نوجوان کیا کر سکتے ہیں !

پیر 11 مئی 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

نوجوان اس ملک کے لیئے کیا کر سکتے ہیں اس سے پہلے یہ واقعہ سن لیں ۔
کچھ عرصہ پہلے ایک قاری نے میل کی ،وہ پچھلے سال گورنمنٹ سیکٹر میں بھرتی ہوئے تھے ،جو لوگ گورنمنٹ سیکٹر میں کام کرتے ہیں انہیں اندازہ ہے کہ پہلی سیلری ریلیز ہونے میں تقریبا چھ ماہ لگ جاتے ہیں ۔پہلے متعلقہ کلر ک کے پاس درخواست جمع کروانی پڑتی ہے ، پھر ڈگریوں کی تصدیق کا مرحلہ آتا ہے ، پھر ڈاکومنٹس آگے اکاوٴنٹ آفس فارورڈ کیئے جاتے ہیں ،اکاوٴنٹ آفس میں دل کرے وہ فائلیں چھ ماہ پڑی ہیں کو ئی انہیں پوچھنے والا نہیں ، اکاوٴنٹ آفس کی کاروائی کے بعد پھر کہیں جا کر سیلری ریلیز ہو تی ہے اور اس سارے پروسس پر تقریبا چار سے چھ ماہ لگ ہی جاتے ہیں ۔

ان تمام مراحل میں آپ مکمل طور پر کلرکوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں ، آپ ان کی مٹھی گرم کردیں آپ کا کام ایک دو ماہ میں ہوجائے گا اگر آپ انہیں ہڈی نہیں ڈالیں گے تو ایک نہیں سو اعتراضات لگا کر آپ کو بار بار آفس بلا یا جا ئے گا اور آپ کو تنگ کرنے کے نئے اور انوکھے بہانے ڈھونڈے جائیں گے ۔

(جاری ہے)

جس قاری نے میل کی تھی اس کے ساتھ بھی یہی ہوا ، اس نے متعلقہ کلرک کو پیسے نہیں دیئے نتیجے میں اس کی فائل روک لی گئی اور ڈاکو منٹس اکاوٴنٹ آفس فارورڈ نہیں کیئے گئے۔

معاملہ ضد بازی تک پہنچ چکا تھا ، کلر ک کی ضد تھی جب سب ہڈی ڈالتے ہیں اور سب میرے سامنے جھکتے ہیں تو تم کون ہوتے ہو ،یہ بیچارہ اس لعنت سے بچنا چاہتا تھا ،مجھے میل کی ، میں نے لیپ ٹاپ آن کیا ، سی ایم پنجاب کمپلین سیل کی ویب سائٹ گوگل کی اور یہ شکایت یہاں سبمٹ کروا دی۔قاری کو تسلی دی آپ فکر نہ کریں آپ کی سیلری بغیر کچھ دیئے ریلیز ہو گی۔

ایک ہفتہ ، دوہفتے حتیٰ کہ تین ہفتوں تک کوئی فیڈبیک نہیں آیا میں پریشان ہو گیا ،تقریبا پچیس دن بعد متعلقہ ضلع کے ای ڈی اوآفس سے قاری کے نمبر پر کال موصول ہوئی ”آپ کی کمپلین ہے کہ فلاں کلرک آپ سے پیسوں کا مطالبہ کر رہا ہے “ قاری نے ہاں میں جواب دیا تو کہا گیا ”آپ فلاں تاریخ کو ای ڈی او آفس پہنچیں ، متعلقہ کلرک کو بھی طلب کیا گیا ہے ،آپ ای ڈی او صاحب کے سامنے پیش ہو کر اپنا کیس پیش کریں “دوسری طرف کلرک کو بھی فون گیا کہ آپ کے خلاف شکایت ہوئی ہے فلاں تاریخ کو آپ کو ای ڈی او صاحب کے سامنے پیش ہوں ۔

جو لوگ گورنمنٹ سیکٹرمیں کام کرتے ہیں انہیں اندازہ ہے کہ انکوائری کتنا بڑا دھبا ہے ۔ اب ہو ایہ کہ وہی کلر ک قاری کو بار بار فون کر کے منتیں کر ہا ہے کہ ایک دفعہ جان چھڑوا دو آپ کا کام ہنگامی بنیادوں پر کرواوٴں گا،وعدے اور قسمیں کہ میری نوکری کا مسئلہ ہے ۔ قاری نے کمپرومائز کیا اور اس طرح اس کلر ک کی جان چھوٹی ۔ اس کے بعد جب تک سیلری اکاوٴنٹ میں نہیں آئی تب تک وہ سکون سے نہیں بیٹھا اور بار بار فون کر کے پوچھتا رہا کہ سیلری اکاوٴنٹ میں آئی یا نہیں ۔


یہ واقعہ سنانے کا مقصدیہ ہے کہ ہمارے ہاں سسٹم اور ڈیپارٹمنٹس موجود ہیں لیکن ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا ۔ فائدہ نہ اٹھانے کی دو وجہیں ہیں ۔ایک ، ہمارے ہاں جہالت عام ہے ، خواندگی کی شرح انتہائی کم ہے ، کسی کو کچھ پتا نہیں اپنے حقوق کیسے حاصل کرنے ہیں اور ان کا دفاع کیسے کرنا ہے ، اس واقعے کو دیکھ لیں نوے فیصد عوام کو نہیں پتا کہ اس طرح شکایت کر کے وہ اپنا جائز حق لے سکتے ہیں ۔

دو، ہم نے یہ فرض کر لیا ہے کہ یہ ملک ایسے ہی چلے گا ، ہمیں اپنے جائز کام کے لیئے بھی پیسے دینے پڑیں گے اور یہ پاکستان ہے یہاں سب چلتا ہے ۔ہم خود تبدیل نہیں ہونا چاہتے اور ہم اس گلے سڑے سسٹم سے جان نہیں چھڑا نا چاہتے ۔اس مائنڈ سیٹ کو بدلنے کی ضرورت ہے اور ہم جب تک یہ مائنڈ سیٹ نہیں بدلیں گے کچھ بھی نہیں بدلے گا ۔ ہمارے جتنے بھی اہم اور بڑے مسائل ہیں فیڈرل اور صوبائی سطح پر ان مسائل کے خلاف شکایات درج کروانے اور انہیں جائز طور پر حل کروانے کے ڈیپارٹمنٹس موجود ہیں ، مسئلہ ہمارا ہے ہم خود آگے نہیں بڑھتے اور اس سسٹم کو نہیں بدلتے۔

ہم رشوت دے لیں گے ، میرٹ کی خلاف ورزی دیکھ لیں گے ، جعلی دوائیاں کھاتے رہیں گے لیکن ان اداروں کا دروازہ نہیں کھٹکھٹائیں گے ۔پنجاب کے ہر بڑے ضلعے میں صارف عدالتیں قائم ہیں جہاں آپ ا پنے جائز حقوق کے حصول کے لیئے درخواست دے سکتے ہیں ،مثلا آپ نے کوئی کپڑا خریدا ، کوئی مہنگا سوٹ ، شیروانی ،لہنگا اور وہ دو نمبر نکل آیا یا کپڑا ٹھیک نہیں تھا ، سلائی معیاری نہیں تھی تو آپ صارف عدالت جا کر اپنا جائز حق لے سکتے ہیں ۔

آپ نے کوئی کھانے کی چیز خریدی اور وہ ناقص نکل آئی ، اس میں کو ئی کیڑا مکوڑا نکل آیا آپ صارف عدالت جا کر اپنی رقم واپس لے سکتے ہیں ۔ آپ نے دکاندار سے معاہدہ کیا تھا کہ وہ فلاں تاریخ کو اتنی مقدار میں مجھے فلا ں چیز مہیا کرے گا وہ وقت پر مہیا نہیں کرتا یا معیار کم کر دیتا ہے آپ صارف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں ۔ آپ کسی بھی گورنمنٹ سیکٹر میں قانون کی خلاف ورزی ، میرٹ کی پامالی، رشوت ،ا قربا پروری کا کوئی مظاہر ہ دیکھتے ہیں تو آپ فور ا آن لائن شکایت درج کروا سکتے ہیں ۔

آپ راستے میں کسی کو لڑتے یا کسی مظلوم کے ساتھ ظلم ہوتا دیکھتے ہیں تو آپ فور 15پر کال کر کے اپنا فرض نبھا سکتے ہیں ۔کہیں آگ لگی ہو یا کو ئی ایکسیڈنٹ ہو جائے تو آپ بے ضمیر ہو کر نہ گزر جائیں اور فایر برگیڈ اور ریسکیو کو کال کر کے اپنا فرض پورا کریں ۔اگر آپ کہیں قانون کی خلاف ورزی دیکھ رہے ہیں ، سر عام رشوت لی جا رہی ہی ، ملازمین آپ کی بات نہیں سن رہے ، مریضوں کے ساتھ اچھی طرح پیش نہیں آیا جا رہا تو اگر آپ کے پاس اچھا موبائل ہے آپ فورا اس واقعے کی وڈیو بنا لیں اور متعلقہ حکام تک پہنچائیں۔

اگر گاڑی والا زائد کرائے کا مطالبہ کر رہا ہے تو آپ ہائی وے پولیس ، موٹر وے پولیس یا متعلقہ ٹریول ایجنسی کو کال کر کے اپنا احتجاج اور شکایت درج کروائیں ۔ کو ئی مردہ گوشت بیچ رہا ہے تو آپ کا ضمیر ضرور جاگنا چاہیئے۔ آپ کا کلرک آپ کا جائز کام نہیں کرتا ، پٹواری ہڈی ڈالے بغیر فرد نہیں دیتا تو آپ گوگل پے جائیں اور آن لائن اپنی شکایت درج کرواکر انہیں ٹھیک کروائیں اور ان کی انکوائریاں لگوائیں ۔

کو ئی دکاندار زائد قیمتیں وصول کر کر رہا ہے تو پہلے اسے خود سمجھائیں اگر نہیں سمجھتا تو شکایت آگے فارورڈ کر دیں ۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں اور چھوٹے چھوٹے مسائل ہیں لیکن حقیقت میں ہمارے معاشرے کے اصل مسائل یہی ہیں ۔ رشوت خوری، اقرباء پروری ، میرٹ کی خلاف ورزی ، جعلی ادویات ، بجلی چوری ، لڑائی جھگڑے ، پولیس کا رویہ ، لو کل گورنمنٹ کی شکایات ، زائد کرائے اور دکانداروں کی من مانی قیمتیں ۔

اگر ایک دفعہ ان مسائل کے خلاف آپ ایکشن لیں گے ، کسی کلرک کی انکوائری لگوائیں گے ، کسی دکاندار سے ہرجانے کا مطالبہ کریں گے یا کسی رشوت خور کو نوکری سے معطل کروائیں گے تو یقین کریں آئندہ یہ لوگ بھول کر بھی ایسی غلطی نہیں کریں گے۔
اب آخر میں ایک سوال ہے کہ یہ سب کام کون کر سکتا ہے اور کون کرے گا؟میرے خیال میں اس سوال کا واحد اور یکتا جواب یہی ہو سکتا ہے کہ ”اس ملک کے نوجوان “۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :