میں حقیقت حال جاننا چاہتی ہوں لیکن کم از کم پاکستانی میڈیا میں اس ایشو پر مجھے کوئی خبر، کوئی کالم یا کوئی پروگرام دیکھنے کو نہیں ملا “میرے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا،میں نے خاموشی سے نظریں جھکا لیں ۔

میری بے بسی کو دیکھ کر کسابی نے قہقہہ لگایا اور طنزیہ انداز میں بولی ”پہلے تم مجھے پاکستانی میڈیا میں میانمار ایشو کی کوریج دکھادو بقیہ باتیں ہم بعد میں کریں گے“
اس واقعے کو تقریبادو سال گزر چکے ہیں لیکن کسابی کا وہ لہجہ، اس کا طنزیہ انداز اور اسکے الفاظ کی چبھن میں آج بھی محسوس کر رہا ہوں اور گزشتہ ایک ہفتے سے اس چبھن میں اور بھی شدت آ گئی ہے ۔

میانمار اس وقت دنیا کا مظلوم ترین خطہ ہے اور روہنگیا مسلمان دنیا کے مظلوم ترین انسان ۔آپ ذرا سوشل میڈیا پر جائیں فیس بک پر گردش کرتی روہنگیا مسلمانوں کی تصاویر دیکھیں کم از کم مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ میں وہ تصاویر دیکھ سکوں ،چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو سر عام ذبح کیا جا رہا ہے ،بچوں کو ماوٴں کی گود سے چھینا جاتا ہے اور ماں کے سامنے بچے کا سر کاٹ کے اس کی جھولی میں پھینک دیا جاتا ہے، نوجوانوں کے سر کاٹ کر ایک ترتیب سے رکھے ہوئے ہیں ، خواتین کے نازک اعضا کی بے حرمتی کی جا رہی ہے ،دس دس نوجوانوں کو اکھٹے آگ میں ڈال کر انہیں زندہ جلایا جا رہا ہے ،انہیں ذبح کرنے کے بعد ایک بڑے برتن میں ان کا خون جمع کیا جاتا ہے ،ذبح کرنے کے بعد جس طرح جانوروں کا گوشت بنا یا جاتا ہے یہی حال انسانوں کے ساتھ کیا جاتا ہے ، ان کے بازو ،ٹانگیں ،گردن اور دھڑ الگ الگ کر کے ایک ترتیب سے رکھے ہوئے ہیں ،شاید میں ان مناظر کی ٹھیک طرح سے نمائندگی نہیں کر پا رہا ۔

سوال یہ ہے کہ اگر یہی کام داعش اور طالبان کریں تو آپ چیخ اٹھتے ہیں لیکن اب آپ کی زبانیں اور آپ کے قلم کیوں خاموش ہیں،اب آپ کا ضمیر کیوں نہیں جاگتا ،پچھلے دنوں داعش نے ایک پائلٹ کو زندہ جلایا تھا ساری دنیا سمیت آپ بھی چیخ اٹھے تھے لیکن اب آپ کیوں نہیں بولتے،آپ مسلمانوں کو چھوڑیں صرف انسانیت کی بات کریں ،ظلم صرف ظلم ہوتا ہے خواہ وہ کہیں بھی ہو ،اس ظلم پر آپ کی دانش کیوں نہیں جھلکتی۔

ہم جیسے جونیئر اور نئے لکھنے والے اس انتظار میں رہتے ہیں ہمارے سینئر اور دانشور ایسے موضوعات پر لکھیں گے لیکن ہمیں کیا خبر کہ ان دانشوروں کی دانش کا ایک مخصوص دائرہ ہے اور اس کے بعد ان کی دانش ختم ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی میرا جیسا سر پھرا ان موضوعات پر لکھے تو اسے طعنے دیئے جاتے ہیں کہ تم اپنا ملک تو ٹھیک سے چلا نہیں سکتے اور ساری دنیا کے مسلمانوں کاآپ نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے تو ایسے دانشوروں سے عرض ہے کہ جب داعش اور طالبان کی طرف سے جوابی رد عمل سامنے آتا ہے تو کیا آپ نے عالم کفر کی نمائندگی کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے؟ اور آپ کا اس حدیث نبوی کے بارے میں کیا خیال ہے کہ مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو ساراجسم درد میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔


کہتے ہیں میڈیا آذاد ہے اگر میڈیا آذاد ہے تو یہ سب کیا ہے ،ہم برطانیہ میں ہونے والی شادیوں اور انڈیا میں مرنے والے اداکاروں کو تین تین دن تک کوریج کیوں دیتے ہیں اور ہم برما کے مسلمانوں کو تین منٹ کیوں نہیں دیتے ،ہم دس دس گھنٹے کرکٹ میچ کی کوریج کے لیئے ضائع کر دیتے ہیں مگر ہم برما میں لٹنے والے مسلمانوں کو دس منٹ کیوں نہیں دیتے ،ہم تفریح کے نام پر پورا پورا دن انڈین فلمیں چلائے رکھتے ہیں مگر ہم برماکی صورتحال کیوں نہیں دکھاتے ،ہم امریکی صدر کے کتے اور برٹش شہزادی کی بلی کی تصاویر تک دکھاتے ہیں مگر ہم برما میں تڑپتے انسانوں کی تصاویر کیوں نہیں دکھاتے اور ہم انڈین اداکاراؤں کی نجی زندگی کے اندر تک گھس جاتے ہیں مگر ہم کعبہ کی بیٹیوں کا تقدس پامال ہوتا کیوں نہیں دکھاتے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :