یہ اسکول وینیں

بدھ 29 اپریل 2015

Qari Abdur Rehman

قاری عبدالرحمن

پاکستان میں ٹریفک کا نظام کبھی بھی، کہیں بھی مثالی نہیں رہا،قوانین ضرور بنے ہوئے ہیں، ڈرائیونگ سکھانے والے استاد بھی قواعد بتاتے ہیں، مختلف کمپنیاں اور ادارے اخبارات میں اور سڑکوں پر بورڈوں کی شکل میں اشتہارات چلاتے ہیں ، پٹرول پمپوں پر بھی کچھ نہ کچھ لکھا ہوتا ہے ۔اثر تو یہ ہونا چاہیے ہر شخص تیر کی طرح سیدھا رہے، لیکن ہوتا کچھ عجیب سا ہے، ہزاروں میں کوئی ایک ڈرائیور شاید ایسا ہو جو ٹریفک کے لیے بننے والے قوانین کی پاس داری کرے ۔

ورنہ سچی بات یہ ہے کہ اس معاملے میں ہم جس بھیڑ چال کے قائل ہیں، شاید کسی معاملے میں نہ ہوں گے۔ لانگ روٹ پر چلنے والے ٹرکوں ،ٹینکر وں، بسوں اور کوچوں کو چلانے والے ڈرائیور حضرات جس بے ڈھنگے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں، اس کی تو واقعی کہیں مثال نہیں ملتی۔

(جاری ہے)

غلط سے غلط ڈرائیونگ کرنے والے بھی اپنی غلطی نہیں مانتے۔
ٹریفک پولیس کا کام صرف جیبیں بھرنا رہ گیا ہے، سی این جی سلنڈراور گاڑی کی فٹنس کی رپورٹ لکھنے والے ماہرین جیب گرم ہونے کے بدلے کھچاڑا سی کھچاڑا گاڑی کو اے ون کلاس فٹنس کی سند دے دیتے ہیں،بڑی سے بڑی غلطی پر جرمانے کی بجائے چند روپے کی بخشش پر چالان والان سب کچھ بھول جاتے ہیں، اور ڈھیٹ ڈرائیور ایسی غلطیاں بار بار کرتے ہیں، انہیں پتا ہے ، سزا کوئی نہیں، جرمانہ کوئی نہیں، اور کچھ نہ ہو تو ٹریفک پولیس ایک سگریٹ، یا پان پرہی ڈرائیور کی غلطی معاف کردیتے ہیں ، ٹریفک پولیس ہو یا آدم پولیس ،دونوں اپنی جیبیں بھرنے میں اس سنجیدگی سے مصروف ہوتے ہیں، جیسے ان کا وجود ہی اس کام کے لیے ہو۔


ہمارے خیال میں اس وقت سے سب غیر محفوظ اور خطرات سے بھرپور گاڑیاں اسکول وینیں ہیں، ان وینوں کے ڈرائیووں کو روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں ہوتا، بچے نہ تو تیز چلانے پر کچھ کہہ سکتے ہیں،نہ غلط ڈرائیونگ پر کچھ کہنے کی پوزیشن رکھتے ہیں،بچے تیز ڈرائیونگ کو انجوائے کے طور پر لیتے ہیں، اور شارٹ کٹ کے چکر میں ڈرائیوروں کی بھونڈی ڈرائیونگ کو بھی چالاکی اور بہادری سمجھتے ہیں، مائیں گھروں میں ہوتی ہیں، والد حضرات اپنے دفاتر کے چکر میں، کسی کے پاس اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ ان ڈرائیوروں کی حالت دیکھیں، گاڑیوں کی شکل وصورت دیکھیں، تیز میوزک بجاتے ہوئے جس مستی کے ساتھ اسکول وینوں کے ڈرائیور بچوں کی جان خطرے میں دالتے ہیں،اس پر کسی کی نظر نہیں جاتی اگر جائے بھی تو اس کا متبادل کچھ نہیں۔


چند فی صد والدین کے پاس بھی یہ سہولت میسر نہیں کہ وہ اپنے بچوں کو خود اسکول چھوڑیں اور واپس لائیں، اس لیے والدین حیل و حجت نہیں کرتے ، ان کے لیے سب سے بڑی نعمت یہی ہوتی ہے کہ ان کے بچے روزانہ مقررہ وقت پر اسکول چلے جاتے اور واپس آجاتے ہیں، اگر کسی کی توجہ گاڑی کی حالت یا ڈرائیونگ کی طرف ہو بھی جائے تو وہ احتجاج نہیں کر سکتا ، گاڑی والے بھی کسی تھانے دار سے کم نہیں ہوتے ، کہہ دیتے ہیں، اور انتظام کر لیں، اب بے چارے والدین کیا اور کیسے اورانتظام کریں ،مجبورا خاموش رہنا پڑتا ہے۔


اسکول انتظامیہ کو اس سلسلے میں کردار ادا کرنا چاہیے اور اصل کردار وہی ادا کرسکتے ہیں لیکن ان کی چالاکی دیکھیے کہ وہ ان وینوں کی ذمے داری نہیں لیتے ،بلکہ والدین اور وین ڈرائیوروں کو برا راست رابطے اور مسائل حل کرنے کے مشورے دیتے ہیں، اول تواسکولوں کی وینیں اور بسیں ہوتی نہیں ، کنٹریکٹ پر ہوتی ہیں ، اور کچھ گاڑیاں اسکول کی ہوں بھی تو نظام ڈرائیوروں کے ہاتھ میں ہوتا ہے ، والدین وین کی شکایت اسکول والوں سے نہیں کر سکتے۔


میڈیا خاص طور پر ٹی وی چینل اس سلسلے میں اہم کردار اد کرسکتے ہیں اور انہیں کرنا بھی چاہیے ، صبح یا دوپہر کے وقت بھاگتی دوڑتی اسکول وینوں پر نظر رکھی جا سکتی ہے ، ان کی منفی ڈرائیونگ ،منفی رویے کو نشر کیا جا سکتا ہے اور کرنا بھی چاہیے لیکن شاید اس مسئلے کو اجاگر کرنے میں میڈیا کے کرتا دھرتاؤں کو پیسا بنتا نظر نہیں آتا تو خوا ہ مخوا کا درد سر بھلا کیوں مول لیں۔


غرض لاکھوں بچے روزانہ بارود کے ڈھیر پر سفر کرتے ہیں، کچے ڈرائیوروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں،کئی واقعات اس طرح کے ہو چکے اسکول وینیں، حادثات کا شکار ہوئیں، خاص طور پر پکنک پر جانے والی گاڑیاں بار ہا حادثے کا شکار ہو چکیں،لیکن چند کے شور شرابے اور چیخ و پکار کے بعد وہ معاملات بھی دب جاتے ہیں۔ارباب اقتدار کا یہ مسئلہ ہی نہیں ان کے بچے محفوظ ، سرکاری اور غیر سرکاری گاڑیوں کی قطار اور ڈرائیوں کی بھر مار ، انہیں کوئی سرو کار نہیں کہ بچوں کے ساتھ کیا مسئلہ ہے اور کیا نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :