جاگ مہاجر جاگ کا نعرہ جیت گیا

جمعہ 1 مئی 2015

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

قومیت صرف پہچان کے لیے ہے۔ باقی معاملہ تقویٰ کی بنیاد پر کیا جائے گا ۔ کون کتنا تقویٰ رکھتا ہے اس کا امتحان ہے۔ اسلام میں قومیت کے نعرے پر بلانا ناپسندیدہ عمل ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے جس نے قومیت کا نعرہ لگایا وہ ہم میں سے نہیں۔یہ تو ایک اصولی بات ہے۔ مگر جب الیکشن ہوتے ہیں تو اصولوں پر کون عمل کرتا ہے۔الیکشن کے وقت تو لسانیت اور قومیت کی بنیاد پر بنی پارٹیوں، بلکہ تمام سیاسی پارٹیوں کے سامنے کوئی اصول نہیں ہوتا۔

الیکشن کے وقت سیاسی جماعتوں کے سامنے بس ایک نکاتی ایجنڈا ہوتا ہے الیکشن کیسے جیتا جائے۔ این اے۲۴۶ کے ضمنی انتخابات میں تین بڑی پارٹیاں آمنے سامنے تھیں۔ متحدہ قومی مومنٹ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی۔ پیپلز پارٹی نے در پردہ متحدہ قومی موومنٹ کی حمایت کر رہی تھی آج زرداری صاحب نے لندن فون کر کے این اے۲۴۶ کے ضمنی انتخابات کی جیت پر الطاف حسین صاحب کو مبار ک باد بھی دی اور متحدہ قومی موومنٹ سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد صاحب سے ملاقات کر کے سندھ حکومت میں شامل ہونے کی پھر سے دعوت بھی دی۔

(جاری ہے)

ذوالفقار مرزا صاحب کہتے ہیں کہ الطاف حسین صاحب اور زرداری صاحب کے مفادات مشترکہ ہیں۔این اے ۲۴۶ کو میڈیا نے اتنی زیادہ اہمیت دی جتنی عام انتخابات کو دی جاتی ہے۔ایک تو اس میں۹۰ پر رینجرز کے چھاپے اور وہاں سے مطلوب مجرموں کی گرفتاری اور نیٹو کنینٹینرز سے چوری شدہ اسلحہ کی برآمدی کی وجہ تھی۔ دوسری وجہ ایم کیو ایم کی ماضی میں ٹی وی چینلز کو ذبردستی بندکروانا، اینکرز کو کتا کہنا اور جیو کے ولی بابر کاقتل اور پھر اس کے تمام گواہوں کا قتل کے عوامل تھے ۔

ایم کیو ایم کے خلاف میڈیا نے خوب بھڑاس نکالی اور میڈیا نے تحریک انصاف کو خوب کورئج دی ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جماعت اسلامی کے امیدوار کو اپنے حق میں بیٹھا دے گی اور تحریک انصاف جیتی ہی جیتی۔ کم و بیش الیکٹرونک میڈیا کے تمام چینلز ایسا ہی نقشہ پیش کر رہے تھے۔ مگر حقائق کچھ اور ہی تھے۔ گو کہ عمران خان نے دو دفعہ این اے۲۴۶ کا دورہ اور جلسہ بھی کیا ۔

ایم کیو ایم کے گڑ جناح گراؤنڈ میں جلسہ کرنے کا ارادہ کیا اور کہا کہ کراچی کو خوف سے نکالوں گا مگر وہ ایسا نہیں کر پائے۔ جناح گراؤنڈ دورہ بھی مکمل نہ کر سکے۔ ہر جگہ ایم کیو ایم کے کارکن اس کے پیچھے لگا دیے گئے اور جب عمران خان نے شکایت کی تو ایم کو ایم نے کہا یہ تو ہمارے کارکن نہیں ہیں عوام ہیں۔ تحریک انصاف کی ریلی پر حملہ کیا گیا ان کے ٹینٹ کو اکھاڑ دیا گیا ان کے جھنڈے جلا ڈالے گئے۔

ایسا ہی جماعت اسلامی کی ریلی پر بھی حملہ کیا گیا ان کے کارکنوں کو زخمی کیا گیا۔ جماعت اسلامی نے بھی این اے ۲۴۶ میں دو بڑے جلسے کئے۔ این اے ۲۴۶ سے استفیٰ دینے والے نبیل گبول صاحب نے بھی میڈیا پر ایم کیو ایم کے لیے کہا کہ مجھے گھر بیٹھے ہی ایک لاکھ چالیس ہزار ووٹ دلا کر چیتوا دیا گیا تھا وغیرہ۔حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ الطاف حسین صاحب نے سندھ میں جنگ وجندل شروع کی تھی۔

ایم کیو ایم کے لوگوں سے کہا تھا حقوق یا موت۔ ٹی وی، وی سی آر بیچو اور اسلحہ خریدو۔ جس کے ہاتھ میں اسلحہ ہوتا ہے وہ اسے استعمال بھی کرتا ہے۔جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے۔اپنے باغی لوگوں کو ٹکانے لگانے کے متعدد واقعات ہیں۔ مرحوم جی ایم سید صاحب کے کہنے پر سندھی مہاجر بھائی بھائی نسوار اور دھوتی کہاں سے آئی کے مشورے پر عمل کر کے سندھ میں خون اور آگ کا بازار گرم کیا۔

اس پر مرحوم جی ایم سید صاحب نے کہا تھا کہ جو کام میں۴۰ سال میں نہ کر سکا وہ کام الطاف حسین صاحب نے ۴۰ دن میں کر دیا۔ حیدر آباد میں مہاجروں کو بے قصور شہید کیا گیا۔ دوسرے دن کراچی میں ایم کیو ایم نے ۵۰ سندھی مچھیروں بے گناہ شہید کر دیا۔ پکاہ قلعہ میں مہاجروں کو قتل کیا گیا۔ کراچی میں۱۲ مئی کا قتل عام بھی ہوا۔ جس عدالت نے اس کا مقدمہ سنا اس کا گھیراؤ کیا گیا اور مقدمہ سننے نہیں دیا گیا۔

وکیلوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ا یسے درجنوں واقعات ہیں جو سب کو معلوم ہیں۔تجزیہ نگاروں کے مطابق فاٹا سے زیادہ اسلحہ کراچی میں ہے۔ کراچی میں ایک دن میں ایم کیو ایم کے ایک ممبر صوبائی ممبر کے قتل پر۱۰۰ پٹھانوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ذوالفقارمرزا صاحب کے مطابق الطاف حسین صاحب نے فرمایاتھا میں کراچی میں پٹھانوں کو نہیں چھوڑوں گا۔کراچی سے لاتعداد بے گناہ محنت کشوں کی لاشیں پاکستان کے اندروں شہروں میں گئیں۔

۱۰۰ سے زیادہ ہڑتالیں کر کے کراچی شہر کو ایک عرصہ سے مفلوج کر رکھا ہے۔ بوری بندلاشیں، بھتہ کے لیے لوگوں کو اغوا کیا گیا۔کراچی سے سرمایا باہر ملکوں میں منتقل ہوا۔ برگر علاقوں کے لوگ بھی باہر شفٹ ہو گئے۔ جماعت اسلامی کے مطابق اس سے قبل الیکشن میں ظلم کی انتہا کرتے ہوئے اسی این اے ۲۴۶ پر جماعت اسلامی کے ۱۲ کارکنوں کو شہید کر دیا گیا تھا۔

ایم کیو ایم میں مجرموں کی اتنی زیادہ تعداد ہے کہ بقول ایم کیو ایم کے لوگوں کے زیروٹارلینس کی پالیسی کے تحت لاتعداد مجرموں کو ایم کیو ایم سے نکال بھی دیا گیا ہے۔ پھر بھی یہاں کوئی بھی ٹارگٹ کلرز پکڑا جاتا ہے وہ ایم کیو ایم کا سیکٹر انچار ج ،ا یونٹ انچارج یا کارکن ہوتا ہے۔ ایک وقت پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ساٹھ ساٹھ یرغمالیوں بنائے گئے لوگوں کا تبادلہ کور کمانڈر کراچی نے کرایا تھا۔

ایم کیو ایم نے جماعت اسلامی کے درجنوں کارکنوں کو شہید کیا۔ متحدہ قومی موومنٹ اور مہاجرقومی موومنٹ نے ایک دوسرے ہزاروں کار کنوں کوشہید کیا۔ یہ ہے وہ قتل غارت کا خوف جو کراچی کے عوام کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے بیٹھا دیا گیا ہے ایم کیو ایم نے سندھ میں حالات اس نہج پرپہنچا دیے ہیں کہ عام ووٹر میں اب بھی ایم کیو ایم کا خوف ہے۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے اس خوف کے عالم میں این اے۲۴۶ کے ضمنی انتخابات میں حصہ لیا مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔

اس خوف کی حالت کو تبدیل کرنے کے لیے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا پڑے گا۔ جن سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ ہیں جن کی نشان دہی سپریم کورٹ نے کی تھی اسے ہر حالت میں ختم ہونا چاہیے ۔ مجرم چاہے کسی سیاسی جماعت ، فرقہ وررانہ جماعت یا کوئی بھی ہو مجرم ہے۔ اسے قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔ کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن اپنے منتقی انجام تک جاری رہنا چاہیے۔

رینجرز بڑی محنت سے کراچی کی روشنیاں واپس لانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ ابھی اور وقت لگے گا۔ رینجرز نے ۲۴۶ ضمنی انتخابات میں الیکشن میں شفاف پولنگ کرائی ہے وہ مبارک کے مستحق ہیں۔ جبکہ مخالفوں نے کہا ہے کہ کراچی الیکشن کمیشن ایم کیو ایم کے کارکنوں سے بھری ہوئی ہے ۔ پریذائیڈنگ اور تین پولنگ افسران چار افراد کا پکڑا جانا اس بات کاثبوت ہے۔

رینجرز کے درخواست کے باوجود الیکٹرونک ووٹنگ نہیں کروائی گئی جس سے کراچی میں الیکشن کمیشن کی نا اہلی پھر ثابت ہوگئی۔ متحدہ کے کارکن جو پہلے الیکشنوں میں پولنگ بوتھوں میں اندر کھڑے ووٹرز کو اپنے حق میں ووٹ ڈلواتے تھے اب باہر کھڑے ہو کر جاگ مہاجر جاگ کے نعروں سے ووٹرز پر دباؤ ڈالتے رہے کہ پتنگ کو ووٹ کاسٹ کرنا۔ ایم کیو ایم کے سینیٹر عبدالحسیب اور ممبر صوبائی اسمبلی محمد حسین رینجرز سے دھونس کے ذریعے سراج الدولہ کالج میں پولنگ کا وقت ختم ہونے کے باوجود ۳۸ مردوں اور ۱۲خواتین ووٹرز کو پولینگ اسٹیشن میں داخل کرایا اور ووٹ کاسٹ کروائے ۔

رینجرز نے اس ذبردستی پر کوئی کاروائی نہیں کی۔ این اے ۲۴۶ ضمنی انتخابات ان ہی جعلی ووٹر لسٹوں پر ہوئے جنہیں عدالت نے ناقص قرار دے کر فوج کو حکم دیا تھا کہ گھر گھر جا کر وٹرز لسٹیں درست کی جائیں مگر کراچی الیکشن کمیشن ایسا نہ کرا سکا۔جعلی شناختی کارڈ کی بوریاں ایم کیوایم کی سیکٹر آفس سے برآمد ہوئیں تھیں۔بائیو میٹرک مشینوں سے ضمنی انتخاب کا نہ ہونا۔ ایم کیو ایم کے عملے کے ساتھ الیکشن ہوئے۔ایم کیو ایم نے جاگ مہاجر جاگ کی بنیاد پر کراچی کا ضمنی الیکشن جیت لیا۔ ایم کیو ایم کے امیدوار کنور جمیل صاحب پہلے نمبرپر، تحریک انصاف کے عمران اسماعیل دوسرے نمبرپر اور پر جماعت اسلامی کے راشد نسیم صاحب تیسرے نمبر پر آئے۔ ہارنے والوں نے کنور جمیل صاحب کو مبارک باد دی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :