گھنٹوں میں لاکھوں کا فراڈ اور ماروی میمن سے اعتراف جرم تک

جمعہ 15 مئی 2015

Aamir Khan

عامر خان

پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر میں حکومت او رعوام سے لاکھوں کا فراڈ گھنٹوں میں ہوتا رہا آج اپنے شہر جھنگ کی طرف سے اعتراف جرم کرنے جا رہا ہوں ہو سکتاحکومت اور عوام جاگ جائے۔ بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کا آغاز ہواجنوبی پنجاب کے شہروں کو بھی اس میں شامل کیا گیا جو بڑی اچھی بات ہے اس پروگرام کے سٹارٹ میں غربت سروے کروایا گیا جو کامیابی سے مکمل ہو گیا اورغریب مستحق لوگوں کو پیسے ملنے لگ لگے ڈاکیا گھر گھر سب کو پیسے دے آتا تھا اس پروگرام میں اس وقت تبدیلی آئی جب پیسوں کی ترسیل پر لوگوں کی شکایت آئی ڈاکیا پیسے نہیں دیتا یا جو بھی وجہ بنی ۔ پیسوں کی ترسیل کو شفاف بنا نے کے لیے نجی بنک کی طرف سے بے نظیرانکم اے ٹی ایم کارڈ کا اجرا کر وا دیا گیااب اے ٹی ایم کارڈلوگوں کو مل گے ان اے ٹی ایم کارڈ کے ساتھ کالی رنگ کی پرچی بھی شامل تھی جس پر ہر کارڈکا الگ سے پن کورڈ درج تھا ۔

(جاری ہے)

اس کالے رنگ کی پرچی کوبے شک ہر طرح سے محفوظ بنایاگیا کے پن کوڈدیکھنے کے لیے پہلی دفعہ کاغذکی حفاظتی سیل کوختم کرنا پڑتاتھا۔اس کالے رنگ کی پرچی پر پن کوڈ ایک مخصوص سیائی سے لکھاجاتا ہے ہوا لگنے کے کچھ عرصہ بعد خود ہی مٹ جا تا ہے اب اس سیائی سے جا ن بوجھ کر لکھا جاتا ہے یا اس کی کوئی اور وجہ ہے یہ اب تک پتا نہیں چل سکی اب ہزاروں کارڈ کے پن کورڈ اُس کالی پرچی سے صاف ہو گے لوگوں کے پاس جب اُن کی تین ماہ بعد قسط آئی تو پن کورڈ نہ ہونے کی وجہ سے کیسی کو پیسے نہ ملے لوگ بے نظیر کے دفتر او ربنک کے چکر لگا لگا کے تھک گے پر کوئی حل نہ نکل سکا۔
دفتر والے کہتے کے پن کورڈ بنک والے دیں گے اور بنک والے کہتے پن کورڈ کراچی سے مین برانچ سے ملیں گے ۔اسطرح وقت گزرتا گیا جن لوگوں کو پن کورڈ یاد تھے وہ پیسے وصول کرتے رہے باقی جن کے پن کورڈ گم تھے اُن کے اکاوئنٹ میں پیسے آتے رہے ۔ لوگ دوردیہاتوں قصبوں سے کراےئے اور وقت برباد کر تھک ہار کے بیٹھ گے۔کارڈ پر بنک کاجونمبر درج کیا گیا تو وہ اس پروگرام کی الگ سے ہیلپ لائن بنائی گئی تھی پر اس سے کال نہیں اُٹھائی جاتی تھی اور دلچسپ بات یہ تھی کے کال ملاتے ہی بیلنس لگنا شروع ہو جاتا تھا پر دوسری طرف سے کال نہیں ملتی تھی ۔ ہر تین ماہ بعد ہر کارڈ اکاوئنٹ میں پیسے آ جاتے تھے جو لوگ پن کورڈنہ ہونے کی وجہ سے وصول نہیں کر سکتے اس طرح ہر کارڈ میں اچھی خا صی رقم جمع ہو گی۔اب جھنگ کے ہزاروں کارڈ بند ہوگے جن میں ایک سال سے دوسال کی قسط موجود تھی یا زیادہ قسطیں بھی ہو سکتی ہے۔ایسے میں کچھ لوگوں قصبوں ،دیہاتوں میں جا کر لوگوں سے کارڈیہ بتا کر وصول کرنے شروع کردئیے وہ کارڈٹھیک کر کے دیں گے اب ہوتا اسطرح تھا کہ چند غیرسرکاری لوگ دیہاتوں میں جا کر سرکاری اعلان کرواتے کے بے نظیرانکم سپورٹ کی ٹیم آپ کو بند کارڈکے پن کورڈدیں گے ۔
سادہ لوح لوگ جب کارڈ لے کے آتے یویہ لوگ ان سے ریٹ فیکس کرتے کے ہم آپ کے کارڈٹھیک کرنے کے بعد کارڈ میں سے ہی پیسے لیں گے ۔اگر بیس ہزار ہواتودس ہزاران کایا سارے کارڈکے پیسے یہی لوگ لیں اور کارڈ کا نیاپن کورڈ ان کو دے دیں گے اور ہو ابھی ایسے ہی لوگوں کو گھروں میں پن کورڈ ملنے لگ گے سالوں سے پڑے بند کارڈ اچانک کچھ لوگ اوپن کر کے دینے لگے لوگ دفتراور بنک کی جانب پھر بھاگے لیکن وہاں سے صاف جواب ملتا چند لوگ لیپ ٹاپ اور کار وغیرہ میں آتے لوگوں سے کارڈاوراُن کا ساراڈیٹالے جاتے اور دوسرے روزنیاپن کورڈمل جاتا پرپن کورڈکے پیسے وہ اپنی مرضی سے لیتے اب لوگ اُن کے پیچھے تھے اب جس نے جہاں سے سنا وہ اُن کی تلاش میں لگ گیا اب اُن کا اعتماد اس وجہ سے بھی بن گیاکہ وہ لوگوں سے پہلے پیسے نہیں لیتے تھے کام ہونے کے بعد اُسی بے نظیرکارڈ سے پیسے نکال کر اپنا حصہ لیتے تھے عوام کے لیے یہ کارڈ ویسے بھی فضول ہو گے تھے اور کون سا جیب میں سے پیسے جا تے تھے اس لیے ہر بندہ یہ کارڈ انجان لوگوں کے ہاتھ میں دے دیتا اور جو کارڈ نہ دیتا اُس کا کام بھی ہو جاتا وہ لوگ ہر طرح کا ڈیٹا لے جاتے تھے اب یہ سارا کام کیسے ہوتا تھا یہ بھی سن لیں۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے دفتر والے پن کورڈ نہیں دے سکتے تھے پر دفتر کارڈمیں کیسی بھی شکایت کی ای میل کراچی بنک کو کرتا تھا اور اس میں شکایت کرنے والے شخص کا نمبر بھی دیا جاتا تھا بنک کا نمائندہ اس نمبر پہ کال کرتا ہے جیسے بائیومٹرک سم سسٹم سے پہلے سم نام کرواتے وقت کال سنٹرسے سم نام کروانے والے کا ڈیٹا پوچھاجاتا تھا یا جیسے عام اے ٹی ایم کارڈکے ایکٹیو کرواتے وقت پوچھاجاتا ایساہی ڈیٹا بنک کا نمائندہ پوچھ کر صارف کی شکایت دور کرتے ہیں ۔ لیکن دفتر اس ای میل کا استمعال بہت ہی کم کرتا بلکے کرتا ہی نہیں ہے اب ہو ا اسطرح کے فراڈ کرنے والے لوگ بنک کو ای میل کرتے ای میل آئی ڈی بھی کارڈصارف کے نام سے بنائی جاتی بنک کا نمائندہ کال کرتا تو یہ کیسی بھی عورت سے بات کروا کے کارڈصارف کا سارا ڈیٹا بتا کر نیا پن کورڈ حاصل کر لیتے اور کیسی بھی اے ٹی ایم سے با آسانی رقم نکلوا لیتے۔اب فراڈکرنے والوں کی تو چاندی ہو گی یہ فراڈچھپ کے نہیں کرتے تھے ہر شخص ان کے پاس آتا اپنا کام کروا کے ہزاروں روپے انہیں دے جاتا ایک دن پہلے یہ ای میل کرتے دوسرے دن بنک کی کال آجاتی اور نیا پن کورڈ ساراڈیٹا بتا کر حاصل کر لیتے ۔ایک طرف کارڈ پہ جو ہیلپ لائن نمبر تھا اُس سے کال نہیں اُٹھائی جاتی اور ادھر ہر ای میل کا لازمی جواب بھی دیا جاتا اور کال بھی آتی بنک کا نمائندہ خود کال کرتا ۔
محترمہ ماروی میمن صاحبہ اپنے جھنگ کی طرف سے اعتراف جرم ثبوت کے ساتھ کر رہا ہوں بنک کا ریکارڈ دیکھ لیں ایک با ر صرف اُن ای میل کو دیکھ لیں جن دیہاتی لوگوں کو اپنا نام اُردومیں پڑھنا نہیں آتا وہ انگلش میں ای میل کیسے کریں گے ماروی میمن صاحبہ جن لوگوں کے پا س بجلی ہی نہیں ہے وہ نیٹ کیسے چلاتے ہوں گے ماروی میمن صاحبہ پروگرام کے سرواے میں یہ بھی لکھا گیا تھا کے نوے فیصد دیہاتی عورتیں جن کے کارڈبنا ئے گے ہیں وہ ان پڑھ ہیں ماروی میمن صاحبہ جب میڈیا ان لوگوں کے پیچھے لگا اور دفتر والوں تک یہ بات گی انہوں نے اس کام کو اُسی وقت روک دیا اب فراڈ کر نے والے ایجنٹ حضرات نے اس کا بھی حل نکال لیا ہے اب بنک کی کال دفتر میں آتی ہے ایجنٹ حضرات اُن لوگوں کو دفتر لاتے جن سے پہلے ہی یہ ریٹ فیکس کر چُکے ہوتے ہیں عام عوام کو گھنٹوں دھوپ میں کھڑا کر کے سزادی جاتی ہے اور کہے دیا جاتا کے کال کا وقت ختم ہو گیا ماروی میمن صاحبہ آپ بھی عورت ہیں غریب عورتوں کوذلیل کیا جا تا ہے نازیبا الفاظ بولے جاتے ہیں اوربرُے کام پر آمادہ ہوں گی توان کا کارڈٹھیک ہو ں گے آپ کی نظر میں پندرہ سو ماہانہ کی کوئی اہمیت نہیں پر ان غریب عورتوں نے ان پیسوں کے ملنے کے اپنے ساتھ اپنے بچوں کے ساتھ بہت وعدے کیے ہو تے ہیں۔
اب جو انکشاف کرنے جا رہا ہوں ہمارا لوکل میڈیا بھی اس تک نہیں پہنچا ماروی میمن صاحبہ بے نظیر دفتر ان ایجنٹ حضرات سے لاتعلقی ظاہر کرتا اور دوسری طر ف وہ سرکاری لسٹ جس میں نئے کارڈ بنے والے لوگوں کے نام اور ایڈریس ہیں وہ ان کے پاس ہیں یہ فراڈلوگ اُن کے گھروں میں جا کے اُن لوگوں کو کارڈ اس شرئط پر بنواکے دیتے ہیں کے کارڈ کی پہلی قسط ہماری ہو گی ۔
ماروی میمن صاحبہ ایک آخری انکشاف اور گزارش کے بے نطیرانکم سپورٹ پروگرام کے بہت سے کارڈ ان فراڈ ایجنٹ لوگوں کے پاس ہیں جوہر تین ماہ بعد آنے والی قسط خود ہی کھا جاتے ہیں کیسی کے پاس پچاس کارڈبھی ہوں تواس کو پنتالیس سورپے سے ضرب دے لیں ہر تیں ماہ بعد یہ لوگ لاکھوں پتی ہو جاتے ہیں ہر کارڈ کو سم کی طرح بائیومیٹرک کروا کے اس فراڈکو بھی رکا جائے ۔
ماروی میمن صاحبہ جس طرح کی خوبصورت اور شفاف تصویر آپکی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی ویب سائیٹ پر ہے اسی طرح ہی اس پروگرام کو بھی خوبصورت اور شفاف بنا دیں۔۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :