گلاں کرکے مکرے جیہڑا

منگل 5 مئی 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

عموماً بات کرکے اس پر ڈٹ جانے والے کو ”مرد “ کہاجاتا ہے، یہ وہ والا مرد نہیں جس کی تخصیص جنس کے اعتبار سے کی جاتی ہے، بلکہ یہ وہ والی شخصیت ہوتی ہے جس کے ضمن میں کہاجاسکتا ہے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہل جائے مگر وہ ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹائے۔ اس حوالے سے دیکھاجائے تو فی زمانہ کوئی بھی اس فارمولے پرپورااترتا دکھائی نہیں دیتا ۔اپنے ” بھائی“ سے امیدتھی مگر وہ بھی دو چار نہیں کئی قدم پیچھے ہٹ گئے،یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا ،استعفیٰ دیکر خود سے ہی مان جانا ،بالکل ہی ”زنانہ سٹائل“ میں روٹھنا اور پھر خود سے ہی مان جانا ”بھائی “ کاوطیرہ ہے۔ ایک لطیفہ ہے کہ کسی نے ایک کم سن بچے سے پوچھا کہ ”استعفیٰ “ کسے کہتے ہیں، بچہ بھی دور جدید کاہی تھا جھٹ سے بولا ”وہی جو ہرروز ”بھائی“ دیتے ہیں او ر اگلے ہی روز واپس لے لیتے ہیں۔

(جاری ہے)

ہمیں تو خدشہ رہنے لگا ہے کہ کہیں آنیوالے وقتوں میں بھائی ضرب الامثال نہ بن جائیں، جیسا کہ ماضی میں کہاجاتاتھا کہ ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ اب بھائی لوگوں نے یہ ضر ب المثل بھی تبدیل کردی ہے ”جس کی بھینس اسی کی لاٹھی“ اب پہلے لاٹھی نہیں بھینس ہتھیائی جاتی ہے اورپھر اس کو لاٹھی کے ذریعے کنٹرول کیاجاتاہے
بھائی نے ”حساس “ اداروں کے حوالے سے حسب سابق ،حسب معمول ،گنگناتے ہوئے اورلہر میں آکر عجیب سی باتیں کہہ ڈالیں بلکہ جب گنگنانے کا نشہ زیادہ ہو ا تو دشمن ملک سے ”مدد “ بھی مانگ لی ۔ گویا بھائی نے بھائی ہونے کا ثبوت نہیں دیا ۔ ظاہر ہے کہ جو دشمنوں سے مدد مانگے ،بھلا وہ کیسے بھائی ہوسکتاہے ۔خیر جی بڑی ہی ہلچل سی مچی ہوئی تھی ،جس کو دیکھو وہ بھائی کے ہی ”گن“ گارہا تھا۔ بھائی کو بھی احساس ہوگیا کہ وہ ”گیت نگاری کی لہر “ میں کچھ زیادہ ہی بہہ کر آپے سے ہی باہر نکل آئے سوانہوں نے ”آپے“ کو سنبھالا اور پھر لگے معذرت کرنے۔
لگتا ہے بھائی کو خبروں میں رہنے کی عادت ہوگئی ہے خیر ”ٹیلیفونک خطاب“ تو ان کا ایسا مشغلہ ہے جو نہ آغاز جوانی میں بدل سکا اورنہ ہی اختتام جوانی پر بدلنے کی کوئی امید نظرآتی ہے۔ سنا ہے جب بھائی پاکستان میں بھی تھے تو”ٹیلیفونک خطاب“ کیاکرتے تھے۔ یاران وطن حیران ہونگے کہ بھائی ”بیرون ملک“ کس سے ٹیلیفونک خطاب کیاکرتے تھے تو بات سیدھی سی ہے کہ وہ بیرون ملک نہیں بلکہ اندرون ملک ہی ٹیلیفونک خطاب کرکے اپنا ”شغل“ پوراکرلیا کرتے تھے۔ ہم کم ازکم یہ بات بڑے ہی دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ بھائی جب پاکستان میں تھے بھی تو انہوں نے کراچی کے علاوہ کسی دوسرے شہر جانا گوارہ نہیں کیا، لگتا ہے کہ انہوں نے شکی مزاج بادشاہوں کی کہانیاں پڑھ رکھی ہونگی جنہیں خدشہ رہتا تھا کہ جونہی وہ محل سے نکلے تو کہیں سازش کرنیوالے تخت پر قابض نہ ہوجائیں۔ مگربھائی کا تخت ایسا ہے کہ کوئی اس پر بیٹھنے کو تیار نہیں ، ہرکوئی چاہتا ہے کہ بھائی ہی اپنے تخت پربیٹھے رہیں۔ بھائی کے چاہنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ وہ تخت ہے جس پرکوئی نہیں جچتا ،سو ان کی خواہش ہوتی کہ بھائی ہی اسی تخت پر قدم رنجا فرمارہیں
عموماً حسن وعشق کی داستانوں میں وعدہ کرکے مکر جانے کا تذکرہ بہت ہی زیادہ کیاجاتا ہے سیاست میں یوں بھی وعدوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ سیاست اور وعدوں سے یاد آیا کہ سیاست میں تو ”معاہدوں“ کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہوتی وعدے رہے اپنی جگہ، بقول سابق صدر زرداری ”معاہدے “ کوئی آسمانی صحیفے تھوڑی ہیں کہ توڑے نہ جاسکیں ۔سابق صدر نے جب یہ ارشاد فرمایاتو شنید ہے کہ ”بھائی “ قہقہہ لگاکر ہنس پڑے اور پھر ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوکر بولے ”بھائی کی بات مان لی ناں“
صاحبو! باتیں بہت سی ہیں اوریقین کریں کہ دل بھی چاہتا ہے کہ ان باتوں کو بڑھایاجائے بالکل پانی والی لسی کی طرح جو بالاخر دیکھنے کی حد تک ہی سفید رہ جاتی ہے ورنہ اس کا ذائقہ بالکل ہی ختم ․․․․․ہر بار یہی لگتا ہے کہ ”بھائی“ جس لسی میں باربار پانی ڈال کر اسے بڑھاتے ہی جارہے ہیں وہ ظاہراً ہی سفید دکھائی دینے لگی ہے ورنہ اسکاذائقہ․․․․․․․․․․․ خیر یہ جملہ معترضہ ہے کہ بھائی کا تعلق اس قبیلے سے نہیں ہے جو ”کھانے“ پرزیادہ دھیان مرکوز رکھتا ہے بلکہ ان کی توجہ تو ”مولاجٹ “ قسم کی بڑھکوں پر رہتاہے ۔یقین کریں کہ ہم نے ایسے کئی ادھیڑ عمر جوانوں کو بھی دیکھا ہے جو ماضی میں سلطان راہی کی بھڑکیں سن کر خوشی خوشی ،قہقہے لگاتے ،للکارتے سینما حال سے نکلاکرتے تھے اب وہی کام اب وہ گھربیٹھے کررہے ہیں ، ہاں ایک فرق ضرورہے کہ ”حاجی صاحب“ گنگناتے کبھی نہیں تھے۔ بیچاری آسیہ ،انجمن ،گوری قسم کی کئی ”گوریاں“ زور لگالگاکر تھک گئیں مگر راہی صاحب نے کبھی ان کے سامنے گنگنانے کی زحمت نہیں کی البتہ سنا ہے کہ وہ ایسی خواہشوں پر ”شرما“ جایاکرتے تھے مگر ایک ”بھائی ‘’‘ ہیں کہ اللہ معافی۔ کوئی فرمائش نہ بھی کرے تو ملہار، ٹھمری اور نجانے کتنے راگوں کو ملاکر ایسی ایسی سنادیتے ہیں بلکہ انہیں اگر کہاجائے کہ ”بے نقط “ سنادیتے ہیں ،تو بیجانہ ہوگا۔اندرون سندھ کے رہنے والے پکے سندھیوں کاخیال ہے کہ ”بھائی“ کی راگنیاں بے وقت کی ہی ہوتی ہیں جب گانے کاوقت ہوتا ہے تو بھائی غصے ہوجاتے ہیں اورجب غصے ہونے کی باری آتی ہے تو بھائی منہ بسورتے گنگناتے دکھائی دیتے ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ بندہ ”کٹ “ کھاکے ہنس پڑے اور کوئی اچھی خبر ملنے پر قہقہے لگاکر روپڑے اور آنکھیں بھی آنسوؤں سے تر ہوں کہ بیچارہ سمندر بھی پانی کاطلبگار ہوجائے۔
خیر بھائی نے اپنے ”ارشادات عالیہ“ پر معافی مانگ لی شنید ہے کہ ن لیگیوں نے تو انہیں ”کھلے دل “ سے معاف کردیا پتہ نہیں جن پر ”دشنام طرازی “ کی گئی ہے وہ لوگ بھی انہیں معاف کرپاتے ہیں یا نہیں یہ الگ بات ہے ورنہ کراچی کی حدوں سے جونہی باہر نکلیں تو بھائی کے خلاف کاروائی کے نعرے ضرور سنائی دینگے اورپھر خیبر پختونخواہ کی گلیوں سے نکل کر یہ نعرے پنجاب کی سرحدوں تک اور پھر بلوچستان کے اونچے پہاڑوں کی چوٹیوں سے بھی یہی نعرے سنائی دیتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :