غدار کون ؟

پیر 8 جون 2015

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

محترم جناب حسن مجتبیٰ صاحب لکھتے ہیں کہ سیاسی قیادت کا ایک بڑا حصہ یا تو " کافر" ہے یا "دشمن کا ایجنٹ" یا "غدار"۔ مزید لکھتے ہوئے وہ ایسی کئی شخصیتوں کا ذکر کرتے ہیں جو پاکستانی قوم کے آئیڈئیل ہیں۔ یا کبھی رہ چکے ہیں۔ ان میں محترمہ فاطمہ جناح سے لے کر جاوید ہاشمی صاحب تک کا ذکر ہے۔ یعنی ایک گو موگو کی سی کیفیت ہے کہ کچھ پتا نہیں کسے غدار کہیں اور کسے محب وطن۔

" شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے " کے مصداق ہر کوئی ایک دوسرے کو کافر و غدار کہہ کر پکارتا ہے۔ سوشل میڈیا پہ ایک دردناک پوسٹ گردش کرتی نظر آتی ہے کہ " مسلمانوں کا ہر فرقہ ایک دوسرے کو کافر کہہ کر پکارتا ہے ۔ صرف کافر ہی مسلمانوں کو مسلمان کہہ کر پکارتا ہے"۔ اس پوسٹ کو صرف تھوڑا سا تبدیل کر لیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ " پاکستان میں ہر کوئی ایک دوسرے کو سندھی ، بلوچی ، پٹھان، پنجابی، گلگتی، ہزارہ وال، ہندکو کہہ کر غدار غدار کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہے۔

(جاری ہے)

صرف عالمی دنیا ہی ہم سب کو " پاکستانی " کہہ کر پکارتی ہے۔
مجتبیٰ صاحب نے جو نام لیے وہ نئی نسل کے ہوش سنبھالنے سے پہلے کے ہیں لہذا یہ نسل آج کے دور میں ویسے ہی نام تلاش کرتی ہے تو اسے حسین حقانی جیسے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے ۔ جو امریکہ جیسی محفوظ جگہ پر بیٹھ کر پاکستان کو ایک غیر محفوظ ریاست ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

اب حسین حقانی کو غدار کہا جائے یا ان لوگوں کو جو اس کو لے کر آئے ۔ یا وہ لوگ غدار کہلائیں گے جو حسین حقانی جیسے کئی لوگوں کو تحفظ دیتے رہے۔ اگر تحفظ دینے والے لوگ حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ پاتے ہیں تو پھر حقانی جیسے کرداروں کو کیسے غداروں کی فہرست میں رکھیں گے؟ نئی نسل کنفیوژن کا شکار ہے۔ حسن مجتبیٰ جیسے لوگوں سے راہنمائی درکار ہے۔


ایگزیکٹ نے جعلی ڈگریوں کے کاروبار سے پاکستان کا نام بدنام کیا۔ اورمیرے جیسے ایک طالبعلم کے لیے تو ملک کا نام بدنام کرنے والے بھی غدار ہی کہلائیں گے۔ لیکن یہاں بھی معاملہ اس قدر سادہ نہیں ہے۔ اگر تو ایگزیکٹ والوں کو غداری اور ملک دشمنی کی فہرست میں رکھ دیا جائے تو ان لوگوں کو کس فہرست میں رکھا جائے گا جو ایوان اقتدار کے باسی بننے کے لیے جان بوجھ کر جعلی ڈگریوں کا سہارا لیتے رہے ہیں۔

ایگزیکٹ پر اگر الزام ثابت ہوتا ہے تو اس میں لوگ انجانے میں شکار ہوئے۔ لیکن جو لوگ خود جان بوجھ کر جعلی ڈگری حاصل کر کے اس ملک کی بھاگ دوڑ سنبھال لیتے ہیں کیا انہیں ہم محب وطن کہیں گے یا غدار؟ 80 اور 90 کی دہائی میں ہوش سنبھالنے والی نسل کو بھاشانی، مولوی فضل حق، فیض احمد فیض کی غداری یا حب الوطنی کو سمجھنے میں تو کچھ وقت ضرور لگے گا لیکن موجودہ نسل اپنے دور میں بھی غداری و حب الوطنی میں فرق کرنے کے معاملے میں گو مگو کا شکار ہے کہ جسٹس مقبول باقرکی رپورٹ جب سانحہ ء ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے حکومت وقت کے خلاف آ گئی تو اس رپورٹ کو ہی ماننے سے انکار کر دیا گیا اب سمجھ نہیں آتا کہ محترم جسٹس مقبول باقر صاحب محب وطن یا غدار ہیں یا رپورٹ نہ ماننے والے غدار ہیں ؟ یا پھر حالیہ فیصلہ کرنے والی JIT محب وطن ہے یا غدار؟ ( جس نے تنزیلہ جیسی مظلوم خاتون کا خون بھی خود اسی کے اپنے ہاتھوں کروا دیا ہے)۔

یہاں تو کسی کے ہاتھوں پہ اپنا لہو تلاش کرنا جوئے شیر کھود لانے کے مترادف ہے کیوں کہ یہاں تمام شہر نے دستانوں کے بجائے بے حسی کے خول چڑھائے ہوئے ہیں۔ ہم یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ آیا ماڈل ٹاؤن میں گولیاں برسانے والے محب وطن کہلائے جائیں گے یا گولیاں کھانے والے؟ ایک سپر ماڈل رنگے ہاتھوں گرفتار ہو کر پورے " سازو سامان" کے ساتھ عدالت میں پیش ہوتی ہے۔

وہ بھی فرصت سے تیار ہو کر۔ اب سمجھ سے بالاتر ہے کہ کسے غدار کہیں گے۔ سپر ماڈل کو یا پھر سپر ماڈل کے سرپرستوں کو، یا پھر ان لوگوں کو جو اس کو جیل میں بھی VIPپروٹوکول کے ساتھ ساتھ تیاری کے مکمل لوازمات تک مہیا کر رہے ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ اس میڈیا کے بارے میں بھی عام آدمی کنفیوژن کا شکار ہے کہ اس میڈیا کو وطن دوست کہیں یا غدار جو ایک قیدی کی عدالت میں رونمائی کو حالات حاضرہ کا سب سے بڑا مسلہ بنانے پہ تلے ہوئے ہیں۔

اس ملک کے عوام ایک عجیب سے مخمصے کا شکار ہیں کہ جو جوان سیاچن کی چوٹیوں پہ بیٹھے ہیں ان کے بارے میں تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ ملکی ترقی میں رکاوٹ ہیں جب کہ جن لوگوں کے محلات تک پاکستان سے باہر ہیں وہ اپنی مخلصی کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتے۔ اب پریشانی یہ ہے کہ کسے غدار کہیں اور کسے حب الوطنی کی سند عطا کریں۔ یہاں کا دستور کچھ ایسا عجیب ہو گیا کہ نئے صوبے جیسا قابل عمل مطالبہ کرنے والوں کو تو ملک دشمن تک کہہ دیا جاتا ہے لیکن اپنی شان و شوکت بچانے کے لیے عوام کو کنگال کرنے والے پھر بھی مسیحا بنے رہتے ہیں۔

اب کوئی کرے تو کرے کیا ۔آدھا ملک کھا جانے والے وطن دوست ہیں یا اس ملک کے لیے اپنا آپ مٹا دینے والے؟ فیصلہ نہیں ہو پا رہا۔ کیوں کہ اقتدار کا ہما تو پھر بھی انہی کے سر بیٹھتا ہے جو۔۔۔۔۔۔ !
آج کی نسل کو تاریخ میں پڑھایا گیا کہ مجیب الرحمٰن غدار تھا جس نے ملک توڑا لیکن سابق ائیر مارشل ظفر چوہدری تو اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب مجیب الرحمٰن کو لندن روانہ کیا گیا تو بھٹو خود انہیں چھوڑنے آئے اور مجیب الرحمٰن نے بھٹو کے رخساروں پہ بوسے دیے وہ مزید لکھتے ہیں کہ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

مجیب الرحمٰن نے کہا کہ مجھے بنگال واپس پہنچ لینے دیں میں مل کر رہنے کی کوئی راہ نکال لوں گا فکر نہ کریں۔ اب آج کا جوان گومگو کا شکار ہے کہ مجیب الرحمٰن کو غدار کہیں یا بند گلی میں قید ایک قیدی؟ وہ غدار ہوتا تو اس وقت جب وہ قید میں بھی نہیں تھا تو آنسوؤں کے ساتھ یہ الفاظ کیوں کہتا۔ جس بھٹو کو پھانسی لٹکا دیا گیا اس کے متعلق اسی شیخ مجیب الرحمٰن نے کہا کہ بھٹو اچھا آدمی ہے تم لوگوں کو اس کا ساتھ دینا چاہیے۔

اب عجب کشمکش ہے کہ مجیب ٹھیک تھا، بھٹو ٹھیک تھا ، بھٹو کو پھانسی پہ لٹکانے والے محب وطن تھے یا موجودہ سیاستدان؟ فیصلہ نہیں ہو پا رہا۔یا پھر ظفر چوہدری جیسے لکھاری غدار ی کی سند پائیں گے؟
وطن سے وفاداری کا ہی تو عالم ہے کہ بچے صحرا میں پیاس سے مر رہے ہیں۔ عزتیں نیلام ہو رہی ہیں۔ گولیاں سرحدوں کے بجائے گلیوں میں چل رہی ہیں۔ خونِ انساں ارزاں ہو گیا ہے۔

روزانہ 4 سے 5 لاشیں گریں تو اللہ کا شکر ادا کیا جاتا ہے کہ یہ تعداد تو ہمارے لیے بہت کم ہے (ایک شہر میں)۔ بسوں میں گھس کر خون کی ہولی کھیلی جائے یا سکول میں گھس کر۔ سب اچھا ہے۔ کیوں کہ اس دھرتی سے محبت کا مطلب یہ تو ہرگز نہیں کہ ان فضول معاملات پر اپنی محبت صرف کر دی جائے۔ بلکہ محبت کا مطلب تو میٹرو بس بنانا ہے ۔ وطن سے وفاداری کا مطلب تو یہ ہے کہ سائیں جی ساحل پہ نہاتے لوگ دیکھ کر لطف اندوز ہوں۔

ان مسائل کا رونا رونے والے ہی تو اصل میں غدار ہیں کیوں کہ یہ مسائل میں الجھے لوگ ہی ایوان اقتدار کے باسیوں کو عیش و عشرت کی مستی سے جگانے کا باعث بنتے ہیں۔
خبردار!!! جو کسی نے بہتے خون ۔۔۔ پیاسے بچوں۔۔۔ اجڑتی بستیوں۔۔۔گرتے لاشوں۔۔۔ یا پھر لٹتی عزتوں ۔۔۔۔ کی طرف ارباب اختیار کی توجہ دلانے کی کوشش کی تو۔۔۔ ورنہ غداری کے سرٹیفیکیٹ تو یہاں ریڑھیوں پہ بکتے ہیں۔ ہاں حب الوطنی صرف اشرافیہ کے محلات کی باندی ہے جو ان کے سوا کسی عام آدمی میں نہیں آ سکتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :