اک پلیٹ بریانی کا سوال ہے بابا

بدھ 13 مئی 2015

Hussain Jan

حُسین جان

لو جی جس کا تھا زمانے میں ڈھنڈورا آخر وہ ڈھول پھٹ ہی گیا ،جی ہاں آ پ سعی سمجھے ہیں ہم بات کر رہے ہیں حال ہی میں ہونے والے پاکستان کے تمام کنٹونمنٹ بورڈز کے بلدیاتی الیکشنز کی۔ 17سال بعد ہونے والے الیکشنز کے بارئے میں ہم وثوق سے کہتے تھے کہ اب کہ عوام نہیں چھوڑنے کے ،پورا پورا بدلا لیں گے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا۔ تمام جماعتیں سوائے پی پی پی کے ان انتخابات میں اس طرح ڈوبی ہوئیں تھیں جیسے سمندر کسی حسینہ کی آنکھوں میں ڈوب جائے۔

پی پی پی بیچاری تو اپنے تابوت میں کب کا آخری کیل ٹھونک چکی ہے۔ پی پی سے ایک وکیل کا قصہ یاد آگیا جو کچھ یوں ہے کہ کسی صاحب نے قتل کر دیا ،اُس کے لواحقین ایک وکیل صاحب کے پاس گئے ،جن کے پاس کسی وزارت کوئی تجربہ نہیں تھا،وکیل صاحب نے کیس کا بغورجائزہ لینے کے بعد کہا کے میں اس کیس کی فیس 5000لوں گا ، اب قاتل کے لواحقین کچھ تگڑئے قسم کے لوگ تھے تو انہوں نے سوچا کہ جووکیل پانچ ہزارلے رہا ہے وہ کیس کیا لڑئے گا ،تو انہوں نے کوئی تگڑا سا وکیل دیکھ کر لیا ،اب ہوا کچھ یوں کہ کچھ عرصے بعد اُسی قاتل کے گھر والے کسی کام سے عدالت میں آئے تو اُسی وکیل سے سامنا ہو گیا اُس وکیل نے پوچھا کے آپ کے کیس کا کیا بنا تو انہوں نے منہ بناتے ہوئے کہا کہ ہمارئے بھائی کو پھانسی ہو گئی ہے ،تو وکیل صاحب نے تجسس سے پوچھا کہ آپ نے وکیل کتنے میں کیا تو جواب ملا ایک کروڑ میں تو وکیل صاحب نے نہایت غصے سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہی پھانسیمیں نے پانچ ہزار میں کروادینیتھی جو آپ نے ایک کروڑ میں کروائی تو لگتا ہے پی پی پی والوں نے وکیل صاحب کا قصہ سن رکھا تھا اسی لیے انتخابی مہم چلانے کا کشت ہی نہیں کیا، کہ لاکھوں لگا کر بھی تو ہارنا ہی ہے تو کیوں نہ کچھ نا لگا کر ہارا جائے ویسے حالیہ بلدیاتی الیکشن میں پی پی پی کی ایک بدقسمتی یہ بھی رہی کہ اُن کے پاس کوئی تازہ شہید نہیں تھا اب بے چارئے پرانے شہید کہاں تک ساتھ نبھائیں۔

(جاری ہے)


بات کہاں سے کہاں نکل گئی ہم تو زکر کر رہے تھے ایک پلیٹ بریانی کا،ترقی یافتہ ممالک میں لوگ ہمیشہ سے انتظار کرتے ہیں کہ کب الیکشنز ہوں گے اور کب ہم اپنے موجودہ حکمرانوں سے بدلہ لیں گے، کیونکہ یہی ایک وقت ہوتا ہے بدعنوانوں کو سزا دینے کا۔ خود سے کیے گئے ہر ظلم کا بدلہ لینے کا۔ مگر اپنے ہاں تو گنگا ہی اُلٹی بہہ رہی ہے بھائی یہاں کی بھوکی ننگی عوام انتخابات کا انتظار اس لیے کرتی ہے کہ روز کھانے کو بریانی میسر ہوتی ہے۔

یہ بھوکے ننگے بھی کمال کے ہوتے ہیں، چند دن بریانی کی پلیٹ کھا کر پانچ سال تک جوتیاں کھاتے رہتے ہیں۔ یہ جو پارٹی بیس انتخابات ہوتے ہیں نہ ان کا بھی ایک اپنا سرور ہوتا ہے، چچا سلیم کو دیکھو ہر جماعت کے جلسے میں شامل ہو جاتا ہے اور کوشش ہوتی ہے کہ جس ٹیبل پر کھانا لگا ہے اُس کے قریب ہی کہیں جگہ مل جائے، ایک دن ہم نے پوچھ ہی لیا کہ چچا کیوں ہر جلسے میں جاتے ہو ،ووٹ تو ایک ہی ہوتا ہے نہ تو چھٹ سے بولے میاں ہرجلسے میں بریانی کا ٹیسٹ الگ الگ ہوتا ہے ،کئی دہائیوں سے تماری چچی کے ہاتھوں کا بنا سالن زہر مار کر رہا ہوں تو کیوں نہ الیکشن میں اپنی حسرتیں پوری کروں۔

ویسے آوئے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے،لوگ اپنے ضمیر کا سودا بہت مہنگے داموں کرتے ہیں ،کوئی لاکھوں کماتا ہے تو کوئی کروڑوں میں کھیلتا ہے پر ہم ہیں کہ صرف ایک پلیٹ بریانی پر بک جاتے ہیں۔ کوئی سرکاری سکول اس قابل نہیں کہ اپنے بچوں کو وہاں داخل کروایا جاسکے، کسی میں میز نہیں ہے تو کسی میں کرسی نہیں ہے۔ اساتذہ کا معیار یہ ہے کہ بچوں سے گھر کے کام کاج ہی کرواتے رہتے ہیں۔

یہی حال ہمارے سرکاری ہسپتالوں کا ہے پہلی بات تو یہ کہ ڈاکٹر حضرات جو معاشرئے کے معزز ترین افراد میں شامل کیے جاتے ہیں غریب لوگوں سے ایسے برتاؤ کرتے ہیں کہ شیطان بھی ان سے پناہ مانگے۔ اگر کسی نے ہسپتال میں داخل ہونا ہے تو اُس کے لیے اُسے کسی تگڑی سفارش کی ضرورت پڑتی ہے۔ چلواگر کسی نہ کسی طرح غریب کا بال داخل ہو بھی گیا تو پھر ایسے ایسے ٹیسٹ اور دوائیاں لکھ دی جائیں گی کہ گھر بار بیچ کر بھی علاج ممکن نہیں لہذا بیچارہ جلدی ہی دُنیا چھوڑ دیتا ہے کہ کیوں اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی پریشان کرئے۔

کسی زمانے میں سڑکوں پر سرکاری بسیں بھی چلا کرتی تھیں حالت تو اُن کی ہتھ ریڑی جیسی ہی ہوتی تھی مگر عوام سستے میں سفر کر لیتے تھے۔ اب تو آجا کہ ایک میٹرو بس ہی راہ گئی ہے سرکاری وہ بھی اتنے بڑئے لاہور کی ایک ہی سڑک پر فراٹے بھرتی نظر آتی ہے۔ باقی سرکاری ٹرانسپورٹ کا ہمارے ہاں کوئی رواج نہیں۔ ادیب و دانشور اپنے افسانوں اور کہانیوں میں ریل گاڑی کو ایک افسانوی کردار کے طور پر لکھا کرتے تھے۔

بچے گرمیوں کی چھوٹیوں کا انتظار کیا کرتے تھے کہ کب ہوں اور ہم ریل گاڑی میں بیٹھ کر گاؤں کو نکلیں ۔ ماشاء اللہ ہمارے سرکاری افسروں اور وزیروں نے ریل گاڑی کا بھی وہ حشر کیا ہے کہ اب مائیں بچوں کو کہتی ہیں اگر پڑھائی نہ کی تو اس دفعہ ریل گاڑی میں گاؤں لے کر جاؤں گی جس سے بچے کانپ جاتے ہیں اور کچھ نہ کچھ پڑھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔


ویسے انتخابات میں تو بریانی مفت میں مل جاتی ہے لیکن عام حالات میں 200سے کم نہیں پڑتی۔ یعنی مہنگائی ہی اتنی ہو چکی ہے کہ تمام ضروریات زندگی عوام کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔ تنخواہیں ہیں کہ کچھوئے کی چال چلتی ہیں اور مہنگائی ہے کہ خرگوش کی چال اپنا چکی ہے۔ بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر آنے والے جب عوامی مسائل کی باتیں کرتے ہیں تو بڑئے ہی عجیب لگتے ہیں۔

ہاتھوں میں لاکھوں کی گھڑیاں پہنے یہ غریب کا وقت بدلنے کی بات کرتے ہیں تو بالکل مسٹر بین ہی دیکھائی دیتے ہیں۔ سیاستدان بھی بیچارئے کیا کریں اُن کو پتا ہے یہ قوم کبھی اپنے حق کے لیے کھڑی نہیں ہوتی۔67سالوں سے اس قوم کا خون چوسا جا رہا ہے مگر یہ شہزادی قوم ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ ہمیں چاہے جوتے مارو ،یا بھوکے مارو ہمیں کوئی اعتراض نہیں بس ایک پلیٹ بریانی جلسے میں ضرور ہونی چاہیے۔

کمیشن پر کمیشن بن رہے ہیں مگر ان کا عوام کو کیا فائدہ،فیصلہ چاہے حق میں ہو یا مخالفت میں عوام کو کیا لینا دینا۔ اب بے چارئے چھیدئے ،گامے، تیلی،موچی،ماجھے ساجھے ،سائیں اور للوکو کیا پتا کہ ملک میں کون سا طرز حکومت ہے۔ آئین کس بلا کا نام ہے وہ کیا جانیں،وہ تو دیکھتے ہیں کہ گھر کیسے چلانا ہے، بجلی کا بل کیسے دینا ہے، دوائی کیسے لانی ہے بچوں کی فیسیں کہاں سے دینی ہیں۔

غریب کو پیٹ بھرنے سے مطلب ہے جمہوریت یا آمریت سے اُس کا کیا لینا دینانہیں۔ ہمارئے پاس موقع آتا ہے اپنے حالات کو بدلنے کا ،اپنے ساتھ کیے گئے ایک ایک ظلم کا بدلا لینے کا مگر اُس وقت ہم اپنے تمام دکھ درد بھول کر بریانی کی دیگ کو صدیوں کے بھوکوں کی طرح پڑ جاتے ہیں۔ تو پھر رونا کیوں ،چلانا کیوں، چھاتی پیٹنا کیوں،جب اپنے حالات خود ہی نہ بدلنے ہوں تو یہ غنڈئے بدماشوں کو کیا پڑی ہے آپ کے حالات کو بدلنے کی، اُن کے بینک بیلنس بڑھ رہے ہیں اُن کے بچے دوسرئے ممالک میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

علاج کے لیے ساری دُنیا کے ہسپتال موجود ہیں۔ بچوں کے لیے کئی کئی ملازم حاضر ہیں۔ تو بھائی تم کیا چاہتے ہو ایک پلیٹ بریانی، تو کھاؤ، اور 67سال کی طرح اچھوتوں کی طرح زندگی گزارتے رہو، پھر کیوں روتے ہو کے رشتہ دار مر گیا ہے اُس کے لیے قبرستان نہیں، کیوں چلاتے ہیں ہسپتالوں میں کوئی پوچھتا نہیں۔ کیوں بین ڈالتے ہو کہ بچوں کے لیے سکول نہیں ،دوا دارو کے پیسے نہیں ۔

کوئی حق نہیں تم لوگوں کو رونے کا ایک پلیٹ بریانی کھاؤ اور مستی سے نعرئے لگاتے رہو۔ چند ہزار لوگ موجود ہیں تم پر حکومت کرنے کے لیے تمہیں ہانکنے کے لیے، تم پر زندگی تنگ کرنے کے لیے، تم لوگوں کو بھوک سے مرتا دیکھنے کے لیے ،پر تم پروا مت کرنا بس یہی کہنا اماں کا وقت پوراا ہو گیا تھا اسی لیے اللہ کو پیاری ہو گئیں کسی کو یہ مت کہنا کہ تم اماں کا علاج کروا ہی نہیں سکے کیونکہ تمہارئے ملک میں غریب کے لیے کچھ موجود نہیں سوائے پانچ سال بعد ایک پلیٹ بریانی کے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :