احتجاج کے بنا حق بھی نہیں ملتا

بدھ 20 مئی 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

اسے پاکستان کی بدقسمتی سے ہی منتج کیاجاسکتا ہے کہ بنااحتجاج کے شاید ہی کوئی طبقہ اپناحق لے سکے ،اساتذہ، نابینا افراد ،نرسیں، ڈاکٹر، پروفیسر ز، چھوٹے سرکاری ملازمین، کھلاڑی سبھی بنا احتجاج کے حق حاصل نہیں کرپاتے ،یقینا یہ آئین، انصاف کاحلف اٹھانے والے اداروں، سرکاری افسران ،حکومتی کارپردان کیلئے سوچنے کامقام ہی ہے کہ کم ازکم فلاحی ریاست میں اگر ایسا ہوتو پھریہی جواب ہی سامنے آتا ہے کہ ”حکمران اپنے فرائض سے غافل ہیں“
ان احتجاج کرنیوالے کے مطالبات اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ان مطالبات میں بعض ایسے بھی نکات شامل ہوتے ہیں جن پربوجوہ حکومت عمل درآمد نہیں کرسکتی البتہ زیادہ مطالبات پر حکومت باآسانی عمل کرسکتی ہے لیکن ایسا ایک ہی احتجاج پرنہیں ہوپاتا اس کیلئے متعلقہ تنظیمیں احتجاج کے حوالے سے کئی کالیں دیتی ہیں۔

(جاری ہے)

پھر ایک اورستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ ان احتجاج کرنیوالوں سے پولیس اپنے مخصوص انداز کے ذریعے نمٹتی ہے ۔ چند ماہ قبل ہی نابینا افراد کے ساتھ لاہور کی سڑکوں پر جو کچھ ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، پھرڈاکٹربرادری، پھر نرسوں کی باری آئی اورآج کل اساتذہ ستم کے نشانے پر ہیں۔ ان احتجاج کرنیوالوں میں کوئی دہشتگرد نہیں ہوتا اورنہ ہی ان کے رویوں کی شدت اتنی ہوتی ہے کہ پولیس کو ”مجبوراً “ لاٹھی چارج کرناپڑے۔

مگر پولیس ایک کٹھ پتلی کی طرح مخصوص اشاروں اور انگلیوں پرحرکت کرتے ہوئے لاٹھی چارج ہی نہیں کرتی بلکہ ٹھڈے گھوسے تک مارتی ہے۔ یقینا معاشرے کے اہم ترین طبقات کے ساتھ ایسا سلوک باعث شرم ہی ہوتاہے۔ پھر ان احتجاج کرنیوالوں میں کئی خواتین بھی شامل ہوتی ہیں پولیس کے ہٹے کٹے جوان ان پر بھی ”طاقت آزمائی “ کاموقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔


ایک سوال بار بار ذہن کو کچوکے لگاتارہتاہے کہ صوبائی دارالحکومت میں بیٹھے بڑے بڑے عہدیداران نے شاید طوطے کی طرح سبق رٹ رکھا ہے کہ بنا تشدد کے کسی کو حق نہیں دینا ۔شاید یہ متشددانہ روئیے بغاوت کا باعث بنتے ہیں۔
صاحبو! گذشتہ برس تحریک انصاف کے ”آزادی دھرنے“ کے دوران ہم نے خود چھوٹے سرکاری ملازمین ،معاشرے کے پسماندہ ،حقوق سے محروم طبقات کی آنکھوں میں امید کی کرن جاگتے دیکھی یہ کرن اس بات کی بھی غماز تھی کہ شاید ان کے مقدر پر چھائے اندھیروں کے مٹنے کاوقت آگیا ہے لیکن اسے پاکستان کی بدقسمتی سے منتج کیاجائیگا کہ ملک پر 63سال سے مسلط ٹولہ ایک بار پھر ایک ہی جگہ اکٹھا نظرآیا ۔

شاید اقتدار کی باریاں کھیلنے والوں کو احساس ہونے لگاتھا کہ اگر عوام اسی طرح اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب رہے تو پھر ان کا تسلط برقرار نہیں رہ پائیگا۔ شاید یہ پاکستانی تاریخ میں دوسرا موقع تھا کہ جب قوم کی آنکھوں میں امید کی جوت جاگی۔ پہلے اس وقت جب عدلیہ کی آزادی کیلئے قوم یکجا نظرآئی ۔امید تھی کہ یہ احتجاج رنگ لائیگا اورعوام کو بنیادی حقو ق میسرآجائیں گے مگر ایک سیاسی جماعت نے اسے اپنے رنگ میں ڈھال کر اقتدا ر کی صورت فائدہ اٹھالیااور قوم کی امید دم توڑگئی ۔

دوسری بار دھرنوں کے دوران قوم کی امیدیں جاگ اٹھیں ، طریقہ کار سے سبھی کو اختلاف تھا لیکن قوم کے اتحاد کی وجہ بنیادی سہولیات ،بنیادی انسانی ،شہری حقوق کی بازیابی ہی تھے ۔
گذشتہ روز جب لاہور کی سڑکوں پراساتذہ کو ذلیل وخوار ہوتے دیکھاتو ہوک سی دل سے اٹھی کہ یہ وہ طبقہ ہے جو معاشرے کو سوچ سمجھ عطا کرتا ہے لیکن آج بذات خود اس کے ساتھ غیر انسانی سلوک جاری ہے۔

اگر اساتذہ کے بنیادی مطالبات کا جائزہ لیاجائے تو کہیں پے سکیل کاذکر ہوگا تو کہیں اضافی ڈالی گئی ذمہ داریوں سے نجات کی بات سامنے آئے گی ۔ کہیں کنٹریکٹ کی بنیاد پر سالوں حکومتی کنویں پر چکرکاٹنے والے سرکاری ملازمین کو مستقل کرنے کامطالبہ ہوگا مگر سالوں اہم ترین عہدوں پر تسط قائم کرکے حکومتی خزانے کو چاٹ جانے والے شاید ان مطالبات کو بھی ”سرکاری خزانے پر بوجھ“ تصورکرتے ہیں۔


ہرسال بجٹ کے ایام میں چھوٹے سرکار ی ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے کاذکر آئے تو حکومتی کارپردان ناک بھوں چڑھاتے ہوئے قوم کو نوید سناتے ہیں خزانہ خالی ہے مگر جب پارلیمنٹ کے ٹھنڈے ٹھار کمروں میں قوم کے خزانے پر عیاشی کرنیوالوں کاذکر آتا ہے تو پھر گویا ’خزانے کے منہ “بھی کھل جاتے ہیں۔ مانا کہ قانون بنانے والوں کے حقوق زیادہ ہیں لیکن جن کے ٹیکسوں سے ملک کاکاروبار چل رہاہے انہیں بھی تو بنیادی سہولیات کی فراہمی ضروری ہے مگر اس جانب کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں۔


ایک سرکاری سیمینار میں شرکت کا موقع ملا تقریباً ہر مقرر (جو زیادہ تر بڑے افسران ہی تھے) نے حضرت عمرفاروق کے مشہور زمانہ قول”دریائے فرات کے کنارے اگر بھوکا پیاسا کتا بھی ماراگیاتو عمرجواب دہ ہوگا“ کا حوالہ دیاہم آخری وقت تک سوچتے رہے کہ خلیفہ ثانی  نے تو انسان تو کجا ایک عام سے کتے کے حق کے حوالے سے یہ ارشاد فرمایا تھا یہاں یہ صورتحال ہے کہ انسانوں کو بنیادی حقوق میسر نہیں۔

ایسے میں اگر حق دینے والے اگر ڈھٹائی سے بھوکے پیاسے کتوں کاذکر کریں تو پھر․․․․․․․․․․․․جس دھرتی میں جانور ہی نہیں بلکہ انسان بھی بھوک پیاس کے مارے موت کو گلے لگانے پر مجبورہوں ،جہاں غربت کے مارے لوگ اپنی اولاد کو بیچنے کیلئے بازار آجائیں ،جہاں خون بکتاہو، جہاں انسان بکتا ہو ،جہاں انسانیت سسکتی ہو ۔پتہ نہیں اس دیس کے حاکم رات کے وقت سکون کی نیند کیسے سوپاتے ہیں۔

انہیں نہ تو بازاروں میں بکتے انسانوں کاملال ہوتاہے اورنہ ہی غربت کے مارے خود کشی کرنیوالے زندہ سلامت انسانوں کی پرواہ۔ وہ جو فرمان خداوندی ہے کہ جب دل پر سیاہی کا ایک نقطہ بڑھتے بڑھتے پورے دل پرقبضہ جمالے تو پھر دیکھنے اور سننے کی صلاحیت ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔ پھر نہ تو رعایا کی چیخ وپکار سنائی دیتی ہے اور نہ ہی ماؤں کے لخت جگر بکتے ہوئے نظرآتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :