امریکا کا جنگی جنون… عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ

ہفتہ 6 جون 2015

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

آج کی دنیا میں جہاں ایک جانب سائنس و ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی نے انسانیت کی مادی فلاح و آسائش کا بہت ساراسامان میسر کردیا ہے اور آج کا انسان گزشتہ ادوار کے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ سہولیات و وسائل سے فیض یاب ہورہا ہے، وہیں بنی نوع انسان کی تباہی و بربادی، بے سکونی اور بے یقینی کے اسباب بھی بڑھ رہے ہیں، بلکہ اگر موازنہ کیا جائے تو انسانیت کی راحت رسانی کے عوامل کے مقابلے میں اذیت رسانی کے عوامل کہیں زیادہ فروغ پذیر دکھائی دیتے ہیں۔

وحی کی روشنی اور آسمانی تعلیمات کے نور سے محروم سائنسی پیش رفت عالم انسانیت کو جنگوں اور تباہی کے خطرات سے نجات دلانے کی بجائے ان میں مزید اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ اس منظرنامے کو دیکھ کرزکی کیفی# مر حوم کا یہ شعر یاد آجاتا ہے کہ #
جس قدر تسخیر خور شید و قمر ہوتی گئی
زندگی تاریک سے تاریک تر ہوتی گئی
اور یہ کہ #
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
اپنے افکار کی دنیا میں سحر کر نہ سکا
آج دنیا کی قیادت جن قوتوں کے ہاتھ میں ہے، ان کی انسانیت نوازی اور امن پسندی کا اندازہ کرہ ارض کے موجودہ منظر نامے میں جنگوں اور کشت و خون کے چہار سو پھیلے مناظرکو دیکھ کر کیا جاسکتا ہے۔

(جاری ہے)

امریکی یونیورسٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 2001ء سے جاری پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عنوان سے جاری مہم کے دوران ایک لاکھ 49ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔ براوٴن یونیورسٹی اینڈواسٹن انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل سٹڈیز کی رپورٹ ”کاسٹ آف وار “میں پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کی جنگ میں اموات کا مطالعہ کیا گیا۔

تحقیق کے مطابق 2001ء سے افغانستان میں جاری جنگ میں ایک لاکھ افراد ہلاک اور اتنے ہی زخمی ہوئے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کی جنگ میں ایک لاکھ 49ہزار فوجی اور شہری زندگی کی بازی ہار گئے، جبکہ 1لاکھ 62ہزار افراد زخمی ہوئے، اقوام متحدہ نے تشویش ظاہر کی ہے کہ 2015ء کے پہلے 4ماہ کے دوران افغانستان میں 974افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔


خود امریکا کی ایک یونیورسٹی کی تحقیقاتی رپورٹ میں دہشت گردی کی امریکی جنگ کی بھینٹ چڑھنے والے جن ڈیڑھ لاکھ افراد کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں سے شاید ہی کسی کا نائن الیون کے واقعات اور امریکا پر ہونے والے حملوں سے کوئی دور کا تعلق بنتا ہو۔ امریکا نے نائن الیون کے واقعات کے بعد محض اندھے جذبہٴ انتقام کے تحت اور سراسر غیر قانونی اور غیر اخلاقی طورپر افغانستان جیسے تباہ حال ملک کو صرف اس وجہ سے تاراج کرکے رکھ دیا کہ وہاں اس وقت ایک اسلامی حکومت قائم تھی۔

امریکا نے دنیا کے 40 ممالک کی بہترین عسکری ٹیکنالوجی سے لیس افواج کے ساتھ افغانستان کے بے سروسامان عوام کو جارحیت کا نشانہ بنایا، لیکن آج چودہ برس گزرنے کے بعد وہ وہاں سے اس حال میں انخلا کررہا ہے کہ اسے اس طویل جنگ میں شکست وہزیمت کا منہ دیکھنا پڑا ہے اور اس وقت اسے افغانستان سے باعزت واپسی کے لیے کوئی بہانہ بھی نہیں مل پارہا۔ افغانستان کی جنگ درحقیقت امریکا اور مغرب کے لیے سراسر شرمندگی اور ندامت کا ایک باب ہے، جو تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا ہے۔


قتل و خوں ریزی کی اس مہم پر انسانیت کے وسائل جس بے دریغ طریقے سے جھونکے گئے، اس بارے میں ہوش ربا اعداو شمار سامنے آتے رہے ہیں۔ چنانچہ چند ماہ قبل سامنے آنے والی ایک امریکی اخبار TheEpochTimesکے مطابق عراق، افغانستان، اور پاکستان میں جاری جنگوں پرامریکی اخراجات 4.4 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں، جب کہ6لاکھ افراد ان جنگوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے، جن میں 3لاکھ 50ہزار افرا د براہ راست جنگی کارروائیوں کا شکار ہوئے، جب کہ ڈھائی لاکھ ایسے افراد بھی موت کے منہ میں چلے گئے جنہیں ان جنگوں سے پیدا شدہ مسائل کی وجہ سے غذائی اور صحت کی سہولتوں تک رسائی نہ مل سکیں۔

پاکستان میں 2004سے 52 ہزار پاکستانی شہری اس جنگ میں جاں بحق ہوئے، جب کہ50ہزار سے زاید زخمی ہوئے۔ عراق پر جنگی اخراجات 2.1ٹریلین ڈالر، جب کہ افغانستان اور پاکستان میں جنگی اخراجات 2.15ٹریلین ڈالر ہوئے۔ امریکا کوان جنگوں کے لیے حاصل قرض پر آیندہ 40برس میں 8ٹریلین ڈالر سود ادا کرنا پڑے گا۔ امریکی تھنک ٹینک PROJECTSCOSTS OF WAR کے اعداد و شمار کے مطابق ہلاکتوں میں عام شہریوں کے علاوہ امریکی فوجی، کنٹریکٹرز، امریکی اتحادی فوجی، سیکورٹی فورسز اور وہ لوگ شامل ہیں جنہیں امریکاعسکریت پسند اوردہشت گرد قرار دیتا ہے۔


اقتصادیات کے عالمی ماہرین کے مطابق امریکا نے نائن الیون کے بعد جتنے وسائل جنگوں پر لگائے، اگر ان کا نصف بھی دنیا کے غریب اور ترقی پذیر ممالک میں تعلیم، صحت اورفلاح عامہ پر خرچ کیا جاتا تو شاید آج دنیا کا نقشہ ہی بدل چکا ہوتا۔ 4.4ٹریلین ڈالرز کی رقم شاید پورے بر اعظم افریقہ کے تمام ممالک کے مجموعی بجٹ سے بھی زیادہ ہو۔ انسانیت کے اتنے خطیر وسائل جس مقصد کے لیے صرف کیے گئے، اس کی حقیقت خودامریکی وزیرخارجہ جان کیری کے اس بیان سے معلوم کی جاسکتی ہے، جس میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ عراق جنگ امریکا کی سنگین غلطی تھی جس کا خمیازہ آج بھی بھگت رہے ہیں۔

کچھ عرصے قبل چینی خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا تھا کہ ا نہوں نے سابق صدر بش کے دور میں ہی اس فیصلے کو غلط قرار دیا تھا۔ تقریبا ًیہی صورت حال افغانستان کی ہے، جہاں امریکا اور اس کے اتحادیوں کو14سال کی خجل خواری کے بعد بے نیل مرام واپس ہونا پڑرہا ہے اور اور امریکا اور اس کے اتحادی اپنی غلطی تسلیم کرکے شکست قبول کرنے کی بجائے افغانستان کو بھی خانہ جنگی کی آگ میں جھونکنے کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔

امریکا کے توسیع پسندانہ عزائم اور جنگی جنون کا نشانہ کوئی ایک ملک یا خطہ نہیں، بلکہ اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔
امریکا اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ دنیا کے مختلف ممالک کی جاسوسی پر صرف کرتا ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق امریکی خفیہ ایجنسی کو پاکستان سمیت 193ممالک اور ان کی متعدد جماعتوں کی جاسوسی کی اجازت حاصل ہے۔

منحرف خفیہ امریکی ایجنٹ ایڈورڈ اسنوڈن کی طرف سے افشا کی گئی دستاویزات کے مطابق فارن انٹیلی جنس سرویلینس کورٹ کی طرف سے 2010ء کی قانونی دستاویزات کی منظوری دی گئی، جس کے مطابق امریکی کمپنیوں کے ذریعے این ایس اے جاسوسی کرسکتی ہے۔ تمام ممالک میں امریکی ایجنسی کے کمپیوٹر خود کار طریقے سے فون کالوں کی چھان بین کرتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2010ء کی ان خفیہ دستاویزات کے مطابق این ایس اے دنیا بھر میں کہیں بھی امریکی اہداف کے متعلق گفتگو ریکارڈ کر سکتی ہے، جب کہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، یورپی یونین اورعالمی توانائی ایجنسی بھی نیشنل سیکورٹی ایجنسی کی جاسوسیوں سے محفوظ نہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا پوری دنیا کو اپنی کالونی سمجھتا ہے اور کوئی بھی ملک اس کی دست برد سے محفوظ نہیں ہے۔ اگر دیکھا جائے تو امریکا کی یہ توسیع پسندانہ سوچ اور جنگی جنون عالمی امن و استحکام کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اگر دنیا کو شرو فساد، جنگوں اور کشت و خون کے عذاب سے بچانا ہے تو عالمی برادری کو امریکا کے جنگی جنون کا کوئی علاج تلاش کرنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :