حالیہ دورہ افغانستان

جمعہ 15 مئی 2015

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

وزیر اعظم میاں محمدنواز شریف اوران کے وفد کے حالیہ دورہ افغانستان کے اغراض ومقاصد کیا تھے ؟۔ اس سوال کا جواب جاننے کیلئے ہمیں افغان صدر اشرف غنی اور پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی مشترکہ پریس کانفرنس کا بغور جائزہ لینا ہوگا ۔ مشترکہ پریس کانفرنس میں افغان صدر اشرف غنی کہتے ہیں کہ پاکستان کا دشمن افغانستان کا دشمن اور افعانستان کا دشمن پاکستان کا دشمن ہے، دہشت گردی نے پاکستان اور افغانستان دونوں کو نقصان پہنچایا ہے اور دونوں ممالک کو ایک جیسے خطرات کا سامنا ہے جن کا مل کر مقابلہ کرنا ہوگا“۔

اسی طرح میاں نواز شریف نے بھی افغان حکام سے باہمی ملاقاتوں کے بعد طے پانے والے اہم نکات کا اظہار کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ پاکستان اور افغانستان نے سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ طور پر مربوط کارروائیاں کرنے پر اتفاق کیا ہے ۔

(جاری ہے)

میاں محمدنواز شریف نے یہ بھی کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات کو تین بنیادی اصولوں پر استوار رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔

ان اصولوں میں عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند رہنا، ایک دوسرے کے خلاف کارروائیوں کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دینا اور ایک ملک کے دشمن کو دوسرے ملک کا دشمن سمجھنا شامل ہیں۔
محترم قارئین ! مذکورہ مشترکہ پریس کانفرنس پاک افغان رہنماؤں کی تنہائی میں ہونے والی ملاقاتوں اوران ملاقاتوں میں زیر بحث آنے والے معاملات کا واضح پتہ دے رہی ہے ۔

گزشتہ دنوں کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد آئی ایس پی آر کے ترجمان نے واضح طور پر کہا تھا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“پاکستان میں مداخلت کر رہی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اگر پاکستان کے عسکری اداروں نے معلومات حاصل کر لی ہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسی”را“پاکستان میں بعض افراد یا بعض تنظیموں کو مالی اعانت فراہم کر رہی ہے تو اس کے سد باب کیلئے بھی پاک فوج نے حکمت عملی مرتب کی ہوگی ۔

جیسا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں وزیر داخلہ رحمان ملک متعدد بار یہ اظہار کر چکے ہیں کہ بھارت پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کا مرتکب ہو رہا ہے ۔ اسی طرح سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں بھارتی مداخلت کے شواہد ملے ہیں ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھارتی مداخلت کہاں سے اور کن افراد کے ذریعے ہو رہی ہے ۔

جیسا کہ متعدد بار لکھا اور کہا جا چکا ہے کہ افغانستان میں موجود بھارتی سفارتخانے پاکستان مخالف سرگرمیوں کا گڑھ بنے ہوئے ہیں ۔ یہ بھارتی سفارتخانے افغانستان کی تعمیر نو کے نام پر کروڑوں اور اربوں ڈالرز بھارت سے افغانستان منتقل کرتے ہیں اور پھر اس رقم کو پاکستان دشمن کاروائیوں میں استعمال کرتے ہیں ۔اس وقت یہ قونصل خانے مزار شریف ، قندھار، ہرات اور جلال آباد میں قائم ہیں مذکورہ قونصل خانوں کے علاوہ بھارت نے مختلف شہروں میں متعدد دفاتر بھی قائم کر رکھے ہیں ۔

بھارتی حکومت اپنے اعتدادو شمار میں خود اعتراف کرتی ہے کہ وہ اب تک افغانستان میں 8بلین ڈالرز کی خطیر رقم خرچ کر چکی ہے۔ گزشتہ سال یہ انکشاف بھی سامنے آیا تھا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“کے دوسو افراد افغانستان میں آکر پاکستان دشمن تنظیموں کے رضا کاروں کو عسکری تربیت دیتے رہے ہیں ۔ گزشتہ ہفتے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد ہونے والی کور کمانڈرکانفرنس اگر پاکستان میں بھارتی مداخلت کے حوالے سے بات کرتی ہے تو اس میں کسی کو شک میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے کہ پاک فوج کے پاس بھارتی مداخلت کے ٹھوس شواہد نہ ہونگے ۔

واقفان حال کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کا حالیہ دورہ افغانستان اسی سلسلے کے ایک کڑ ی ہے ۔ پاکستانی حکام نے افغانستان حکومت کو بھارتی مداخلت کے ٹھوس شواہد فراہم کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغان سرزمین کو پاکستان دشمن قوتوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہونے دیں ۔ یہی وجہ ہے کہ افغان صدر اشرف غنی کو یہ رسمی جملے کہنے پڑے کہ پاکستان کا دشمن افغانستان کا دشمن اور افعانستان کا دشمن پاکستان کا دشمن ہے۔

اسی طرح جناب میاں نواز شریف نے بھی کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات کو چند بنیادی اصولوں پر استوار رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
افغانستان کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے دراصل ہم اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ افغانستان کا جھکاؤروز اول سے ہی روس اور بھارت کی جانب رہاہے ۔ طالبان کے پانچ سالہ دور حکومت کے علاوہ آپ پاک افغان تعلقات کی تاریخ کا مطالعہ کر کے دیکھ لیجئے افغانستان نے ہمیشہ پاکستان سے بے اعتنائی اختیار کی ہے ۔

بادشاہ نادر شاہ سے لے کراشرف غنی تک افغانستان کے ہر حکمران کا جھکاؤ روس اور بھارت کی جانب واضح دکھائی دیتا ہے ۔ 1933میں جب نادر شاہ کو قتل کر دیا گیا تو اس کے بعد جو انیس سالہ نوجوان تخت نشین بنا اور افغانستان میں سب سے زیادہ عرصہ تک حکمران رہا اس کا نام ظاہر شاہ تھا ۔ ظاہر شاہ کے کزن اور بہنوئی داؤد خان جنہیں ظاہر شاہ نے وزیر اعظم مقرر کررکھا تھا ، نے سوویت یونین سے قریبی تعلقات قائم کیے اور پاکستان سے دوری کی پالیسی اپنائی۔

ہمیں یاد رہنا چاہئے کہ قیام پاکستان کے بعد افغانستان کی حکومت نے خصوصی پالیسی کے تحت پاکستان کے خلاف زہر افشاں پراپیگنڈہ شروع کر دیا تھاجبکہ فقیر ایپی کے لوگوں نے پاکستان کے قونصل خانے پر حملہ کر کے پاکستانی پرچم کی بے حرمتی بھی کی تھی۔ جس پر پاکستان نے افغانستان سے سفارتی تعلقات ختم کر کے سفارتی نمائندے واپس بلا لیے تھے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغانستان تقریباً سوا سو سال سے مغربی سامراج اور روسی اشتراکیت کے درمیان کچلا جا رہا ہے۔

پہلے اس پر برطانیہ نے اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی لیکن اسے کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ 20ویں صدی کے آخر میں سوویت یونین نے اس پر جارحیت کی لیکن وہ خود شکست و ریخت کا شکار ہو گیا۔ 21ویں صدی کے ابتدائی سالوں میں امریکہ نے پوری دنیا کی فوج کے ہمراہ اس پر چڑھائی کی لیکن ہنوز اسے کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ پاکستان نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ افغانستان میں امن ہو اور وہ ترقی کرے لیکن کچھ بیرونی طاقتیں اور مقامی نا عاقبت اندیش عناصر دونوں ممالک کے باہمی دوستانہ تعلقات میں مختلف ایشوز کے ذریعے رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ افغانستان کے موجودہ صدر اشرف غنی پاکستان سے دوستانہ تعلقات قائم کرتے ہیں یا سابقہ حکمرانوں کی روش پر گامزن رہتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :