مسٹر میرٹ!آپ کو میرٹ مبارک ہو

بدھ 13 مئی 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

سیاستدانوں کیلئے القابات سوچنے اور استعمال کرنے والوں کی کمی نہیں ہے اور وہ یک لخت کبھی تو انہیں مشہورعالم ”شیرشاہ سوری“ سے جاملاتے ہیں اور کبھی انہیں فاتح پاکستان ظاہرکرنے سے گریز نہیں کیاجاتا۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف بھی ”خادم اعلیٰ“ اور ”مسٹرمیرٹ“ کہلواتے ہیں۔ خادم اعلیٰ کے ضمن میں ہمیں خبر نہیں ہے کہ انہیں یہ ”قلغی “ کس نے پہنائی البتہ مسٹرمیرٹ کالقب انہیں مسلسل ”میرٹ “ کی نعرہ بازی کی بدولت حاصل ہوا ۔

الاماشااللہ 2008 سے 2015کے دورانیے میں پنجاب کس حدتک میرٹ کی راہ پر چل نکلا یہ الگ بحث ہے، ”حقیقی تبدیلی “ کے خواب دکھانے والوں نے کیا کچھ بدلا اس کا ادراک عام آدمی کو نہیں البتہ خوب واویلا جاری ہے کہ ”میرٹ“ کو اولیت دی جارہی ہے۔

(جاری ہے)

میرٹ کے ضمن میں اگر سرکاری ملازمتوں کا ذکر ہو، ترقی، تنزلی کانتھارا ہو یا پھر کرپشن کی بابت ہونیوالی کاروائیوں کا واویلا ،کہیں بھی میرٹ نام کی چیز دکھائی نہیں ۔

میرٹ کے ضمن میں ابتدائی لوازمات یہ بھی ہیں کہ کوئی برتری نہیں نہ خان نہ ملک نہ مراثی نہ مصلی ، صرف اہلیت ،علم ،مشاہدہ، برتری کی بنیاد ہیں ، ہمارا نہیں خیال کہ ان سات برسوں میں پنجاب میں کوئی بھی فیصلہ میرٹ کی بنیاد پرہوا ۔
میرٹ کی تازہ ترین مثال یوں دیکھ لیں کہ پنجاب کے انتہائی پسماندہ درماندہ ضلع بھکر کو دوسری بار حقیقی معنوں میں غریب پرور ،ایماندار، انسان دوست ڈی سی او محمدزمان وٹو میسرآیا۔

عام بیوروکریٹس کی طرح لوگوں سے دور رہنا انہیں پسند نہیں تھا تبھی تو عوام کیلئے دن رات دروازے کھلے رکھے۔ ابتداً تو مقامی وڈیرہ نما سیاستدانوں تو ڈی سی او سے کوئی گلہ نہ رہا تاہم جونہی انہوں نے پنجاب کی سب سے بڑی تحصیل منکیرہ میں سرکاری اراضی پر پے درپے ہونیوالے قبضوں کے ضمن میں ڈی سی او نے ہاتھ سخت کرنا شروع کردیا تو متعلقہ تحصیل منکیرہ کے ایم پی اے کو ناگوار گزرا کہ موصوف کے انتہائی چہیتے قبضوں میں ملوث تھے۔

ایک انتہائی افسوسناک پہلو ملاحظہ ہو کہ ایم پی اے کے دست راست نے کرپٹ ترین تحصیلدار کی ملی بھگت سے محض300روپے میں سرکاری اراضی اپنے بعض چہیتوں کے نام منتقل کرائی جبکہ یہ انتقال فیس بھی 46لاکھ سے زیادہ بنتی تھی ۔بات یہاں تک محدود نہیں رہی سرکاری اراضی کوڑیوں کے بھاؤ چہیتوں کے قبضہ میں دینے والے ایم پی اے کوڈی سی او کی مداخلت پسند نہیں آئی اورموصوف چل نکلے استحقاق جتانے ۔

صوبائی اسمبلی کی استحقاق کمیٹی مین معاملہ پہنچا۔ظاہر ہے کہ استحقاق کمیٹی میں بھی جاگیردارانہ مزاج کے حامل ممبران شامل ہیں اورانہوں نے اپنے ہی جیسوں کا دفاع کرناتھا۔ خیر جب استحقاق کمیٹی سے بات نہ بنی تو بھکر کے تین ایم پی ایز ،ایک ایم این اے اورایک سنٹیر لاؤلشکر سمیت وزیراعلیٰ کے حضورپہنچ گئے۔ کہنے کو تو ”گرینڈ ترقیاتی پیکیج “ منظورکرایا گیا لیکن اصل مدعا یہ تھا کہ کسی طرح سے میرٹ پسند اور کرپشن کاقلع قمع کرنے والے ڈی سی او کا تبادلہ کرایاجائے۔

یقینا یہ پنجاب کی تاریخ کاانوکھاواقعہ تھا کہ جب بیک وقت پانچ ممبران اسمبلی اور ایک سینٹر محض ایک ڈی سی او کے تبادلہ کیلئے وقت کے وزیراعلیٰ کے گٹے گوڈے پکڑنے پر مجبور تھے۔ وزیراعلیٰ بھی وہی جسے ”مسٹرمیرٹ “ کہلوانا پسند ہے۔ نجانے کیوں اس وقت ”میرٹ “ موصوف کے ذہن سے اتر گیا اور انہوں نے چھ اراکین پارلیمنٹ کا بوجھ برداشت نہ کرتے ہوئے ڈی سی او کے تبادلہ کے احکامات جاری کردئیے۔


کہنے کو ایک چھوٹا سا واقعہ ہے کیونکہ سب سے صوبے میں ایسے کئی واقعات روز کامعمول بن چکے ہیں لیکن ایک میرٹ پسند کہلوانے والے وزیراعلیٰ کے ہاتھوں جب میرٹ کا قتل عام ہورہاہوتو یقینا اچنبھے کی بات تو ضرور ہوتی ہے۔
اب آئیے !تبدیل ہونیوالے ڈی سی او سے محبت کرنیوالوں کی ایک جھلک دکھاتے ہیں کہ تبادلہ کے زبانی احکامات کے دو روز تک ڈ ی سی او ہاؤس کے سارے دروازے ملاقات کیلئے آنیوالوں کیلئے کھلے رہے ۔

محمدزمان وٹو ہرآنیوالے سے گلے ملنے کے علاوہ ان کی خوشی کی خاطر تصاویر تک بنواتے رہے ہیں۔ یقین کریں کہ ان ملنے والوں میں کوئی جاگیردار ، کوئی وڈیرا ،سیاستدانوں کا کاسہ لیس شامل نہیں تھا ۔سبھی دیہاڑی دار مزدور، عام شہری، چھوٹے موٹے تاجر ہی تھے ۔یقینا یہ عام لوگوں کی محبت کا ثمر ہے کہ 9اکتوبر2014کو چارج سنبھالنے والے ڈی سی او محمدزمان وٹو جب 11مئی کو رخصت ہورہے تھے تو یقینا ان کی آنکھوں میں نمی تھی ،وہ روتے ہوئے دل سے لوگوں کو الوداع بھی کہہ رہے تھے لیکن بحیثیت سرکاری افسر تبادلہ ان کیلئے کوئی انہونی بات نہیں تھی لیکن ان کے آنسو اور دکھ محض لوگوں کی محبت کی وجہ سے تھا۔

اور یہ محض سات آٹھ مہینوں میں اس لئے پنپ پائی کہ انہوں نے عوام کو حقیقی معنوں میں ”میرٹ“ خداترسی اورانسان دوستی کی راہ دکھائی۔
محمدزمان وٹو چلے گئے ، لیکن بھکر کی تاریخ میں ان کانام دوسری لائن میں چمکتا دکھائی دے گا کہ اس پسماندہ ضلع کے پہلے ڈی سی میاں محمدجمیل نے اپنے مشفقانہ روئیے، عوام دوستی ،خداترسی کی بدولت لوگوں کے دلوں کو مسخر کیا اور آج 32سال گزرنے کے باوجود یہان کے باسی میاں جمیل کو فراموش نہیں کرپائے اسی طرح اب محمدزمان وٹو نے اپنے کرداروعمل کی وجہ سے لوگوں کے دل جیتے اور اس طرح سے جیتے کہ لوگوں کی نمناک آنکھیں اس محبت کا پتہ دیتی ہیں۔

ایک سیانے نے کہا کہ کسی ایسے شخص(جس سے آپ کاکوئی خون کارشتہ نہ ہو،جس کے ساتھ کوئی ظاہری تعلق نہ ہو)اس شخص کے رخصت ہونے پر آپ کادل بھرآئے تو سمجھ لیجئے کہ آپ ایک پرخلوص شخص کو اپنے انداز میں رخصت کررہے ہیں۔ محمدزمان وٹو محبتیں سمیٹے رخصت ہوگئے لیکن دو باتیں آشکار کرگئے کہ پاکستان میں نام کو تو میرٹ ہے ورنہ عملی طورپر میرٹ نہ تو حکمرانوں کو پسند ہوتاہے اورنہ ہی ان کے کاسہ لیسوں کو دوسری بات یہ کہ انسان کا کردار ہی اسے بلندی ،ترقی عطا کرتا ہے یہ بلندی ،یہ ترقی کسی عہدے کی محتاج ہوتی ہے اورنہ ہی کوئی عہدے رکھنے والا اسے ختم کرسکتاہے۔

آج اقتدار کے پانچ ایوانوں(تین ایم پیز ،ایک ایم این اے ،ایک سنیٹر) ایوانوں میں حریصانہ آنکھوں کے ساتھ یہ حضرات اس محبت کو دیکھ رہے ہونگے جس کا اظہار بھکر کے غیرت مندلوگون نے کردیا۔ عزت سادات کو کب کی لٹ چکی شاید اس وقت جب انتہائی کرپٹ ڈی سی او کو بچانے کیلئے یہ پانچ کاٹولہ ایک جگہ اکٹھے نظرآیا اور پھر وہی پانچ کاٹولہ ایک انتہائی میرٹ پسند، غریب پرور ڈی سی او کو تبدیل کرانے کیلئے اکٹھے نظرآیا۔

یقینا سیانوں کی بات کھل کرسامنے آگئی کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں مگر جب کھانے کی باری آئے تو ایک جیسی ضرور ہوجاتی ہیں۔
آج بھکر کا ہرچھوٹا بڑا وزیراعلیٰ کے ”میرٹ“ کو سات توپوں کی سلامی پیش کررہاہے کہ انکے ایک ہی اقدام نے ان کی ”میرٹ پسندی“ کا پول کھول دیا بلکہ میرٹ کی دھجیاں اڑاکررکھ دیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :