تحریکِ انصاف کی پہلی جیت

ہفتہ 9 مئی 2015

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

خواجہ سعدرفیق کے حلقہ 125 (لاہور) کے الیکشن ٹربیونل نے انتخاب کو کالعدم قراردے کر60 دنوں میں دوبارہ انتخاب کروانے کاحکم دے دیا۔ الیکشن ٹربیونل کافیصلہ آتے ہی سونامیوں کے ”تنِ مُردہ“ میں گویا جان پڑگئی ۔وہ رات گئے تک بھنگڑے ڈالتے اورمٹھائیاں تقسیم کرتے نظرآئے۔ہمیں ایک سونامیے نے کہا ”اَج میرانچنے نوں جی کردا“ تو ہم نے بھی مسکراکے کہاکہ یہ تواُس کاحق ہے کیونکہ یہ پہلی دفعہ ہے جب سونامیوں نے وقتی طورپر ہی سہی لیکن لیگیوں کو ”نُکرے“ لگایاتو ۔

تحریکِ انصاف کی پوری قیادت بھی سڑکوں پرجھوم رہی ہے۔میاں محمودالرشید ، عبد العلیم خاں اوراعجازچودھری خوشی سے نہال اورچہروں کی چمک پہلے سے کئی گنازیادہ ۔ وجہ یہ کہ کنٹونمنٹ بورڈکے الیکشن میں تحریکِ انصاف کی بُری ہزیمت کے بعداِن اصحاب کی توشامت آئی ہوئی تھی اوروہ ہرکس وناکس کی تنقیدکا نشانہ ۔

(جاری ہے)

اب خواجہ سعدرفیق کاانتخاب کالعدم قراردیئے جانے کے بعدوہ ایک دفعہ پھر ”ٹائیگر“بن گئے۔

شیریں مزاری کہتی ہیں”دھاندلی کے چہرے سے نقاب سرکنے لگا“۔ کپتان صاحب کافرمان” اب دھاندلی پرشک نہیں ہونا چاہیے ۔خواجہ سعدرفیق دو سال سے پارلیمنٹ میں”اجنبی“ تھے ،وزیرِاعظم بھی جلد”اجنبی“ ہوجائیں گے ۔نوازلیگ کب تک عوام کوبیوقوف بنائے گی۔ 2015ء الیکشن کاسال ہے “۔ اِدھرسونامیے جی بھرکے خوشیاں منا رہے ہیں اور اُدھرمُنہ بسورتے لیگئے کہتے ہیں کہ اگرصرف ایک حلقے کے انتخابات کالعدم قراردیئے جانے کوبنیاد بناکر عمران خاں صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن کافیصلہ اُن کے حق میںآ جائے گااور وہ 2015ء میں الیکشن کے بعددو تہائی اکثریت سے جیت کرایوانِ وزیرِاعظم میں جاپہنچیں گے تویہ محض ایسے ہی ہے جیسے”بلّی کوچھیچھڑوں کے خواب “
الیکشن ٹربیونل نے خواجہ سعدرفیق کے خلاف فیصلہ تودے دیا ،ٹربیونل کافیصلہ سَرآنکھوں پر لیکن اِس فیصلے نے بہت سے سوالات کوبھی جنم دے دیا، جس پرنوازلیگ کی طرف سے تحفظات کا اظہارکیا جارہاہے ۔

حلقہ 125 سے ہارنے والے امیدوار حامدخاں کہتے ہیں” کمیشن کے سامنے دھاندلی کے ثبوت پیش کیے تبھی تواُس نے الیکشن کالعدم قراردیا “۔لیکن الیکشن ٹربیونل کے فیصلے میں لکھا گیاہے”امیدواروں کادھاندلی میں ملوث ہوناثابت نہیں ہوا“۔عجیب بات ہے کہ ایک طرف توالیکشن ٹربیونل یہ تسلیم کرتاہے کہ انتخابی عملے سے غفلت ہوئی جبکہ دوسری طرف خواجہ سعدرفیق اورمیاں نصیر احمد کودو سال کی تنخواہیں اور مراعات واپس کرنے کاحکم بھی جاری کرتاہے ۔

گویا”ڈِگا کھوتے توں ،کَن مروڑے کمہاری دے“ ۔اگرغفلت انتخابی عملے سے ہوئی توسزا خواجہ سعدرفیق اورمیاں نصیراحمد کوکیوں؟۔ الیکشن ٹربیونل نے 265 پولنگ سٹیشن میں سے صرف7 پولنگ سٹیشنزکے تھیلے نادراکو تصدیق کے لیے بھجوائے اور نادراکی رپورٹ کے مطابق 125 ووٹ ایسے تھے جہاں ایک ایک ووٹرنے چھ ،چھ بارووٹ ڈالا۔ الیکشن ٹربیونل نے اسی کوبنیاد بناکر الیکشن کالعدم قراردیتے ہوئے دوبارہ انتخاب کاحکم دے دیا۔

سوال یہ ہے کہ کیا125 جعلی ووٹوں کو بنیادبنا کر حلقے کے تین لاکھ سے زائدووٹرز کوسزا کیسے دی جاسکتی ہے؟۔ خواجہ سعدرفیق توحامدخاں سے لگ بھگ 40 ہزارووٹوں کے فرق سے جیتے تھے ،کیا محض 125 ووٹوں کو بنیاد بناکر اُنہیں گھر بھیجاجا سکتاہے؟۔ سبھی جانتے ہیں کہ ایسی چھوٹی موٹی دھاندلی توہر جگہ ہوتی ہے ،آپ خواہ کسی بھی حلقے کے پولنگ سٹیشن کاجائزہ لے لیں ،وثوق سے کہاجا سکتاہے کہ اِس قسم کی دھاندلی ہرجگہ نظرآ جائے گی جوبَدانتظامی کاشاخسانہ ہوتی ہے ۔

ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ پولنگ سٹیشن پرتعینات انتخابی عملے کی مناسب ٹریننگ نہ ہونے کی بناپر ہی ایسی بدانتظامی سامنے آتی ہے ۔مجھے دورانِ سروس تین ،چاربار بطور پریذائیڈنگ آفیسر کام کرنے کاموقع ملااِس لیے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ انتخابی عملے کی ٹریننگ کاکسی بھی الیکشن میں مناسب انتظام نہیں کیا جاتا۔ انتخابی عملے کوچند گھنٹوں کے لیے ٹریننگ کی خاطربلایا ضرورجاتا ہے لیکن اُنہیں صرف ”انتخابی کتابچہ ہدایات“دے کرٹرخا دیاجاتا ہے ۔


آج تحریکِ انصاف خوشیاں منا رہی ہے لیکن شایدکسی بھی ”سونامیے“میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ وہ قوم کویہ بتلاسکے کہ تحریکِ انصاف نے الیکشن 2013ء کے بعد59 اپیلیں دائرکیں جن میں سے لَگ بھگ پچاس اپیلوں کا فیصلہ ہوچکااورکسی ایک اپیل کافیصلہ بھی تحریکِ انصاف کے حق میں نہیں آیا ۔حلقہ 125 کافیصلہ وہ واحدفیصلہ ہے جوتحریک کے حق میںآ یاجس پربھنگڑے ڈالے اورمٹھائیاں تقسیم کی جارہی ہیں۔

اِس فیصلے کے خلاف اگر نوازلیگ نے سپریم کورٹ میں اپیل دائرکر دی توامکانِ غالب ہے کہ فیصلہ خواجہ سعدرفیق کے حق میں ہی آئے گاکیونکہ یہ فیصلہ خامیوں سے مبرا نہیں لیکن ”جذباتی“خواجہ سعدرفیق توایک دفعہ پھر”لنگوٹ“ کَس کے انتخابی اکھاڑے میں اترنے کو تیارہے ۔یہ وہی حلقہ ہے جہاں سے تحریکِ انصاف تازہ تازہ کنٹونمنٹ بورڈکے انتخاب میں ہزیمت اٹھاچکی ہے اورفوج کی نگرانی میں ہونے کی وجہ سے تحریکِ انصاف نے اِن انتخابات کوقبول بھی کرلیا۔

الیکشن ٹربیونل نے 60 دنوں میں دوبارہ انتخاب کاحکم دیاہے لیکن خاں صاحب کہتے ہیں کہ جتنی دیرتک اِس حلقے کے” آراوز“ کے خلاف تادیبی کارروائی نہیں کی جاتی ،اتنی دیرتک الیکشن نہ کروایاجائے ۔ یہ محض تاخیری حربہ ہے کیونکہ خاں صاحب خوب جانتے ہیں کہ اگرکراچی کے حلقہ 246 کی طرح سی سی ٹی وی کیمروں اور رینجرزکی کڑی نگرانی میں بھی حلقہ 125 کاانتخاب کروایاگیا تونتیجہ وہی ہوگاجو پہلے تھا۔


محترم خاں صاحب نے ایک دفعہ پھر2015ء کوالیکشن کاسال قراردے دیاہے ۔اگر خاں صاحب کوحلقہ 125 کے الیکشن ٹربیونل کی طرح باقی ٹربیونلزپر اعتمادہے اوریہ ٹربیونل اُن کے ”معیار“پر پورے اترتے ہیں توپھر 2015ء میں تو الیکشن ہوتے نظرنہیں آتے کیونکہ اِن ٹربیونلزنے کل 387 انتخابی عذرداریوں میں سے 355 کے فیصلے سنادیئے، کچھ لوگ نااہل بھی قرارپائے لیکن کسی ایک کی بنیادبھی ”منظم دھاندلی“ نہیں تھی ۔

ویسے توتحریکِ انصاف نے تحقیقاتی کمیشن میں منظم دھاندلی کاکوئی ایک بھی قابلِ قبول ثبوت پیش نہیں کیا لیکن اگرجوڈیشل کمیشن صرف الیکشن ٹربیونل کے فیصلوں کو ہی مدِنظر رکھتے ہوئے کسی نتیجے پرپہنچنے کی کوشش کرے توپھربھی منظم دھاندلی توثابت نہیں ہوسکتی اور اگر منظم دھاندلی نہیں تو پھر 2015ء الیکشن کاسال بھی نہیں۔ اگرتحریکِ انصاف یہ سمجھتی ہے کہ جوڈیشل کمیشن محض خواجہ سعدرفیق صاحب کے حلقے کومدِنظر رکھتے ہوئے کسی نتیجے پرپہنچے گااور باقی تمام ٹربیونلزکے فیصلوں سے صرفِ نظرکرے گاتو یہ اُس کی بھول ہے اور”دِل کے خوش رکھنے کوغالب یہ خیال اچھّاہے“۔

جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم ہے اورتحقیق کہ اُس نے کسی بھی نتیجے پرپہنچنے کے لیے اپنی راہیں خود متعین کرنی ہیں، کسی فیصلے کومدّ ِنظر رکھ کے نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :