برینڈی اور نامعلوم افراد

جمعہ 1 مئی 2015

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

برینڈی کا کردار ہمارے ملک میں اکثر اوقات ہمیں راہ چلتے نظر آتا ہے ۔ برینڈی ایک ریسٹورنٹ میں ویٹرس ہے یہ ریسٹورنٹ ممکنہ طور پر برطانیہ میں کسی گوشے میں ہے۔ اپنے ارد گرد نگاہ دوڑائیں تو ہمیں ہر جگہ ایسے افراد نظر آئیں گے جو اپنے خاندانی مسائل کا رونا روتے رہتے ہیں ۔ یہ الفاظ اس لیے کہہ رہا ہوں کیوں کہ میرے سمیت کسی نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت محسوس نہیں کی کہ آخر ان کے مسلسل اس رونا رونے کی وجوہات کیا ہیں۔

ہم صرف ان کی تکرار کو سمعہ خراشی سمجھتے ہیں۔ اور انہیں جھڑکنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ آپ نے اکثر ہوٹلوں، شادی ہالوں کے باہر، ہسپتالوں میں، چوراہوں پر، دفاتر میں، کاروباری اداروں میں ایسے لوگوں کا جم غفیر دیکھا ہو گا جو آپ سے مانگتے نہیں لیکن وہ اپنے مسائل کو بیان کر جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ مسائل ذاتی بھی ہو سکتے ہیں اور خاندانی بھی۔ بسا اوقات وہ یہ مسائل مسلسل بیان کرتے ہیں تا کہ ان کی مدد ہو سکے۔


اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ان لوگوں میں کچھ تو حقیقی معنوں میں ضرورت مند ہوتے ہیں اور کچھ ایسے بھی شامل ہوتے ہیں جن کا یہ کاروبار بن چکا ہوتا ہے۔ لیکن اس میں فرق کرنا بھی نہایت سادہ ہے۔ جو لوگ حقیقی معنوں میں ضرورت مند ہوتے ہیں اور اپنے ناگزیر مسائل کی وجہ سے آپ کے ساتھ اپنی پریشانی یا دکھ بانٹ رہے ہوتے ہیں ان کی آنکھوں میں دکھ کی نمی اور جھکا چہرہ آپ کو مکمل روداد سے آگاہ کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

اور جن لوگوں کا یہ کاروبار ہوتا ہے ان کے چہرے پہ ایک کاروباری مظلومیت اور ان کی آنکھوں میں عیارانہ چمک واضح طور پہ دیکھی جا سکتی ہے۔ اب ایک عام آدمی اس بات سے یقینان پریشان ہو جاتا ہے کہ کس کی مدد کرے اور کس کو انکار کرتے ۔
بہت سے لوگوں کو میری اس بات سے اتفاق ہو گا کہ مدد کرنے میں بُخل یا شک سے کام نہیں لینا چاہیے۔ کیوں کہ مدد کرتے وقت آپ کی نیت صاف ہونی چاہیے ۔

اگلے بندے کی نیت کا حال خدا بہتر جانتا ہے۔ لیکن مدد کرنے کے ساتھ کچھ ایسا بھی ہونا چاہیے کہ جن لوگوں کا یہ کاروبار ہے ان میں شرم کا مادہ جگایا جا سکے اور جو لوگ ضرورت مند ہوں ان میں آگے دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ ابھارا جا سکے۔
برینڈی کا کردار پاکستان میں موجود ان بے شمار کرداروں جیسا ہے جو مانگتے نہیں لیکن اپنے مسائل سے دوسروں کو آگاہ ضرور کرتے رہتے ہیں۔

اس آ گاہی مہم کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کوئی رحمدل انسان ان مسائل سے نمٹنے میں ان کی مدد کر دے ۔ کبھی تو ایسا جلد ہو جاتا ہے کہ ان کا مسلہ جلد ہی کسی حل کرنے والے تک پہنچ جاتا ہے اور کبھی یہ سالہا سال اپنی کتھا لوگوں کو سناتے رہتے ہیں اور کوئی مداوا نہیں ہوتا۔ کچھ ایسا ہی برینڈی کے ساتھ ہوا۔ وہ اپنے مسائل کا رونا روتی رہتی اور ایک نیک دل نے اس کے رونے کا اثر لے لیا۔


مغربی معاشرے میں خاندان کیوں کہ بٹے ہوئے ہیں اسی تناظر میں برینڈی کا بیٹا بھی نا معلوم وجوہات کی وجہ سے اس سے کہیں دور تھا۔ وہ کافی عرصے سے بطور ویٹرس کام کر رہی تھی لیکن گزر اوقات ہی مشکل سے ہوتی تھی بیٹے سے ملنے کا کوئی سبب نہیں بنتا تھا۔ وہ یہی پریشانی اکثر اوقات دوہراتی رہتی۔ اسی ریسٹورنٹ میں ایک مستقل گاہک بھی آتا تھاجس کو اکثر اوقات برینڈی ہی چیزیں پیش کرتی تھی اس گاہک کے کانوں میں بھی برینڈی کی آوازیں پہنچتی تھیں جس میں وہ اپنے بیٹے سے ملنے کی خواہش کرتی تھی۔

اس کے دل میں رحم پیدا ہوا اور اس نے ایک دفعہ اچھی سروس کی بنیاد پر صرف9.53 ڈالر کے بل پر برینڈی کے لیے 200 ڈالر ٹپ دے دی(مجھ تک ایک قاری کے توسط سے اس بل اور اس کی پشت پر تحریر پیغام کی تصاویر پہنچیں) ۔ اور بل کی پشت پہ تحریر کر دیا کہ " تمہاری اچھی سروس کے لیے شکریہ،میں اکثر تمہارے منہ سے تمہارے بیٹے کے بارے میں سنتا رہتا ہوں ۔ تم اس رقم سے بیٹے کو ملنے جا سکتی ہو"۔

اس تحریر اور ٹپ کے بارے میں ریسٹورنٹ کے منیجرنے اسے کچن میں جب آ کر بتایا تو اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو رواں ہو گئے۔ ذرا غور کیجیے یہ آنسو ٹپ کے لیے نہیں ہیں بلکہ جذبے کے لیے ہیں۔ اب غور کیجیے کہ ہمارے معاشرے میں برینڈی جیسے کردار بکھرے پڑے ہیں لیکن ہمارے ہاں اس نامعلوم گاہک جیسے افراد بہت کم ہیں۔ پاکستان میں اللہ نے لوگوں کو بے پناہ نوازا ہے لیکن اس کے باوجود پریشانیاں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔

اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم برینڈی جیسے لوگوں کی مدد کرنے کا وطیرہ نہیں اپناتے ۔ جب آپ کسی کی مدد کرتے ہیں تو دل میں ایک انجانا سا سکون محسوس ہوتا ہے ہمارے ہاں اکثر دولت مند اس سکون سے اس لیے محروم ہوتے ہیں کیوں کہ وہ اپنی تمام تر دولت کو رات دن دوگنا کرنے کے چکر میں مصروف کرتے ہیں لیکن دوسروں کی مدد نہیں کرتے ۔
اس نامعلوم شخص کے برینڈی کی مدد کرنے سے ہمیں دو طرح کے رویے پتہ چلتے ہیں ایک احساس دوسرا شکر گزاری۔

جس شخص نے برینڈی کی باتوں سے متاثر ہو کر 200ڈالر دے دیے اس نے یہ نہیں سوچا کہ برینڈی سچ کہہ رہی ہے یا جھوٹ اس نے ازراہ ہمدردی اپنا حق ادا کیا۔ کیوں کہ اس کے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ برینڈی کی مدد کی جائے۔ یہ احساس پیدا ہونے سے معاشرے مثبت سمت میں تبدیل ہوتے ہیں۔ دوسرا رویہ شکر گزاری کا ہے۔ برینڈی کی آنکھوں کے آنسو اس کی شکر گزاری کا ثبوت ہیں ۔

فرض کیجیے اگر برینڈی نے جھوٹی کہانی گھڑی ہے تو بھی اس ٹپ دینے والے کی عقل مندی سے وہ آئندہ جھوٹ نہیں بولے گی۔ کیوں کہ صرف دو سو ڈالر ٹپ شاید معنی نہ رکھتی لیکن بل کی پشت پر تحریر پیغام کا خلوص یقینا اسے آئندہ کبھی بھی جھوٹ کی طرف راغب نہیں کرے گا۔ اور اگر برینڈی نے واقعی سچ بولا تو وہ اس شخص کی نہ صرف تمام عمر شکرگزار رہے گی بلکہ وہ خود بھی دوسروں کی مدد کرنے میں آگے بڑھے گی۔


معاشرتی تبدیلیاں نعروں سے نہیں بلکہ مثبت سوچ سے آتی ہیں۔ اپنے ارد گرد نگاہ دوڑائیں۔ کتنے ضرورت مند نظر آئیں گے ۔ ان میں سے بہت سے مفاد پرست بھی شاید ہوں گے ۔ لیکن جیسے اس نامعلوم شخص نے ہوٹل بل کی پشت پہ پیغام تحریر کیا اسی طرح کے پیغامات اگر ہم مدد کے ساتھ دینا شروع کر دیں تو ایک دن ضرور ایسا آئے گا کہ نہ صرف ضرورت مند افراد کی ضرورتیں پوری ہونا شروع ہو جائیں گی بلکہ مفاد پرست ٹولہ بھی یقینا شرمندگی میں گھر جائے گا۔

آپ اپنے ارد گرد موجود ضرورت مندوں میں سے یہ نہ سوچیے کہ اس کو ہزار روپے چاہیں اور آپ کے پاس دس روپے ہیں تو اس کی مدد کے لیے کافی نہیں ۔ آپ کسی بھی مثبت پیغام کے ساتھ اسے دس روپے دے دیجیے ہو سکتا ہے وہ مثبت پیغام اس کی زندگی بدل دے ۔ ذرا سوچیے ۔ اگر ہم میں سے ہر کوئی کسی کی بھی مدد کرتے وقت خود نمائی کے بجائے دوسروں کی مدد کا پیغام ہی دیتا جائے تو ہمارے معاشرے میں کس طرح کی تبدیلی آئے گی ؟ دوسروں کی مدد کیجیے اور ساتھ ہی انہیں مثبت پیغام بھی دیجیے جو نہ صرف ان کی بہتری کے لیے ہو گا بلکہ پورا معاشرہ مثبت انداز میں پروان چڑھے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :