ٹیکس مگر کیسے

جمعہ 15 مئی 2015

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

قابلِ افسوس ہے کہ پاکستان میں نو لاکھ سے بھی کم لوگوں نے انکم ٹیکس ادا کیا ہے۔ یہ اعداد و شمار ہیں ایسے ملک کے جہاں ہر سال اٹھارہ لاکھ سے زائد نئی موٹر سائکلیں، کاریں، جیپیں،ٹریکٹر، بسیں اور دیگر گاڑیاں بنائی جارہی ہوں، پندرہ لاکھ سے زائد نئے فرج، ڈیپ فریزر اور ایئر کنڈیشنربک رہے ہوں، موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعداد تیرہ کروڑ سے بڑھ چکی ہو، ایک درجن ایئرپورٹ بین الاقوامی پروازیں آپریٹ کر رہے ہوں، تین بڑے ایئرپورٹ سالانہ تین کروڑ سے زائد مسافر ہینڈل کر رہے ہوں، پندرہ لاکھ سے زائد شہری سال میں ایک مرتبہ سے زیادہ بین الاقوامی سفر کرتے ہوں۔

اِس ملک میں ہر دوسرا شخص حکومتی کشکول کا رونا رو رہا ہوتا ہے، مگر اِسی ملک میں ایسے ہزاروں گاوٴں، قصبے اور چھوٹے شہر ہیں جہاں چند سرکاری ملازموں کے علاوہ کوئی شخص انکم ٹیکس نہیں دیتا اور ان دیہاتوں، قصبوں اور شہروں میں رہنے والوں کو حکومت سے سڑکیں بھی چاہئیں، اسکول بھی چاہئیں، ہسپتال بھی چاہئیں، بجلی بھی چاہئیے، گیس بھی چاہئیے، پانی بھی چاہئیے۔

(جاری ہے)

قومی خزانے میں ایک پیسہ ادا کئے بغیر سہولیات اسکینڈے نیویا اور یورپی ممالک والی چاہئیں جہاں ہر شخص اپنی آمدنی کا پچاس فیصد سے زائد انکم ٹیکس کی مد میں حکومت کو ادا کرتا ہے۔ دنیا بھر میں دولت کمانے والا طبقہ کاروباری طبقہ ہوتا ہے۔ اِس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ پاکستان کا کاروباری طبقہ اپنی آمدنیوں پر ٹیکس دینے سے انکاری ہے۔

اِس انکاری طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے روایتی اقدامات کے علاوہ کچھ غیر روایتی اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔ چند تجاویز حاضر ہیں۔
ملک کے مختلف شہروں کی مارکیٹوں، شاپنگ پلازوں اور بازاروں میں آگ لگنے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے ہر واقعے کے بعد متاثرہ تاجر حضرات کے حکومت سے نقصان کی تلافی کے مطالبات سامنے آتے ہیں اور حکومت معاوضوں کے اعلانات کرتی رہتی ہے۔

بعض صورتوں میں حکومت بھاری معاوضہ ادا کرتی ہے جیسا کہ کراچی میں محرم کے دوران ہنگامہ آرائی میں جلنے والی دوکانوں کے معاملے میں ہُوا۔ اِس سلسلے میں راقم کی تجویز ہے کہ حکومت نقصان کی تلافی کے لئے معاوضے کا اعلان کرتے ہوئے دوکان کے مالک کے جمع کرائے گئے انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس گوشواروں کی مدد سے کاروبار کی مالیت کا اندازہ لگائے اور اسی شرح سے نقصان کا تخمینہ لگاتے ہوئے معاوضے کا فیصلہ کرے۔

تخمینہ لگانے کے اِس شفاف طریقے پر خدا ترس، دیانتدار اور محب وطن تاجروں کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا اور جھوٹوں پر آخرت کے ساتھ ساتھ اِس فانی دنیا میں بھی مناسب لعنت کا انتظام ہو سکے گا۔
اوپر لکھی گئی بات کو ذرا اور آگے بڑھاتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ ہمارے وطن کے خدا ترس، دیانتدار اور محب وطن تاجر حضرات کافی سمجھدار بھی ہیں، لِہٰذا کِسی ناگہانی آفت سے نمٹنے کے لئے اپنی فیکٹریوں، دوکانوں ، ہوٹلوں، ریستورانوں اور مالِ تجارت کی انشورنس بھی کروا لیتے ہیں۔

راقم کی تجویز ہے کہ انشورنس کمپنیوں کو پابند کیا جائے کہ انشورنس کی کل مالیت ، اِن تاجر حضرات کے جمع کرائے گئے انکم ٹیکس ، سیلز ٹیکس ، کارپوریٹ ٹیکس گوشواروں ( کئی صورتوں میں دولت ٹیکس گوشوارے بھی ) میں اثاثوں کی دی گئی مالیت سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ مثال کے طور پر اگر تاجر زید حکومتی گوشواروں میں اپنے مالِ تجارت کی قیمت بیس لاکھ ظاہر کرتا ہے تو انشورنس کمپنی کو بیس لاکھ سے زائد مالیت کی انشورنس ہر گز نہیں کرنی چاہئیے۔


ذاتی حیثیت میں خدمات فراہم کرنے والے افراد بشمول، وکیل، ڈاکٹر،آرکیٹیکٹ، میکینک حضرات کو مکمل طور پر ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے ان حضرات کے لائف اسٹائل اور ادا کردہ انکم ٹیکس کے تقابل کا انتظام رکھا جائے اور وقتًا فوقتًا چیک کیا جائے۔ یہ تقابل کئی طرح سے ہوسکتا ہے۔ اِسی سال جنوری میں راقم کو ایک اطالوی دوست نے بتایا کہ وہ اپنی لینڈ روور گاڑی میں بذریعہ سڑک اٹلی سے سویٹزر لینڈ جارہا تھا ، جب وہ اٹلی کی سرحد پر پہنچا تو بارڈ ر گارڈز نے کمپیوٹر سسٹم پر یہ چیک کرنے کے لئے اسکو روک لِیاکہ کیا اس کی آمدنی اورانکم ٹیکس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لینڈ روور گاڑی افورڈ کر سکتا ہے۔

جب ملک میں نادرا اور پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ جیسے ادارے حیرت انگیز ڈیٹا بیس مرتب کر چکے ہیں تو ٹیکس کلچر کو بڑھانے کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کوئی مشکل ہدف نہیں ہے۔
معیشت کو دستاویزی بنانے کے لئے ہر سال کے لئے سیکٹر وائز (شعبہ جاتی) اور علاقہ کی بنیاد پر اہداف مقرر کئے جائیں۔ مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ اسلام آباد شہر میں کوئی رکشہ داخل نہیں ہوسکتا ، اسی طرح علاقہ جاتی ٹیکس بنیاد کے تحت یہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس شہر میں رسید کے بغیر کسی قسم کی پرچون اور تھوک تجارت نہیں ہوسکتی یا شعبہ جاتی ٹیکس بنیاد کے تحت یہ قرار دیا جاسکتا ہے کہ لاہور شہر میں ہر ریسٹورنٹ پکی رسید جاری کرنے کا پابند ہوگا۔

اِس طرح شعبہ اور علاقہ جاتی ٹیکس اہداف کے تعین سے معیشت کو بتدریج دستایزی بنانے کا عمل آسان ہوجائے گا اور چند سالوں میں ملک بھر میں تمام شعبوں اور علاقوں کی معیشت کو دستاویزی بنایا جا سکے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :