شاید کہ ایسا ہو جائے

جمعرات 4 جون 2015

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

ہر میچ کے اختتام پر دل میں ایک آرزو پلتی رہی کہ آئندہ میچ سٹیڈیم میں بیٹھ کر دیکھا جائے ۔ لیکن یہ آرزو اس وقت دم توڑ جاتی جب دن بھر کی شدید مصرو فیات کسی ناگہانی آفت کی طرح سامنے آجاتیں اور پھرہم جیسے قلم کے مزدوروں کے لئے نا چاہتے ہوئے بھی اپنی خواہشوں پر چھری پھیرتے، شب و روز کی مصرفیات میں مگن ہو نا ہماری مجبوری بن جاتی ہے۔

حضرت علی کا یہ قول مبارک کہ” میں نے اپنے رب کو ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا“بھی اس موقع پر پورا اترتا ہے کہ انسان لاکھ جتن کر لے، ہزاروں منصوبے بنالے ،ہوتا وہی ہے جو میرے رب کو منظور ہو تا ہے۔
ہر میچ کے اختتام پر خوشی اور روحت کے ملے جلے احساسات روح میں امید اور یقین کا عنصر پیدا کر دیتے تھے کہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ اس خوف کے موسم میں بہت احسن طریقے سے مہمان ٹیم کو خوش آمدید کہا گیا، انہیں سخت سیکورٹی کے حصار میں سٹیڈیم سے ہو ٹل اور ہوٹل سے سٹیڈیم تک پہنچانے، میچ کے شروع سے آخر تک بہترین انتظامی معاملات سمیت سیکورٹی کے بہترین انتظامات اور دشمنوں کی طرف سے اتنی دھمکیوں کے باوجود کسی بڑے نقصان سے بچنے کی بہترین حکمت عملی یقینا جہاں قانون نافذ کر نے والے اداروں سمیت ہر ادارے نے اس میں اپنا مقدور بھر حصہ ڈالا ہے اس میں لاہور پولیس کے افسران اور کار کنان کا بھی ایک بڑا حصہ ہے۔

(جاری ہے)


پچھلے دنوں فیس بک پر ایک ویڈیو کلپ دیکھنے کو ملا جس میں تما شائیوں سے بھرے سٹیڈیم میں جب لاہور کے سی۔سی ۔پی۔او امین وینس، ڈی۔ آئی۔ جی آپریشنز،ڈاکٹر حیدر اشرف ، ڈی۔آئی۔ جی انوسٹی گیشن، رانا ایاز سلیم سمیت ایس۔پی ،سی۔ آئی۔ اے عمر ورک کے پنڈال میں داخل ہوتے ہی تما شائی لاہور پولیس ۔۔۔زندہ باد کے نعرے لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ویڈیو دیکھتے ہو ئے جہاں ایک طرف جذبہ حب الوطنی میں اضافہ ہو رہا تھا وہاں کئی سالوں سے دہشت گردی، ظلم، غربت اور افلا س کی ماری پاکستانی قوم کے جوانوں کے چہروں پر رعنائی اور چمک دیکھتے ہوئے منتظمین کے لئے دل سے دعا نکل رہی تھی۔


قارئین ! بلا شبہ اس کامیاب کر کٹ سیریز کا سہر اپولیس کے جوانوں کو جا تا ہے جنہوں نے ایک دفعہ پھر اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے شہریوں کو تفریح کا موقع فراہم کیا اور پھر اس تما م ایونٹ کو بخوبی انجام بھی دیا۔ میرے نزدیک جہاں اس ایونٹ سے بہت سے فائدے حاصل ہو ئے اس میں سے ایک پولیس اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی نفرتوں کو ختم کر نے میں بھی کامیابی حاصل ہو ئی ہے۔


اگر غور کیا جائے توپولیس اور عوام کے درمیان حائل رکاوٹوں کو ختم کر نے میں تھانہ کلچر کی تبدیلی، پولیس کے روئیے میں بہتر پیشرفت اور عوام کو مشکل اور پیچیدہ نظام سے نجات دلانے کے لئے مفاد عامہ کے نئے پروجیکٹس کے آغاز یقینا قابل تعریف اقدام ہیں لیکن ملازمین کی جدید خطوط پر تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ان چیزوں کے کوئی خاطر خواہ نتائج دکھائی نہیں دے رہے تھے اور جن پر کام کر نے کی اشد ضرورت اور وقت کا تقا ضا تھا۔

لیکن مجھے یہ جان کے از حد حیرت ہوئی کہ پنجاب پولیس نے اس پروجیکٹ پر بھی کام شروع کر دیا ہے اور اس کے لئے پولیس سروس کے ایک ایمان دار افسر طارق مسعود یاسین کا انتخاب کیا ہے جو شعیب سڈل اور ذاولفقار چیمہ کے رستے کا راہی ہے۔
کچھ دن پہلے ہو نے والی ملاقات میں ان کی مرتب کردہ ٹریننگ،اس کا دورانیہ، پڑھائے جانے والا نصاب اور اس سے حاصل ہو نے والے ثمرات کو دیکھ کر معلوم ہو تا ہے کہ اگر اس افسر کو یونہی کام کر نے دیا گیا تو کچھ بعید نہیں کہ کچھ ہی عرصے میں ہماری پولیس بالخصوص انوسٹی گیشن پولیس کا دنیا کی بہترین تحقیقاتی ادارے میں شمار نہ ہو۔

طارق مسعود یا سین ایک جنونی شخص ہے جو صبح سے شام اپنی اس دھن میں مصروف دکھائی دیتا ہے یہاں تک کہ ٹریننگ کے کورس میں دکھائی جانے والی مختلف تصاویر کی عکاسی بھی خود ہی کرتے ہیں۔
قارئین کرام !یہ ایک حقیقت ہے کہ اگرکسی ادارے کو ایک فرد بھی مخلص میسر آجائے تو وہ افراد کو بھی اپنے جیسا بنا نے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا جس کی کئی مثالیں ہمارے اسی معاشرے میں نظر آتی ہیں۔

ایک ایسی ہی مثال اپنی موٹر وے پولیس کی ہے جب اس کے سابق آئی ۔جی ذولفقار چیمہ نے ایک سینئر اخبار نویس کے سامنے انکشاف کیا کہ انہیں تھانوں اور پولیس لائنوں سے بچے کھچے اور ناکارہ لوگ سونپے گئے لیکن ایمانداری اور حب الوطنی کے جذبے سے سر شار اس افسر کی وجہ سے اب ناکارہ کہلائے جانے والے ان لوگوں کی ایمانداری کی ایک دنیا گواہ ہے۔
مجھے امید ہے کہ اگر پولیس کے حکام بالا اسی روش پر قائم رہتے ہوئے پولیس کو عوام دوست اور حقیقی معنوں میں میرٹ پر انصاف دینے کا پابند بنا دیں تو وہ دن دور نہیں کہ پاک فوج کی طرح کہ جب اس کے سپاہی کو دیکھنے کے ساتھ ہی پاک فوج۔

۔۔زندہ باد کا نعرہ بلند ہو جاتا ہے ،پولیس کے سپا ہی کو دیکھ کر بھی لوگ پنجاب پولیس۔۔۔ زندہ باد کا نعرہ بلند کریں۔ شاید کہ ایسا ہو جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :