مولانا کا پارلیمانی سفر … تردید ایک الزام کی

منگل 5 مئی 2015

Muhammad Hussain Rai

رائے محمد حسین کھرل

اعتدال مولانا کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے اور شاید یہی اعتدال قوم کے مجموعی مزاج کے خلاف ہے، کہ ہرمعاملہ میں تشدد ہماراوطیرہ ٹھرا ۔
مولانا کی معتدل مزاجی ہی ان کے ہر حکومت کے ساتھ ہونے کا تاثر دیتی ہے کہ ہمارے ہاں مخالف وہ ہے جومدمقابل کی ایسی تیسی صرف رویے اور لب و لہجے سے کرے نہ کہ دلیل سے مولانا پر ہر حکومت میں شامل ہونے کا الزام زبان زد عام ہے۔


آیئے جائزہ لیتے ہیں ۔ کہ کون سی حکومتوں میں مولانا شامل رہے ۔
مولانا پہلی دفعہ 1988کے الیکشن میں حصہ لے کر کامیاب قرارپاتے ہیں اور اپنی پارلیمانی زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔
1988کے عام انتخابات اور بینظیر حکومت کا قیام
88کے انتخابات میں 207کے ایوان میں پارٹی پوزیشن کچھ یوں تھی پی پی پی 94آئی جے آئی 56، جے یو آئی 7، پاکستان عوامی اتحاد 3، آزاد 40، اے این پی 2، بی این پی 2،اور ایک ایک نشست مزید تین چھوٹی جماعتوں کے حصے میںآ ئی ، پی پی پی فاتح قرار پائی ، بینظیر وزیراعظم منتخب ہوئی اور جے یو آئی اپوزیشن نشستوں پر بیٹھی 1988کے صدارتی انتخابات مولانا نے نوابزادہ نصر اللہ خان کا نام بطور صدارتی امید وار کے نامزد کیاتو مقتدر حلقوں میں کھلبلی مچ گئی۔

(جاری ہے)

مولانا کی جی ایچ کیو میں طلبی ہوئی اور جنرل اسلم بیگ نے اپنے امیدوار غلام اسحاق خان کے مطابق نوابز ادہ صاحب کا نام پیش کرنے پر مولانا سے نہ صرف خفگی کا اظہار کیا بلکہ نام واپس لینے پر زور دیا ، لیکن مولانا نہ مانے مولانا نے بینظیر کو بھی قائل کرنے کی کوشش کی، لیکن بینظیر نے صاف لفظوں میں کہاکہ آپ چاہتے ہیں کہ وہ مجھے بھی اپنے باپ کی طرح لٹکا دیں؟
یوں بینظیر نے تو اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سرتسلیم خم کردیا، لیکن مولانا اپنی سیاست کے آغاز ہی سے مقتدر حلقوں کے لیے بھاری پتھر ثابت ہوئے ۔


صدر پاکستان غلام اسحاق خان نے محض 20ماہ بعد بینظیر حکومت کوچلتا کیا تو عام انتخابات کا انعقاد نا گزیر ٹھرا۔
1990کے عام انتخابات 90کے الیکشن میں مولانا تو کامیاب نہ ہوئے ، لیکن جے یو آئی 6نشستوں پر کامیاب قرارپائی۔ باقی پارٹی پوزیشن کچھ یوں تھی ۔ آئی جے آئی 106، پیپلز ڈیموکریس الائنس 44، حق پرست گروپ 15، اے این پی 6، جے یو پی (نورانی)3 ، آزاد 33، پاکستان نیشنل پارٹی 2، جمہوری وطن پارٹی 2، اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) فاتح ٹھرا ، نوز شریف وزیر اعظم منتخب ہوئے اور جے یوآئی اپویشن میں بیٹھی۔


اسلامی جمہوری اتحاد کا مختصر پس منظر (جملہ معترضہ)
جنرل اسلم بیگ اور جنرل حمید گل کی حقیقی اور غلام مصطفےٰ جتوئی کی بظاہر قیادت میں نو جماعتوں کو اکٹھا کیا گیا اور قومی خزانے سے اس کی پرورش کی گئی۔
بعد ازاں جس کا اعتراف مختلف لوگوں نے مختلف موقعوں پر کیا ۔مہران بنک اسکینڈل کے نام سے جس کی باز گشت آج تک سنی جاتی ہے۔

بظاہر جس کا مقصد پی پی پی کی مخالفت اور حقیقتاً اس وقت کی مقتدر قوتوں کے چہیتے اور جنرل ضیاء کے منہ بولے بیٹے نوازشریف کو بطور قومی قائدمتعارف کرنا تھا۔ اور یہ خدمت جماعت اسلامی نے محاورة ً نہیں حقیقتاً میاں صاحب کو کندھوں پر اٹھا کر بخوبی سر انجام دی۔ آج کل کپتان کی کی جانے والی خدمت تو اس کا عشرعشیر بھی نہیں ، جبھی تو اس دورمیں سیاسی آنکھ کھولنے والے لیگی کارکن کے ہاں جماعت اسلامی کے حوالے سے نرم گوشہ پایا جاتا ہے اور مولانا معتوب ٹھہرتے ہیں۔


جی ہاں جنرل ضیاء کی آمریت کے خلاف جدوجہدکی پاداش میں قید و بندکی صعوبتیں اٹھانے والے مولانا نے اسٹیبلشمنٹ کی گود میں پرورش پانے والے اس اتحاد کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس جرم انکارکی سزا مولانا کو 90کے الیکشن میں شکست کی صورت برداشت کرنا پڑی اور آئی جے آئی کے منتخب وزیراعظم میاں نوازشریف نے جے یو آئی کے خلاف ر یشہ دوانیوں کاکوئی موقعہ فروگزاشت نہیں کیا۔


ایک موقعہ پر جب جے یو آئی کے دونوں دھڑوں میں اتحاد ہوا تو شیخ الحدیث مولانا عبداللہ درخواستی پر اتحاد ختم کرنے کے لیے دباوٴ ڈالنے کو پچیس علماء کا وفدسرکاری طیارے سی 130میں اسلام آبا د سے رحیم یار خان پہنچا۔ بہر حال ریشہ دوانیوں کی یہ کہانی اپنے اندر ایک طوالت رکھتی ہے۔
مولانا حکومتوں کاحصہ تو نہیں رہے لیکن، جب بھی مشکل حالات میں حکمرانوں کو کوئی در نہ سو جھا، تا بکے صائب مشوروں کے لیے مولانا کا وجود انہیں رحمت ایزدی نظر آیا۔

کیونکہ مولانا خواہ اپوزیشن میں کیوں نہ ہوں،صاحب مشورہ انہوں نے ہمیشہ امانت جانا اور اس پر مستزاد وہ قا ئدانہ صلاحتیں جو ان پر ان کے والدبزرگوارکی طرح ودیعت خداوندی ہیں۔
72کے دستور ساز اسمبلی میں صرف چارارکان کے گروپ کیساتھ مفتی محمود  نے اہم اسلامی دفعات کو دستور کاحصہ بنانے میں کامیابی حاصل کی۔
قومی اسمبلی میں جے یو آئی کے سات ارکان کے ساتھ مفتی صاحب سالہاسال اپوزیشن لیڈررہے۔


سرحد اسمبلی کے 40رکنی ایوان میں، جے یو آئی کے 6ارکان کے ساتھ مفتی صاحب وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے ۔
بلو چستان کے 20رکنی ایوان میں مفتی صاحب کی جے یوآئی کے صرف تین ارکان تھے جن میں سے ایک صوبائی وزیراوردوسرے ڈپٹی اسپیکر بنے۔
تنظیم یا عددی لحاظ سے معاصر جماعتوں کے ہم پلہ نہ ہونے کے باجود 77میں 9جماعتی اتحاد” پاکستان قومی اتحاد“ کی سربراہی کا سہرا مفتی محمود  کے سر سجا۔


جبھی نشستوں کے اعدادوشمار کے تناظر کی بجائے مولانا فضل الرحمن کی”ذات“ ہمیشہ قومی سیاست میں نمایاں ٹھری ،کیوں نہ ٹھہرے آخرمفتی صاحب کافیضان ہے۔
1993میں آئی جے آئی نے جے یوآئی سے وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو لیا، لیکن جے یو آئی کی ترجیحات کو عددی اکثریت کے گھمنڈ میں نہ صرف درخور اعتنانہ سمجھا بلکہ میاں صاحب کا رویہ سوتا پا رہا ،اپوزیشن میں رہتے ہوئے جے یو آئی کے حصے میں حکومتی اوچھے ہتھکنڈے آئے۔

1993کے انتخابات اور بینظیر حکومت کاقیام 1993کے انتخابات میں جے یو آئی نے جے یو پی (نورانی) کے ساتھ مل کر ” اسلامی جمہوری محاذ“ کے نام سے الیکشن لڑا، جے یو پی تو کسی نشست پرکامیابی حاصل نہ کر سکی، مگرجے یو آئی کے حصے میں 4نشستیں آئیں۔ 207کے ایوان میں پی پی پی 89نشستوں کے ساتھ فاتح قرار پائی ،جو نیجو لیگ نے 6نشستوں کیساتھ، آزاد16اراکین میں سے بیشتر اور دیگر چھوٹی جماعتوں نے پی پی پی کی حمایت کی اوریوں بینظیر کی اتحادی حکومت وجود میں آئی۔


جے یو آئی نہ صرف اپوزیشن میں بیٹھی ، بلکہ ن لیگ کو اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا ووٹ بھی دیا۔ نواز شریف کے سابقہ رویوں کی وجہ سے اسے وزارت عظمیٰ کا ووٹ دینے سے انکار کر کے وزارت عظمیٰ کے الیکشن کے میں حصہ نہیں لیا۔
اور یہی وہ جرم عظیم ہے جس پر اس دور کا لیگی آج تک جے یوآئی پرچیں بجبیں ہے ۔جے یو آئی پر عورت کی حکمرانی کی حمایت کی پھبتی کسی جاتی ہے۔

حالانکہ کوئی ایک موقعہ ایسا ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ جمعیت نے عورت کو حکمرانی کے لیے ووٹ دیا ہو۔ پارلیمانی نظام میں ووٹ دینے ہی کو حمایت کہتے ہیں ناں؟
جب ووٹ ہی نہیں دیا تو حمایت کیسی ؟
ہاں الرجال قوامون اعلیٰ النساء جن کے ورد زبان تھا ان کی تاریخ میں جھانکیے وہ صالحین ضرور آپ کو محترمہ فاطمہ جناح کو 65کے صدارتی
الیکشن میں ووٹ دیتے نظر آئیں گے۔

یہ تاریخ کے ساتھ کیسا کھلا تضاد ہے۔ جو 1965میں عورت کو حکمرانی کے لیے ووٹ دیں اور 1990میں قوم کو عورت کی حکمرانی کے خلاف و عیدیں سناتے پھریں وہ تو ٹھریں پارسا اور جو عورت کو بطور منتظم صرف برادشت کریں وہ معتوب۔
1993کے صدارتی انتخابات :
وفاقی شرعی عدالت کا استحکام ،اسلامی نظریاتی کونسل کی فعالیت ،کونسل میں جمعیت کی نمائندگی ، آٹھویں ترمیم میں اسلامی دفعات کو بدستور برقرا ررکھنا، آئندہ سینٹ الیکشن میں بلوچستان سے جے یو آئی کے امیدوار کی حمایت ،سود کے متبادل اسلامی نظام معیشت کو رائج کرنا، ذکری مسئلہ کے حل کے لیے ارکان پارلیمنٹ کے وفد کو مکران بھیجنا۔


جیسے دس نکاتی تحریری معاہدے کے بعد جے یو آئی نے فاروق لغاری کی حمایت کی اس موقع پر پی پی پی کی طرف سے دووزارتوں کی پیشکش کے ساتھ جے یو آئی کو حکومت میں شمولیت کی دعوت ملی، جسے جے یو آئی نے قبول نہ کیا اور بدستور اپوزیشن میں رہی۔
اسی دور میں مولانا قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے چیئرمین رہے جسے بعض معترضین حکومتی حصہ اور بعض نوازش خاصہ قرار دیتے ہیں۔


درحقیقت یا تو یہ پارلیمانی کمیٹی سسٹم سے ناشنا سائی کا نتیجہ ہے اور یا پھر بغض ۔
آیئے پارلیمانی کمیٹی سسٹم کا تھوڑا جائزہ لیتے ہیں۔ قائمہ کمیٹیاں متعلقہ وزارتوں کی کارکردگی کی نگرانی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، پارلیمانی جمہوریتوں میں کمیٹیوں کو پارلیمان کی آنکھ ، کان، ہاتھ اور حتی کہ دماغ تک سمجھا جاتا ہے۔
1993میں 32اور اب قومی اسمبلی کی (ورکنگ) قائمہ کمیٹیوں کی تعداد 37ہے۔

جن میں ہر متعلقہ وزارت کی 30کمیٹیوں کے علاوہ 5غیر وزارتی اور اسمبلی رول 244کی روشنی میں قائم2اسپیشل کمیٹیاں شامل ہیں۔ جن میں شمولیت کے لیے تمام جماعتوں اور اراکین کو موقعہ دیا جاتاہے۔کہ آپ کس کمیٹی میں کام کرنا چاہیں گے، اس کے بعد اسپیکر فیصلہ کرتا ہے اور اراکین کمیٹی چیئرمین کا چناوٴ کرتے ہیں۔ ان کمیٹیوں میں ” احزاب اقتدار و اختلاف “ دونوں کو کام کا موقعہ دیا جاتا ہے۔

کیونکہ یہ کمیٹیاں حکومتی نہیں بلکہ پارلیمانی نظم کا حصہ ہوتی ہیں ۔
مولانا کے ناقد ین کو خبر ہو کہ نواز شریف کے دور حکومت میں قائد حز ب اختلاف محترمہ بینظیر اسی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کی چیئرپرسن تھی اور بینظیر کے دور حکومت میں ن لیگ کے سرتاج عزیز سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے چیئرمین تھے۔
اور جائیے ملاحظہ کیجئے ،موجودہ اپوزیشن میں متشد د ترین جماعت پی ٹی آئی کے اسد عمر چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار،گلزار خاں ، چیئرمین قائم کمیٹی برائے ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ ، ق لیگ کے طارق بشیر چیمہ چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور اپوزیشن لیڈر خوریشد شاہ پبلک اکاوٴنٹ کمیٹی کے چیئرمین نظر آئیں گے۔


1997کے انتخابات میں ن لیگ کے لیے بھاری مینڈیٹ کے حصول کا وہ طوفان اٹھا گیا، جس کے سامنے پی پی پی جیسی تناور جماعت اور بڑے بڑے مضبوط سیاستدان نہ ٹھہر سکے۔ مولانا بھی اس الیکشن میں کامیاب نہ ہوئے اور جے یو آئی کے حصے میں قومی اسمبلی کی صرف دو نشستیں آئی،
2002کے انتخابات میں جے یو آئی نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیا ،وزارت عظمیٰ کے انتخاب میں 342کے ایوان سے ظفر اللہ جمالی کو 172مولانا کو 86اور شاہ محمود قریشی کو 70ووٹ ملے ،مولانا اپوزیشن لیڈر قرار پائے ۔


یہی وہ دور تھا جب نوابزادہ نصر اللہ خان، آصف زرداری جاوید ہاشمی اور نواب اکبر خان بگٹی نے مولانا کو وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کیا، اور طے پایا کہ سرحد، سندھ اور بلوچستان میں بھی یہیں لوگ اتحادی حکومتیں بنائیں گے۔ لیکن جب تمام معاملات طے پا گئے تو یہ خبر کسی طرح امیریکی سفیر ننسی پاول تک پہنچ گئی،امریکہ نے پی پی پی کی جلا وطن سربارہ بینظیر بھٹو پر دباوٴ ڈالا کہ ان کی جماعت اس اقدام سے باز رہے۔


اسی دور میں ایم ایم اے قیادت نے پرویز مشرف کو وردی اتارنے پر آمادہ کیا اور ستر ہویں ترمیم کی مشروط حمایت کی، جس پر بعد
ازاں وہ مطعون ٹھری ،حالانکہ اک مخصوص ڈگر پر رواں نظام زندگی کا دھارا موڑنا مقصود ہو تو مستقبل کے ممکنہ خاکے کو مد نظر رکھتے ہوئے قیادت غیر مقبول فیصلوں سے قطعاً نہیں چونکتی۔
ویسے تو تاریخ عالم سے اس کی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن ہمارے لیے صلح حدیبیہ کا معاہدہ اس حوالے سے مشعل راہ ہے۔

مستقبل کے ممکنہ خاکے کو مد نظر رکھ کر حالات کے جبر کے تحت اٹھایا گیا بابائے قوم کا ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا حلف بھی ایک ایسا ہی فیصلہ ہوسکتاہے۔
ستر ہویں ترمیم یعنی ایل ایف او کی حمایت بھی ایم ایم اے کا ایک ایسا ہی فیصلہ تھا۔ جس کا پس منظر پرویز مشرف کا وردی اتارنے کا وہ وعدہ تھا جس کا اظہار اس نے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے پوری قوم سے کیا ، چاہیے تو یہ تھا کہ ایم ایم اے قیادت کو اس کا کریڈٹ دیا جاتا اور آمر پر پریشر بڑھایا جاتا لیکن میڈیا نے بوجوہ ایسی الٹی گنگا بہائی کے ایم ایم قیادت کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا اور آمر کو وعدہ فراموشی کا ماحول میسر آیا۔


2008کے انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں قومی حکومت تشکیل پائی جس میں ق لیگ کے علاوہ تمام قومی جماعتیں شریک ہوئیں، بعد ازاں ن لیگ اور جے یو آئی جس سے مختلف موقعوں پر الگ ہو گئی۔
2013کے انتخابات کے نتیجے میں جے یو آئی اپنے حصے کی 13نشستوں کے ساتھ ن لیگ کی حکومت کا حصہ ہے۔ مولانا کی سیاسی زندگی میں 1988سے 2013تک سات انتخابات ہوئے اور ان کے نتیجے میں حکومتوں نے وجود پایا۔

جے یو آئی ان 7میں سے صرف 2حکومتوں ، سابقہ اور موجودہ میں شامل ہوئی ۔
جن میں سے ایک (سابقہ ) کے ساتھ شراکت برقرار نہ رہ سکی۔ یوں ہر حکومت کا حصہ ہونے کا طعنہ سراسر بہتان ہے۔ باجود یکہ حکومت بنانا یا شریک حکومت ہونا قطعاً معیوب نہیں، کیونکہ میدان سیاست کے کار زار کی نبردآزمائی سراسر لا حاصل ٹھہرے اگر ایوان اقتدار تک رسائی مقصود نہ ہو۔

اعتدال مولانا کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے اور شاید یہی اعتدال قوم کے مجموعی مزاج کے خلاف ہے،کہ ہرمعاملہ میں تشدد ہماراوطیرہ ٹھرا ۔ مولانا کی معتدل مزاجی ہی ان کے ہر حکومت کے ساتھ ہونے کا تاثر دیتی ہے ،کہ ہمارے ہاں مخالف وہ ہے جومدمقابل کی ایسی تیسی صرف رویے اور لب و لہجے سے کرے نہ کہ دلیل سے۔
(مضمون ہذا کی تیاری کے لیے قومی اسمبلی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ریکارڈ سے استفادہ کیا گیا)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :