پتنگ سرکار

جمعہ 1 مئی 2015

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

موسم گرما کے آغاز کے ساتھ ہی یہ جھگڑا کھڑا ہو جاتا ہے کہ دکانیں اور مارکیٹیں کتنے بجے بند کی جائیں، حکومتوں کی سوئی 8بجے پر اٹک جاتی ہے جب کہ کاروباری انجمنیں اور دکان دار دس بجے سے پہلے کسی صورت بند کرنے کو تیار نہیں ہوتے ،یہ مشق بلا ناغہ ہر سال ہوتی ہے ، اس سارے بگا ڑ کا الزام تو بے چاری بجلی کی کمزور صحت کو لگتا ہے ، بجلی زیادہ ہو تو دکانیں بھلے بارہ بجے بند ہوں ،یا بند ہی نہ ہوں، لیکن گرمیوں میں گھنٹوں بجلی دیکھنے کو نہیں ملتی تو بھلا دکان داروں کو کیسے دے دی جائے ، بجلی کے کندھے پر رکھ کر حکومت بھی توپیں چلاتی ہے اور دکان دار بھی یہی رونا روتے ہیں، اصل بیماری رات کو دیر سے سونے کی ہے ، جب تک قوم رات کو جلد سونے کی عادی نہیں ہو گی ،تب تک صبح جلدی اٹھ ہی نہیں سکتی ، کیا خریدار ، کیا بیو پار ، سب کو آدھی نیند دن میں کرنے کی لت لگی ہوئی ہے ،دعوی تو سب یہی کرتے ہیں کہ اصل نیند رات کی ہے مگر مزہ دن کی نیند میں زیادہ ہوتا ہے ،پکے پکے نمازی بھی فجر پڑھتے ہی دھڑام ہو جاتے ہیں۔

(جاری ہے)


موسم گرما میں دفاتر کا وقت سات بجے سے ہونا چاہیے ، چھٹی تین بجے ، دکان دار نو بجے دکانیں کھول لیں،اور عشا کی اذان کے ساتھ ہی بند کر دیں اللہ اللہ خیر صلا ۔ خریداری کا شعبہ یوں بھی خواتین کے ذمے ہوتاہے ۔ سچ جھوٹ اللہ جانے لیکن سنا ہے خواتین زیادہ اچھی خریداری تب ہی کرتی ہیں جب کہ ان کے مرد ساتھ نہ ہوں ،ورنہ خواہ مخوا رنگ میں بھنگ پڑ جاتا ہے ، خریدار ی کا ذوق رکھنے والے مرد عصر سے عشا کے دوران خریداری کر سکتے ہیں ، مردوں کے ساتھ خریداری کا شوق رکھنے والی خواتین بھی ۔

رات کے کھانے کے لیے سالن دن میں بنا لیا جائے، روٹی چپاتی میں اتنا وقت نہیں لگتا ۔ جمعے کے دن جمعے سے پہلے دکانیں نہ کھلیں ،اور اتوار کے روز دوپہر تک دکان دار حاضر باش ہوں ، قوم اپنی سستی کاا لزام بجلی کو دے نہ حکومت خواہ مخوا کی پھرتیاں دکھائے۔
####
شدید بارشوں اور آندھی طوفان کے اکیس گھنٹے بعد وزیر اعلی کے پی کے کہیں نہ کہیں سے بر آمد کر لیے گئے، اور چار و ناچار عمران خان بھی اپنی ریحام خان کے ساتھ پشاور پہنچ گئے ، مخالفین کے خیال میں اتنی دیر سے آنے کا مقصد فوٹو سیشن ہی ہو سکتا ہے بات تو مخالفین کی بھی ٹھیک ہی ہے، فوٹو سیشن بھی ڈھنگ کا ہونا چاہیے ، جیسے گھٹنوں گھٹنوں پانی میں ربر کے بڑے بڑے جوتے پہنے ادھر ادھر پھرتے وزیر اعلی پنجاب چھوٹے میاں صاحب کا ہوتا ہے ، کوئی کہہ ہی نہیں سکتا کہ وزیر اعلی پنجاب بارش میں کسی کو نظر نہیں آئے ۔

پرویز خٹک چھوٹے میاں صاحب کے ساتھ ایسے موسم میں ڈیرھ دو ہفتے گزاریں ، مخالفین کا منہ بند کرنے کی خاطر خوا تربیت ہوجائے گی۔
####
الطاف بھائی ایک بار پھر عوامی امنگوں کے مطابق صوبہ کراچی کا مطالبہ پیش کر رہے ہیں اور آصف علی زرداری بھی عوامی رائے کے عین مطابق اس مطالبے کے آگے بند باندھنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں ، کراچی والوں کے خیال میں سندھ کے لیڈروں نے صوبہ کراچی کو کالا باغ ڈیم مسئلہ بنا لیا ہے ، جان دے دیں گے ، صوبہ نہیں بننے دیں دے ، بھلا آپ کی جان کو کسی نے کیا کرنا ہے، جان اپنے پاس رکھیں ، نئے صوبے میں اگر کچھ برا ہے تو بھلا بھی ہوگا۔

الطاف بھائی بھی یہ ضرور سوچیں ان کے مخالفین کہتے ہیں پتنگ والی سرکار بلیک میلنگ کے لیے چند دن صوبہ صوبہ کھیلتی ہیں ، پھر لمبی تان کرسو جاتی ہیں۔ ادھر سندھ والے کہتے ہیں ،ہم پہلے ہی غریب ہیں مزید غریب کر دیے جائیں ، کراچی جانے کے بہانے ختم ہو جائیں گے ،سارے کام روہڑی سکھر میں ہونے لگیں توزندگی کا مزہ ہی کیا ، مزہ تو کراچی جا کر ہی آتا ہے۔


####
نیپال میں زلزلہ آیا تو پاکستانی ماہرین بھی ایک بار پھر جاگ اٹھے ہیں ، ان کا کہنا ہے ،پورا پاکستان زلزلوں کی زد میں ہے ، ادھر امریکی ماہرین کے خیال میں تیل کی تلاش میں زمین کھودنے پر زیر زمین نظام میں گڑ بڑ ہوتی ہے اور زلزلے تباہی مچاتے ہیں، پاکستان میں زلزلہ آئے تو یہاں کے بعض وطن دوست لوگوں کی رائے ہوتی ہے یہ زلزلہ امریکی شرارت ہے ، ایسے ہی جب بارشیں زیادہ ہوں ،سیلابی ریلے جوانی دکھارہے ہوں ،یہی سمجھا جاتا ہے امریکا ہمیں ترقی کرتا نہیں دیکھ سکتا۔

زلزلے ، بارشیں ، طوفان اور دوسرے حادثات پوری دنیا میں آتے ہیں اور آتے رہیں گے ،ترقی یافتہ ممالک ہوں ،ترقی پذیر یا غریب ۔ ہمارے لیڈر سارے وسائل کھانے پینے ،سیر سپاٹے میں لگا دیتے ہیں جو بچتے ہیں ذاتی اکاؤنٹ میں پہنچتے ہیں، جب مصیبت آتی ہے تو اپنے پاس کچھ ہوتا نہیں ،دوسروں کے ہاتھ کی طرف دیکھتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک ہر کام کے لیے مختص وسائل اسی کام پر خرچ کرتے ہیں، اس لیے وہاں تباہی کم ہوتی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :