معاملہ حد سے گزرتا جا رہا ہے

اتوار 31 مئی 2015

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

خیر یہ کوئی نئی بات یا نیا معاملہ نہیں ہے۔ سالوں سے یہ سب ہورہا ہے۔ لیکن پاک لوگوں کی سر زمین پر یہ سب ہونا تو نہیں چاہئیے۔ جہنمی کافروں کے ملکوں میں یہ سب ہو رہا ہو تو سمجھ میں آنے والی بات ہے ، مگر ایسے لوگ جو اپنے آپ کو سب انسانوں سے بہترین اور ہدایت یافتہ سمجھتے ہوں ، ان کے ملک میں تو ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ پاک لوگوں کو تو دنیا بھر کے لئے ایک نمونہ ہونا چاہئے۔

دنیا بھر کو پاک لوگوں کی ایمانداری، محنت، شرافت، دیانت، وعدہ پروری، علم پروری، صفائی ستھرائی، شفافیت، اصول پسندی ، بہادری، صلح جوئی کا معترف ہونا چاہئے اور پاک لوگوں کے ملک سے زندگی گذارنے کا سلیقہ سیکھنا چاہئے۔ آخر قومی شاعر نے یہ اشعار اپنے وطن کے لوگوں کے لئے ہی کہے تھے ،
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
کر دار میں گفتار میں اللہ کی برہان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
پاک لوگوں ک کے وطن میں جیب کتروں کے گروہ منظم طریقے سے کام کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

نئے بھرتی شدہ جیب کترے کو باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی ہے ۔ ٹریننگ کے بعد نیا بھرتی شدہ جیب کترا اپنے سینئر جیب کترے کی زیر نگرانی کام شروع کرتا ہے۔ جب گروہ کا لیڈر اسکی کار کردگی سے مطمئن ہوجاتا ہے تو اسکو خود مختاری سے آزادانہ طور پر جیبیں کاٹنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ گروہ میں شامل جیب کتروں کو روزآنہ کے شکار سے ان کا کمیشن ادا کیا جاتا ہے اور معقول مشاہرہ بھی دیا جاتا ہے۔

یہی معاملہ چوروں، ڈکیتوں، اغوا کاروں، بھتہ خوروں ، اٹھائی گیروں، جعلسازوں کے گروہوں کا بھی ہوتا ہے ۔ ان سب کو ابتدائی طور پر ٹریننگ دی جاتی ہے اور پھر کارروائیوں میں شامل ہونے پر لوٹ کے مال سے معقول حصِّہ دیا جاتا ہے۔ملک بھر میں سر گرم عمل ہزاروں ایسے گروہوں میں شامل لاکھوں افراد صاحب ایمان مسلمان ہوتے ہیں اور پورے ہوش و حواس میں ایسے کام کرتے ہیں۔

یہ لوگ چونکہ اپنے خلافِ مذہب اور خلافِ قانون کاموں کی نوعیت سے آگاہ ہوتے ہیں، لِہٰذا اِس ملک کے دنیاوی قانون کی گرفت سے بچنے کا بھی معقول انتظام رکھتے ہیں۔ تاہم خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے، کبھی نہ کبھی چور، ڈاکو،جعلساز قانون کی گرفت میں آہی جاتا ہے۔ اگر قانون نافذ کرنے والا افسر ایماندار ہو تو اسکی کوشش ہوتی ہے کہ اس طرح کے گروہ کے تمام ارکان کو سرغنہ سمیت گرفتا ر کر کے، پورے گروہ کا خاتمہ کر دیا جائے۔

یہ بھی مقامِ شکر ہے کہ کبھی عوام الناس یا لنڈے کے انگریزوں پر مشتمل سول سوئٹی نے سوشل یا اَن سوشل میڈیا پر یہ واویلا نہیں مچایا کہ ڈاکو چھوٹو گینگ، یا قاری جعلساز گینگ کے دیگر ارکان کو گرفتار نہ کیا جائے ورنہ وہ بیروز گار ہوجائیں گے اور انکے سیکڑوں گھرانوں کا کیا بنے گا۔ ایک امریکی اخبار کی رپورٹ کے نتیجے میں ملکی تاریخ کے ایک بہت بڑے جعلساز گروہ کا انکشاف ہُوا۔

یہ جعلساز گروہ اپنے سیکڑوں افراد پر مشتمل گینگ کے ذریعے مبینہ طور پر لاکھوں افراد سے اربوں روپے لوٹ چُکا ہے۔ اب تک کی دستیاب معلومات کے مطابق یہ گروہ عاقل و بالغ اور کمپیوٹر کی سُدھ بُدھ رکھنے والے افراد سے کام لیتا تھا۔ نئے بھرتی شدہ گینگ ممبرز کو وارداتوں کی ٹریننگ دی جاتی تھی ۔ ٹریننگ میں مختلف امریکی اور برطانوی افراد کا بہروپ بھرنے کے لئے امریکی اور برطانوی لہجوں میں انگریزی بولنے کا ٹیسٹ بھی شامل ہوتا تھا۔

ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد نیا بھرتی شدہ گینگ ممبر کِسی سینئر گینگ ممبر کی زیرِ نگرانی وارداتوں کی عملی تربیت حاصل کرتا تھا۔ عملی تربیت مکمل کرنے کے بعد گروہ کا یہ نیا رکن مکمل خود مختاری کے ساتھ حسبِ ضرورت ڈیوڈ، مائیکل، جان یا رچرڈ بن کر اپنی وارداتیں شروع کر دیتا تھا۔ ان وارداتوں کا کمیشن اور ماہانہ بھتہ اتنی ہی تعلیم والی کسی بھی جائز ملازمت سے کئی گنا زیادہ ہوتا تھا۔

اگر ٹریننگ کے دوران یا فوراً بعد کِسی نئے بھرتی شدہ گینگ ممبر کا ضمیر جاگ جاتا تو اُسے معقول دھمکیوں کے ساتھ رخصت کر دِیا جاتا تھا۔ اب جبکہ یہ گروہ قانون کے ہتھے چڑھ چُکا ہے تو امید ہے کہ عوام الناس یا لنڈے کے انگریزوں پر مشتمل سول سوئٹی ، سوشل یا اَن سوشل میڈیا پر یہ واویلا نہیں مچائے گی گروہ کے خلاف قانونی کارروائی بند کرکے گروہ کے ارکان کو بیروز گاری سے بچایا جائے۔ یہ امید بھی کیا چیز ہے بقول اختر شیرانی#
یوں شام و سحر کے پردے سے امید جھلکتی رہتی ہے
جیسے کِسی سلمیٰ کا آ ٓنچل اُٹھتا جائے، گرتا جائے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :