مولوی اورسیاست دان

اتوار 31 مئی 2015

Zahid Raza Chaudhry

زاہد رضا چوہدری

مولوی اورسیاستدان معاشرے میں گہرا اثرو رسوخ رکھنے والی اہم اور دلچسپ کردار کی حامل شخصیات ہیں۔ پیدائش سے لے کر نزع کے عالم تک عوامی زندگی کا تقریبادارومدار انہی شخصیات پر محیط ہے،،، ان شخصیات کی مہارت یا فنکاری دراصل عوام کی نبض شناسی ہے جس میں ان کا کوئی ثانی نہیں،،،،، گزشتہ چھیاسٹھ سالوں کے طویل عرصے پر نظر دوڑائیں تو یہ طلسمی کردار اُسی طرز واردات کے ساتھ خوشحال زندگی کے مزے لے رہے ہیں ، جبکہ دوسری جانب دیگر شعبہ ء ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اعلی تعلیم یافتہ و مستند مہارت کے حامل افراد معاشرے میں نمایاں مقام حاصل کرنے کے باوجود آج بھی کسب معاش اور فکر معاش کی اُلجھنوں سے دو چار نظر آتے ہیں،،،باقائدہ تعلیمی قابلیت، تعلیمی معیار اور میرٹ کے بعد اعلی مقام حاصل کرنے والے افراد کے برعکس مولوی اور سیاست دان تعلیمی قابلیت ، میرٹ یا کسی بھی قسم کے مقابلے کے امتحان سے نہ صرف کوسوں دورہوتے ہیں، بلکہ ملک کے مروجہ قائدے قوانین سے بھی مبرا تصور کئے جاتے ہیں،،، معاشرے میں دینی معاملات ،جیسے نماز، روزہ حج، زکواة، ختم و درود، نکاح، طلاق، جنازہ اور برسی و تہوار پر نصیحت ، واعظ اور فتوی کے لئے مولوی حضرات جبکہ معیشت و معاشرت، روزی روٹی، علاج معالجہ جیسے معاملات سیاستدانوں کے سپرد ہوتے ہیں ،،ملک کے لئے پالیسیاں ترتیب دینی ہوں یا دینی معاملات طے کرنے ہوں ،یہی دو کردار کبھی مذہب کے نام پر اور کبھی جمہوریت کے نام عوام کی سادگی یا مجبوری سے کھیلتے ہیں،، یہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ انتھک محنت کے بعد معاشرے میں ایک نماؤں مقام حاصل کرنے والے جدید عصری تعلیم و فن کے ماہر ین، ڈاکٹرز، انجینئرز، بزنس مین، سائینس دان اور پروفیسرز بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ انہی دو شخصیات کے طابع ہوتے ہیں،، اس طرح سے عوام کو اپنی زندگی کے بیشتر اہم معاملات ان ہی دو کرداروں کے سُپرد کرکے نتیجاتا پوری زندگی کرب ومحتاجی میں گزارنا پڑتی ہے۔

(جاری ہے)

۔۔ ان دو شعبوں سے وابسطہ افراد کے علاوہ تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد کو مہنگائی ، بے روزگاری اور معیاری تعلیم جیسے بحرانوں کا سامنا رہتا ہے جبکہ سیاست دان اور مولوی کوپیدائش سے لیکر مرنے تک مہنگائی اور بے روزگاری کی ’م اور ب‘ کی حرارت تک نہیں چھوپاتی اور ہم ہیں کہ اس مہنگائی و بیروزگاری کے اس دریا میں سر اپا تیرتے رہتے ہیں،،،مسجد میں متعین مولوی حضرات کی رہائش، یوٹیلیٹی بلز، اور عید تہوار پر کپڑے و سالانہ بونس عوام کے ذمے ہوتا ہے، اگر انکا کوئی جوان بیٹا ہو تو اُسے بھی تیار کر کے مدرسے کاذمہ دار بنا دیا جاتا ہے اس طرح سے پوری فیملی عوامی بجٹ پر خوشحال زندگی کے مزے لوٹتی ہے، جبکہ گاؤں دیہاتوں کی مساجدو مدرسے میں گندم، آٹا اور دودھ جیسی روزمرہ ضروریات زندگی میں بھی مولوی حضرات کا وافر حصہ ہوتا ہے،،،اسی طرح مسجد مدرسے میں بچوں بچیوں کے ختم قرآن پاک اور گلی محلے میں نکاح جیسے معاملات میں بھی مولوی صاحب کو من و سلوی نظر کیا جاتا ہے،،،،،، دوسری جانب سیاست دان جو ہر انتخاب میں عوام سے جھوٹے وعدے کرکے ایوانوں تک پہنچتے ہیں، بھی عوامی دولت پر عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہیں،انکی رہائش ، یوٹیلیٹی بلز، ٹرانسپوٹیشن اور بچوں کی تعلیم عوامی بجٹ ہی کی مرہون منت ہوتی ہے،،،،،،اسی لئے توکبھی کبھی دل کے نہاں خانوں سے یہ آواز اُٹھتی ہے کہ ․ ’ کاش ہم بھی مولوی یا سیاست دان ہوتے!!!!!!!! مولوی اورسیاست دان میں قدر مشترک ” ڈھٹائی اور بے اعتنائی“ ہے جس میں دونوں خودکفیل ہیں،،، ملک میں زمانہء امن ہو یا جنگ، تپتی گرمی ہو یا ٹھٹھرتی سردیاں، ہر قسم کے مذہبی و معاشی حالات میں یہ شخصیات کسی نہ کسی طرح عوام کو اپنے سحر میں جکڑے رکھتی ہیں اور اس طرح مذہب کی محبت اور جمہوریت کی بھینٹ چڑھتی عوام انکے جلسے جلوس اور احتجاجی ریلیوں میں اپنی جان تک گنوا بیٹھتی ہیں ، پھر جان کے ضیاع پرجھوٹے دلاسے اور فوٹو سیشن سے اپنی دُکان کی چمک دمک میں مذید اضافہ کر لیا جاتا ہے،،،،،،عآج یعقیننا وقت یہ تقاضہ کرتا ہے کہ علمائے حق اور حقیقی جمہوریت کے داعی اپنی اپنی بیرکوں سے باہر نکلیں اور معاشرے میں سرائیت کردہ غیر متوازن صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے دین و جمہوریت کو اُنکی اصلی روح کے مطابق ڈھالیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :