”کر بھلا، سو ہو بھلا“

بدھ 29 اپریل 2015

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

حاجی صاحب میرے بزرگ ہیں ، یہ زندگی کے تین مختلف مراحل امیری، غریبی اور پھر امیری سے گذرے اور انہوں نے تینوں ادوار کو بہت قریب سے دیکھا ہے ۔اِ نکی زندگی کے نشیب و فراز کی کہانی اتنی طویل اور حکمت بھری ہے کہ اس پر پی۔ ایچ ۔ڈی ہو سکتی ہے۔
حاجی صاحب شیخو پور کے نواحی علاقے فاروق آباد سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کی سبزی منڈی میں ان کے والد صاحب سب سے بڑے تاجرتھے اور یہ خود بھی ان کا ہاتھ بٹا تے تھے،گھر میں دولت کی ریل پیل تھی اور پورا شہر اپنے فیصلے ان کے والد صاحب سے کرا تا تھا۔

دولت،طاقت اور سرداری کے عروج کے زمانے میں ایک صبح ایسی نمودار ہوئی کہ امیری کے چمکدار دور نے اچا نک انگڑائی لی اور کاروبار میں نقصان ہو نا شروع ہو گیاجسکی وجہ سے حالات روز بروز خراب ہو تے چلے گئے ۔

(جاری ہے)


کچھ عرصے پہلے تک بے تحاشہ پیسے، درجن بھر نوکروں کا آگے پیچھے ہو نا اور امیری کے خمار میں مست حاجی صاحب گھر کے حالات اور والد کے تباہ ہو تے کاروبار کو دیکھ کے ڈپریشن کی وادی کے مسافر بن رہے تھے ۔

کچھ ہی دن گذرے تھے کہ حاجی صاحب اس کیفیت سے باہر آگئے ، انہوں نے ان حالات سے لڑ نے کا فیصلہ کیا اور لاہور منتقل ہو گئے۔ کئی کو ششوں کے بعد کسی فیکٹری میں ایک ہزار روپے ماہانہ پر ملازم ہو گئے جہاں صبح،شام کی پرواہ کئے بغیر انتہائی محنت کے ساتھ کام کرتے رہے اور کچھ ہی مہینوں بعد مینیجر ہو گئے۔
حاجی صاحب کا شاندارماضی ہر چڑھتے دن کے ساتھ ان کے اندر اضطراب کے زہر کو مزید پھیلاتا چلا جا رہا تھا ، ان کی نظروں کے سامنے شاہانہ زندگی کے شب وروز، والد کی عزت اور گھر والوں کے ساتھ گذری آسائشوں سے مزین زندگی کسی فلم کی طرح گھو منا شروع ہو جاتی اور پھر جس کیفیت سے نکلنے کی ہر کو شش ناکام و نامراد ٹہرتی۔

اسی بے چینی کی کیفیت میں ایک روز حاجی صاحب نے نوکری سے استعفیٰ دے کر اپنا کاروبار کر نے کا فیصلہ کیا اور اکبری منڈی میں چھوٹی سی دوکان میں ایک کرسی اور میز رکھ کے کام کا آغاز کر دیا۔ اللہ کی رحمتیں شامل حال ہوتی گئیں اورآج وہی حاجی صاحب جو کسی کے پاس ایک ہزار روپے کے ملازم تھے ،ان کے اپنے پاس کئی ہزار لینے والے سینکڑوں ملازم کا م کر رہے ہیں۔


قارئین !حاجی صاحب کی کامیابی کے پیچھے جو عادات کا ر فر ماہیں ،میں انہیں بخوبی جانتا ہوں لیکن اس کامیابی کے ساتھ ان کے کاروبار کی یہ خاصیت بھی ہے کہ اللہ نے انہیں” رزق کریم“ عطا کیا ہوا ہے ۔ سیانوں کے بقول یہ رزق اللہ اپنے بر گزیدہ بندوں کو عطا کرتے ہیں ۔ بغیر کسی سخت مشقت اور پریشانی کے رزق کی فراوانی ان کی دہلیز پر دستک دیتی ہے اور یہ اس کی بر کات سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔

آخر وہ کیا وجوہات ہیں کہ حاجی صاحب جیسے لوگ صبح سے شام صرف لوگوں کے الجھے ہوئے معاملات کو سلجھانے اور بظاہر کچھ نہ کر نے پر رزق کریم اور اللہ کی بے بہا نعمتوں کے مستحق ٹہرتے ہیں ؟ میں اس راز کو پالینے کی ہر ممکنہ کوشش کر رہا تھا لیکن اس کا سراغ لگانے کی ہر سعی ناکام جا رہی تھی۔
قارئین !ابھی کل ہی ،میں دفتر سے گھر جاتے ہوئے سیب خریدنے کے لئے ایک ریڑھی والے کے پاس کھڑا ہوا ،سیب پسند آنے کے بعد جب پیسے دینے کی باری آئی تو جیب میں کئی روز سے پڑا100روپے کا خستہ حال نوٹ نکال کے باقی پیسوں میں ملا کے ریڑھی بان کو دیا اور سیب کا تھیلا پکڑ کے گھر کی جانب چل پڑا، ابھی کچھ ہی سفر طے ہوا تھا کہ ضمیر نے ملامت شروع کر دی جو شدت اختیار کرتی چلی گئی، کیا معلو م ریڑھی بان کی دن بھر کی کمائی کا منافع صرف 100روپے ہواور پھر تمہارا دیا یہ نوٹ کو ئی اور نہ لے ؟ان جیسے خیالات نے مجھے پیچھے مُڑنے پر مجبور کیا،دوبارہ ریڑھی بان کے پاس گیااور سارا مدعا بیان کرتے ہوئے جیب سے نوٹ نکا لا اور اس کے سامنے کیا، یہ دیکھنا تھا کہ ریڑھی بان نے بھی مجھ سے سیبوں کا تھیلا واپس لیا ، اس میں سے کچھ سیب نکالے اور دوسرے ڈالتے ہوئے بولا: کاکا!میں نے بھی ان سیبوں میں کچھ داغی سیب ڈال دئیے تھے ،مجھے بھی معاف کردینا۔


میں کچھ دیر تک تو اس کیفیت سے باہر نہ نکل سکا ، جب تھوڑی دیر بعد اپنے آپ کو سنبھالا دیا تو حاجی صاحب جیسے لوگوں کے پیچھے چھپی کامیابی کا راز آشکار ہوگیااور وہ ہے لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنااور انسانوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آناہے۔
قارئین محترم!میں پچھلے کئی سالوں سے کامیابی حاصل کر نے کے ”نسخہ ء کیمیا“ کو حاصل کر نے کے لئے مغربی فلاسفر کی کتب ،کامیابی کے موضو ع پر ان کے لیکچرز سُن رہا تھا کہ شاید کبھی تو کامیابی کا کوئی”گُر“ ہاتھ لگے گا لیکن مجھے اب محسوس ہو تا ہے کہ کئی سالوں سے جاری میری یہ تما م محنت اکارت گئی ہے اور حقیقت میں کامیابی ”کا ”گُر“ مجھے اُس روز معلوم ہوا جب میں نے شعوری طور پر کسی کا بھلا کر نے کی کوشش کی،مجھے اس روز معلوم ہوا کہ کامیابی جسے ہم کہاں کہاں ڈھونڈتے پھرتے ہیں وُہ ”کر بھلا“ کے اس چھوٹے سے فقرے میں مقید ہے اور جس کے نتیجے میں آپ کا بھی بھلا ہو رہا ہوتا ہے
جس نے بھی اس فقرے کوایمانداری کے ساتھ اپنی عملی زندگی میں نافذکر لیا ، قدرت کی تما م غیبی قوتیں اس کی مدد کے لئے جمع ہو جاتی ہیں اور وہ پھر کچھ ہی دنوں میں حاجی صاحب جیسا کامیاب ترین انسان بن جاتا ہے جنہیں ”رزق کریم“ جیسی دولت نصیب ہو تی ہے اور سب سے بڑھ کے وہ دل کی تنگی اور ہر قسم کے خوف و حزن سے بھی آزاد ہوتے ہیں ۔


سیانوں نے کیا خوب کہا:”کر بھلا، سو ہو بھلا“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :