سیاسی مصلحتیں اس تباہی کی وجہ ہے

اتوار 17 مئی 2015

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

اس سے زیادہ قیامت کا منظر اور کیاہو سکتا ہے؟اپنے اور بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے روزی کی تلاش میں سفر کر نے والے غریب لوگ اور عزیز رشتہ داروں کی خیریت دریافت کر نے اور ضروریات زندگی کی خریداری کر نے والی خواتین کو جس بے دردی سے قتل کیا گیا، درندگی کا جو خونی کھیل کھیلا گیا،حیوانیت کی تما م حدیں پار کرتے ہوئے کس طرح معصوم اور بے گناہ ہر شخص کو گولیوں سے بھون دیا گیا ۔ہسپتال میں موجود قریبی ذرائع کے مطابق ایسی خون کی ہو لی کبھی دیکھنے کو نہیں ملی،بس کا فرش خون کی ندی کا منظر پیش کررہا تھا ۔بوڑھے، بچے اور جوان ، ظالوں کو کسی پر بھی رحم نہ آیا۔
قارئین !ایسے دلخراش مناظر کہ جنہیں دیکھتے اور دیکھنے کے بعد اب تک روح کانپ رہی ہے اور ایک سوال جو کچھ دنوں بعد پھر جسم میں بے چینی پیدا کر رہا ہے کہ اس ملک اور بالخصوص شہر قائد کو کس کی نظر لگ گئی ہے ؟ ہزاروں گودیں اجڑنے اورتقریباََ ہر گھر سے نعش اٹھنے کے بعد بھی دہشت گردی کا یہ آسیب قابو میں نہیںآ رہا۔معلوم ہو تا ہے کہ روز بروز طاقت ور ہوتا ، معصوم اور بے گناہ لوگوں کے خون سے اپنی پیاس مٹا تا یہ” آسیب“ سیاسی آقاؤں کی سیاسی مصلحتوں کی بیساکھیوں پر سوار اتنا زور آور ہو چکا کہ انسانوں کو بھی اس نے اپنے کارندوں میں شامل کر لیا ہے۔
میں یہ بات لکھنے میں حق بجانب ہوں کہ سندھ حکومت، یہاں کی بیورو کریسی ، قانون نافذ کر نے والے ادارے اور پولیس ، اس خونی آسیبوں کاآلہ کار بنے شہر قائد کے شہریوں کو سر عام قتل ہوتے دیکھتے خاموش تما شائی کا کر دار ادا ء کرتے ہیں اور پھر ہر سانحے کے بعد اس دفعہ بھی سیاسی مصلحتوں کی کوکھ سے جنم لینے والے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ ، خزاں کے موسم میں کسی بوڑھے درخت سے جھڑنے والے زرد پتے کی مانند، گھسا پٹااور حقیقت سے کوسوں دور ایک ہی بیان دے کر اپنی جان چھرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
کاش کہ کوئی ان سے پوچھنے والا ہو کہ حضور والا! آپ یہ بتلائیں کہ آپ کے دور حکومت میں کوئی ایک کام اچھا بھی ہوا؟پھر صوبے کے انتظامی سر براہ ہو نے کی حیثیت سے آپ نے قانون نافذ کر نے والے اداروں اور بالخصوص پولیس کو کرپشن سے پاک کر نے اور یہاں موجود جونکوں جو ” مال مفت، دل بے رحم “کی پالیسی پر عمل کر تے ہوئے اربوں کا فنڈ ڈکار گئے ہیں کہ خلاف آج تک کوئی ایکشن لیا؟ سیکریٹری داخلہ سمیت قانون نافذ کر نے والے اداروں کی تما م اہم پو سٹوں پر آپ نے ایسے بے ضمیر اور بد کردار لوگوں کو فائز کر رکھا ہے کہ جنہیں اپنے مفاد کے علاوہ کسی اور کی پرواہ بھی نہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے پچھلے 7سالوں میں 22کھرب،20ارب روپے کی رقم خرچ کی لیکن اس کے باوجود امن امان کا قیام عمل میں نہ لا یا جا سکا ۔البتہ ہر محکمے کے افراد کو کھلی ڈھیل ضرور دے رکھی ہے کہ آپ بھی کھاؤ اور ہمیں بھی کھلاؤ، جس کی تازہ مثال یہاں کی پولیس کی ہے جو قانون نافذ کر نے اور کسی بھی واردات کو روکنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔
با وثوق ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ جائے وقوعہ سے کچھ قدم فاصلے پر ہی پولیس چوکی قائم ہے جوکہ وقوعہ کے وقت خالی پڑی ہوئی تھی۔یہاں کی پولیس کو صرف عام شہریوں کو تنگ کر نے اور ان سے پیسے بٹورنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں۔شہر قائد میں پولیس کا انٹیلی جنس نیٹ ورک بری طرح فیل ہو چکا ہے ۔
قارئین ! اطلاعات یہ بھی ہیں کہ اس واقعے میں بھی ہمیشہ کی طرح بد نام زمانہ ایجنسی ”را“ کا ہاتھ ہے اور یہاں بھی سر کاری ایس۔ایم ۔جی کی گولیاں استعمال کی گئیں ہیں ۔ یہ واضح ثبوت ہے کہ اس واقعے میں بھی وہی گروہ اس کا آلہ کار بنا ہے جس کے مر کزی دفتر سے غیر لائسنسی آتشیں اسلحے کی کھیپ،اس کی گود میں پلنے والے ٹارگٹ کلرز جو اپنا جرم تسلیم کر چکے اور پھر جن کے بارے راؤ انوار نے پریس کانفرنس میں بمعہ ثبوت ان کو” را“ کے ایجنٹ قرار دیا تھا ۔
سیاسی قیادت تو خواب غفلت میں ڈوبی، اپنے اپنے مقاصد کو پورا کر نے کی خاطر سیاسی مصلحتوں کا شکار دکھائی دیتی ہے لیکن نا معلوم ہمارے قومی سلامتی کے ادارے تمام تر ثبو توں اور حقائق کے بعد کہ یہ لوگ،کس کے ایما ء پر ملک میں افراتفری اور خاک وخون کا بازار گرم رکھ کے اپنے ناپاک مقاصد کو پوار کر رہے ہیں کہ بعد بھی ان کے خلاف کسی سخت کاروائی سے گریزاں نظر آتے ہیں۔
اگر ہم واقعی شہر قائد کو اس خونی آسیب سے بچا نا چاہتے ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری سیاسی قیادت،سیاسی مصلحتوں سے آزاد ہو کے اورقومی سلامتی کے ادارے ،خلو ص دل کے ساتھ کام کرتے ہوئے ملک دشمن عناصر کے خلاف حتمی آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے ان کے نا پاک ارادوں کو ان کی کمین گاہوں میں ہی دفن کر دیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :