کیا ہمیں یہ لوگ دکھائی نہیں دیتے؟؟؟

بدھ 27 مئی 2015

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

آج کئی دنوں کے بعد دفتر آنا ہوا اورحسب روایت آتے ساتھ ہی دوپہر کے کھانے کا مینو پوچھنے اور سفر کی تھکاوٹ کو ختم کر نے کی خاطر چائے کا ایک کپ پینے کے لئے نوازآفس بوائے کو بیل دی ۔ دوسرے آفس بوائے کے آنے پر معلو م ہوا کہ نواز کے والد صاحب بیمار ہیں جس کی وجہ سے وہ پچھلے دو دنوں سے چھٹی پر ہے۔تھوڑی دیر بعد پاس ہی بیٹھے دفتر کا ساتھی بولا: اچھا ہوتا کہ اُسی دن اپنے والد کو ڈاکٹرکے پاس لے جاتا ، تو آج یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔

کیا مطلب؟میں نے اپنی تما م تر تو جہ اس کی جانب مرکوز کی۔۔۔
وہ میری بات کا جواب دیتے ہوئے بولا:”مطلب یہ کہ دو دن پہلے اس کے گھر سے فون آیا، جنہوں نے والد صاحب کی طبیعت کی خرابی کا بتا یا،نواز نے ”ابو کو کوئی گولی دے دو، میری دیہاڑی مر جائے گی“ کا کہہ کر فون کاٹ دیا۔

(جاری ہے)

پھراگلے روز اِس کا فون آیا کہ میرے والدشدید بیمار ہیں اور میں انہیں ہسپتا ل لے کر جا رہا ہوں اور آخری اطلاعات آنے تک اس کے والد کی طبیعت سنبھل نہیں سکی ہے۔

نوا ز ہمارے دفتر میں کک اور آفس بوائے کے طور پر کام کرتا ہے، گھر کا کرایہ اور بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے یہاں سے فارغ ہو کے کسی دہی بھلے کی دوکان پر500روپے دیہاڑی پر کام کر تا ہے۔
قارئین !میں نے جب یہ سے یہ بات سنی تب سے ندامت اور شرمندگی کے احسا سات ہیں جو روح میں پیوست ہو گئے ہیں اور پھر اس سوال کا جواب پانے کی ہر کوشش نا کام ونا مراد واپس لوٹ رہی ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں بھی خونی رشتے اس تیزی کے ساتھ پامال ہو رہے ہیں؟میں ابھی زہر کی مانند معاشرے میں بڑھتے ہوئے اس المیہ کی وجوہات تلاش کرنے میں سر گرداں تھا کہ دفتر جاتے ہوئے میری نظریں 75سالہ رحمان چا چا پر پڑیں جولاہور کے میکلورڈ روڈ پر سخت دھوپ میں تپتی سڑک پر گد ھے کی جگہ خودریڑھی کو گھسیٹ رہے تھے۔

انہیں اس حالت میں دیکھ کر میرے قدم جیسے خود رک گئے تھے، میں نے انہیں روکا اور سڑک کی ایک طرف کرتے ہوئے اس ستم ظریفی کے بارے در یافت کیا؟ چا چا رحمان کا ایک بیٹا تھا جو ٹریفک حا دثے میں فو ت ہو گیا اور اب یہ اپنے یتیم پوتے اور بیوہ بہو کی بھوک مٹانے اور دیگر اخراجات کو پورا کر نے کے لئے دن بھر لاہور کی سڑکوں پر یوں ریڑھی گھسیٹ گھسیٹ کر اپنے اخراجات پورا کرتے ہیں۔


مجھے چا چا کی یہ بات سن کر ساتھ ہی نواز آفس بوائے کے اپنے والد کو کہے جملے کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ اس جملے کے پیچھے جہاں ایک طرف رشتوں کا ختم ہوتا تقدس نظر آتا ہے اُس سے کئی زیادہ اس کے پیچھے معاشی تنگیاں دکھائی دیتی ہیں۔ لوگ کس طرح تین تین نوکریاں کر کے زندگی کی بیسک ضروریات کو پورا کر نے کے لئے صبح سے شام اور شام سے صبح صرف اسی فکر میں مصروف ہیں کہ کسی طرح زندگی کی اس جنگ میں فتح یاب ہو سکیں اور یہی وجہ ہے کہ نفسا نفسی کی کشمکش میں انسان اپنے خونی رشتوں کو بھی با لائے طاق رکھنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔


میں چا چا رحمان کی دکھی داستان سُن کر دکھ اور درد کی ملی جلی کیفیت میں مبتلا ہو کے دفتر پہنچا ہی تھا کہ ایک صحافی دوست کی جسم فروشی کے گھنا ؤنے دھندے میں ملوث خواتین کے حوالے سے حقائق پر مبنی رپورٹ دیکھنے کو ملی جس کے مطابق 85فیصد سے زائد یہ خواتین کسی مجبوری کے تحت اس مکروہ دھندے کا حصہ بنی ہیں۔ کو ئی اپنے شوہر کی وفات کے بعد بچوں کو پالنے کی خاطر، کوئی بوڑھے باپ کے علاج اور کوئی معاشرے کے فرعونوں کے ہاتھوں مجبور ہو کے اندھیروں کے اس رستے کی مسافر بن بیٹھی ہیں۔


قارئین کرام !یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہمارا معاشرہ تیزی سے دو طبقات میں تقسیم ہو تا جا رہا ہے۔ ایک امیر ترین اور دوسرا غریب ترین۔امیر لوگوں کو تو صرف اپنی عیاشیوں کے علاوہ کوئی دوسرا دکھائی نہیں دیتا اور ان میں سے اگر کچھ درد دل رکھنے والے لوگ ہیں تو یہ بھی اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کے لئے یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہمیں کو ئی حق دار نظر ہی نہیں آتا۔

نا معلوم ان کی نظر میں حق دار کے کیا پیمانے ہیں ؟ اپنی عذاب کی مانند زندگی کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو پو را کر نے کی خاطر نواز آفس بوائے، چا چا رحمان اورکسی مجبوری کے تحت جسم فروشی کے دھندے کا حصہ بننے والی ان خواتین سمیت تقریباََ روز ہی ا خبارات میں غربت اور بھوک کی وجہ سے خود کشی کر نے والے فراد کی خبریں شائع ہوئیں ہوتی ہیں، یہ لو گ دوسرے طبقے کی طرف دیکھتے دیکھتے، زندگی سے ہار مان کر آخر کار موت کو اپنے گلے لگا لیتے ہیں اور ہم لوگ اپنے دل کو تسلی دینے کے لئے صرف یہ کہہ ڈالتے ہیں کہ ہمیں تو کوئی حق دار نظر ہی نہیں آتا۔

اگر ہم اس معاشرے کو پُرامن اور پُرسکون معاشرہ بنا نا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ضرورت ہے کہ اس مکروہ طبقاتی نظام کو ختم کرتے ہوئے زندگی کی جنگ لڑنے والے ان غریبوں کو کچھ راحت اور تسکین پہنچا نے کی خاطر اپنا کچھ مال ان کی خوشیوں کے لئے وقف کردیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :