اُن میں انسانیت باقی ہے۔۔۔

پیر 11 مئی 2015

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

اُس کی اٹھارہ سالہ بیٹی کے دل میں سوراخ تھا ۔ جس کودل کی پیوند کاری یعنی ہارٹ ٹرانسپلانٹ کی ضرورت تھی ۔ ایسا کرنے سے اِس کی زندگی قدرے کم تکلیف کے ساتھ گزر سکتی تھی۔ ہسپتالوں کے دھکے کھاتے کھاتے وہ تھک چکا تھا۔ملکی نظام کے طمانچے اِس کی روح تک کو ُسرخ کر چکے تھے۔ وہ ایک چھوٹا سا کاروبار چلاتا تھا جو پہلے ہی اس کی اپنی بیماری کی وجہ سے ختم ہو گیا۔

رہی سہی کسر بیٹی کی بیماری نے پوری کر دی ۔حالات نے اسے ایک فیکٹری میں مزدور بنا دیا۔ اس کا خاندان کوئی گیا گزرا نہیں تھا لیکن سوائے چند رحم دل بزرگوں کے سب لوگوں نے مدد سے ہاتھ کھینچ لیا۔ یا یوں کہہ لیں کہ اسے زندگی کی بے رحم موجوں کے حوالے کر دیا۔ اسے قدرت کا انعام کہیں یا مجبور کی پکار کا اثر کہ بے رحم موجوں میں بے ترتیبی سے ہاتھ پاؤں مارتے مارتے وہ ایک فلاحی ادارے تک پہنچ گیا۔

(جاری ہے)

پہلے میرا ارادہ تھا کہ اس ادارے کا نام نہ لکھوں کیوں کہ اربوں روپے کے فلاحی کام کرنے کے باوجود بھی ٓج یہ ادارہ پاکستان میں متنازعہ حیثیت رکھتا ہے۔ یہی ادارہ اگر دنیا کے کسی دوسرے ملک میں ہوتا تو اس وقت اپنا لوہا پوری دنیا میں منوا چکا ہوتا۔ پھر سوچا کہ یہ کوئی برائی کا کام تو ہے نہیں کہ ذکر گول کر دیا جائے۔ جس ملک میں عبدالستار ایدھی صاحب جیسی لوگ ڈکیتوں کے ہاتھ سے نہ بچ سکیں اس میں اس ادارے کو متنازعہ بنا دینا کون سی بڑی بات ہے۔


اس ادارے تک وہ ہر سطح سے مایوس ہو کر پہنچا تھا۔ اور یہاں بھی اسے کوئی خاص امید نہیں تھی لیکن حیران کن طور پر یہاں سے اس کے لیے آسانیوں کا آغاز ہو گیا۔ اس ادارے نے اس کی بیٹی کا علاج بھارت سے کروانے کی حامی بھر لی۔کیوں کہ عالمی شہرت یافتہ سرجن کا تعلق بھی بھارت سے ہے۔اور جن کا ایک ایک لمحہ لاکھوں روپے سے زیادہ قیمتی تصور کیا جاتا ہے۔

ملک کا نام اس لیے لکھ رہا ہوں تا کہ قارئین کو یاد رہے کہ یہ ہمارا دشمن ملک ہے۔ معاملات طے پاتے گئے۔ اور وہ دن بھی آ گیا جب وہ اپنی بیٹی کو ساتھ لیے پڑوسی ملک پہنچ گیا۔ بقول اس کے وہ بہت خوفزدہ تھا۔ دشمن ملک۔۔۔ سونے پہ سہاگہ نریندر مودی کی حکومت ۔۔۔ علاج کرنے والے ہندو۔۔۔ ہسپتال ان کا ۔۔۔ عملہ ان کا۔۔۔ لیکن بیٹی کی بیماری نے رسک لینے پہ مجبور کر دیا۔

مختصراً وہ بیٹی کو لے کر ہسپتال پہنچ گیا راہنمائی کی مدد سے ڈاکٹر کے کمرے تک پہنچا۔ کمرے کے باہر موجود رش سے ہی اسے ڈاکٹر کی اہمیت کا اندازہ بھی ہو گیا۔ اور پریسانی میں اضافہ بھی ۔ لیکن کمرے میں پہنچ کر اسے خوشگوار حیرت ہوئی۔
ڈاکٹر صاحب نے سلام دعا کے بعد اس سے آدھا گھنٹہ ادھر ادھر کی باتیں کیں جن کے دوران دو دفعہ اس نے خود ڈاکٹر صاحب کو مرض کا بتانا چاہا تو انہوں نے روک دیا۔

جب اس نے کہا کہ آپ کا ایک سیکنڈ بھی لاکھوں کا ہے تو ڈاکٹر صاحب نے کمال تحمل سے اسے کہا کہ میرے لیے تم اور تمہاری بیٹی سب سے اہم ہو۔ آدھے گھنٹے کی خوشگوارا ملاقات کے بعد باقاعدہ ہسپتال کے معاملات طے ہونا شروع ہوئے۔ لیکن یہ تاخیر نہیں تھی بلکہ اس کے لیے سکون کے لمحے تھے۔ اب اسے یہ یقین ہو چلا تھا کہ وہ انسانوں کے بیچ ہے اور انسان بننا یقینا فرشتوں سے بھی بہتر ہے۔

اس کو وہ منظر یاد آنے لگے جب اپنے ملک میں ایک عام سا ڈاکٹر بھی کوئی بات کرنے پہ اسے مصروفیت کا طمانچہ مار کے خاموش کروا دیا کرتے تھے۔ یقیناوہ انسانوں میں تھا۔اس کے اندر کا خوف آہستہ آہستہ کم ہو رہا تھا۔آنے والے دنوں میں وہ جب کسی ٹیکسی میں بیٹھتا اور اس سے بیٹی کی بیماری یا علاج کا ذکر چل نکلتا تو وہ اس کے اصرار کے باوجود پیسے لینے سے انکار کر دیتے یا کم لیتے ۔

کوئی چیز خریدنا چاہتا تو وہ اس سے کم دام وصول کرتے ۔ وہ حیران تھا کہ اپنے ملک میں، ایک اسلامی ملک میں دو گنا زیادہ کرایہ وصول کرنا معمول کی بات سمجھی جاتی ہے تو یہ کون لوگ ہیں جو مسلمان بھی نہیں ہیں ۔ یہ تو صرف انسان ہیں۔ بلکہ یہ تو شائد دشمن ہیں؟
اپنے سفر و قیام کی روداد سناتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ یہ آنسو اس وجہ سے نہیں تھے کہ بھارت سے اس کی بیٹی کا اچھا علاج ہو گیا ہے۔

بلکہ یہ آنسو اس لیے تھے کہ وہ اپنے وطن میں ہونے والے سلوک پہ شکوہ کناں تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہم مسلمان ہیں لیکن انسانیت کو چھوڑ چکے ہیں۔ وہ مسلمان نہیں ہیں لیکن پھر بھی انسانیت ان میں باقی ہے۔ ایک طرف وہ ڈاکٹر تھا جو عالمی شہرت رکھتا تھا پھر بھی ایک پردیسی مریض کو آدھا گھنٹہ گفتگو کا وقت دے رہا تھا۔ دوسری طرف اس کے اپنے ملک کے ڈاکٹرز تھے جو سفید کوٹ پہنتے ہی شہنشاہوں کا رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔

شاید سب ڈاکٹرز وطن عزیز میں ایسے نہ ہوں لیکن پھر بھی اکثریت کا رویہ ایسا ہی ہوتا ہے جیسے مریض نہیں کوئی گائے بکری ہو۔ میں اپنی گناہگار آنکھوں سے محترم ڈاکٹر صاحبان کی ہڑتال کی وجہ سے اذیت میں مبتلا مریضوں کے چہرے پہ کرب دیکھ چکا ہوں۔ ان کی کراہیں سن چکا ہوں۔ دشمن ملک میں ٹیکسی والا کرایہ تک لینے سے انکار کر دیتا ہے۔ لیکن میں اپنے خاندان میں ذاتی طور پہ ایک تلخ حقیقت کا گواہ ہوں کہ جب مجھے رات کے 2 بجے ایکسیڈنٹ میں شدید زخمی ہونے والے ایک عزیز کو دوسرے ہسپتال منتقل کرنا تھا اور فاصلہ صرف کم و بیش 6-8 کلو میٹر تھا۔

اور حیران کن طور پہ ایک پرائیویٹ ایمبولینس والے نے مجھ سے 8 کلو میٹر کا کرایہ 2200 روپے طلب کیا تھا۔یہ حقیقی واقعات ایک غریب پاکستانی کے ہیں اور جس ادارے نے اس کی بیٹی کا علاج کروایا وہ بحریہ ٹاؤن ہے جس کے چیئرمین ملک ریاض حسین نے خصوصی طور پر علاج کے اخراجات اٹھائے اور بحریہ ٹاؤن نے ہی پڑوسی ملک میں تمام معاملات طے کیے۔ میں تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔

آپ ملک ریاض حسین اور ان کے ادارے بحریہ ٹاؤن کے کاموں سے بخوبی آگاہ ہے ایک طویل فہرست ہے جو ابھی جاری ہے۔ قزاقوں سے رہائی، غریبوں کا علاج ، سیلاب زدگان کی مدد، زلزلہ زدگان کی مدد لمبی فہرست میں سے صرف چند مثالیں ہیں۔
ہم بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ آج مغرب نے جتنی ترقی کی ہے وہ مسلمان سائنسدانوں کی وجہ سے کی ہے۔ لیکن ہم نے کیا حاصل کیا؟ آج اسلامی اقدار کے امین اغیار بنے بیٹھے ہیں ۔

لیکن ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہم نے اسلام کو صرف نماز، روزہ ، حج ، زکوٰة سمجھ لیا ہے۔ اور اسی کو ہی کل اسلام سمجھ بیٹھے ہیں۔ ہمارے تو مذہب کا نام ہی امن و سلامتی ہے۔ پھر ہم یہ کس روش پہ چل نکلے ہیں؟ ہم نے عبادات کو مکمل اسلام سمجھ لیا ہے اور خدمات و انسانیت کو مکمل طور پہ بھلا دیا ہے۔ ہمیں اسلام دھوکہ دہی سے روکتا ہے لیکن ہم نے دھوکہ دہی کو کامیابی کی ضمانت سمجھ لیا اور اغیار نے اس سے بچ کر کامیابی سمیٹ لی۔

اسلام نے ہمیں غلط بیانی سے روکا لیکن ہم نے اس کو زیادہ فائدے کا گر سمجھ لیا اور اغیار نے اس سے بچ کر دلوں میں گھر کرنا سیکھ لیا۔ اسلام ہمیں نرمی سے بات کرنے کی تلقین کرتا ہے لیکن ہم نے درشتی کو اپنا خاصہ بنا لیا اور اغیار اپنا قیمتی وقت مزدوروں پہ لٹانے کو کمائی سمجھ چکے ہیں۔اسلام ہمیں دوسروں کی مدد کا درس دیتا ہے لیکن ہم نے گلے کاٹنے کی روش اپنا لی لیکن اغیار نے بلا تفریق مذہب مدد کرنے کا رویہ اپنا لیا۔


اغیار جو کچھ کر رہے ہیں وہ سب اقدار تو ہماری تھیں؟ آخر ایسا کیا ہوا کہ ہم اپنی وراثت بھول بیٹھے ؟ آخر ہم نے وہ کون سے ترقی پا لی جس کے لیے ہم نے اسلامی اقدار کو پس پشت ڈال دیا؟ اگر مذہب صرف عبادت کا نام ہوتا تو اس کے لیے فرشتوں کی کمی نہیں تھی۔ عبادت کے ساتھ ساتھ مذہب تو انسانیت کی پہچان کا بھی درس دیتا ہے۔ مذہب ہمین سکھاتا ہے کہ انسانیت کی خدمت کس درجہ اہم ہے۔ لیکن ہم نا جانے کیوں اپنی اقدار کو بھلا کر اپنی کامیابی کا تصور کیے بیٹھے ہیں۔ حالانکہ یہ کامیابی نہیں یہ تو سرا سر نقصان ہے۔ مکمل خسارہ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :