متن ہمارے

پیر 27 اپریل 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

# لوڈشیڈنگ کا جن 2018 سے پہلے بوتل میں بند کرنا ناممکن ہی:خواجہ آصف
بات تو خواجہ صاحب کی بھی درست ہے لیکن قوم جو کچھ سوچ رہی ہے وہ بھی اپنی جگہ صحیح ہے ، یہ بات بالکل ویسے ہی درست ہے جیسا کہ 2008کے انتخابات کے بعد وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے پہلی تقریر میں قوم کو ایک سال میں لوڈشیڈنگ سے نجات کا عندیہ دیاتھا لیکن محض چند ہی دنوں کے بعد ان کے وزیر پانی وبجلی نے ”ارشاد “ فرمایا کہ لوڈشیڈنگ کا جن دوسال تک قابو میں نہیں آسکتا، پھر یہ دوسال کاعرصہ بڑھتے بڑھتے اس نہج پر پہنچ گیا کہ کرائے کے بجلی گھروں کے حوالے سے شہرت کے حامل راجہ پرویز اشرف وزیراعظم بن بیٹھے مگر یہ جن نہ تو ان کے قابو میں آیا اورنہ ہی ان کی حکومت اس جن کو قابو کرنے کاکوئی جینوئن طریقہ ڈھونڈ سکی۔

(جاری ہے)

پی پی دور حکومت کے آخری ایام میں ن لیگی قائدین قوم کو خوشخبریاں دیتے رہے کہ ہم نے حکومت سنبھالتے ہی محض چھ ماہ یاپھر ایک سال میں یہ بحران ختم کردینا ہے لیکن آج دوسال ہوگئے وہ ”چھ ماہ یا ایک سال“ پورے نہیں ہوسکے۔ اب خواجہ صاحب کی بات سن کر قوم پریشان ہوگی کہ موجودہ حکومت کا ”دی اینڈ“ بھی 2018ء میں ہی ہونا ہے یعنی یہ پانچ سال بھی #”کھایاپیا کچھ نہیں گلاس توڑا سولہ آنے’“ کے مصداق جھوٹے وعدوں پر ہی گزرجائیں گے۔

یوں تو جنوں پریوں کی کہانی میں عموماً یہ بتایاجاتا ہے کہ کوہ قاف کے جن کی جان کسی طوطے میں تھی یا پھر کبھی کسی چڑیاکاذکر ملتا ہے یا پھر کسی مٹی کے پتلے میں اس کی جان چھپی ہوتی ہے جسے توڑا ،مروڑا، یا بھنبھوڑا جائے تو جن کی موت واقع ہوجاتی ہے، اب خواجہ صاحب یہ بھی وضاحت فرمادیتے کہ انہوں نے لوڈشیڈنگ کے جن کو قابو کرنے کیلئے وہ ”چڑیا ،طوطا“ تلاش کرلیا ہے جس کی گردن مروڑنے ،توڑنے سے یہ جن بھی خود بخود جان سے ہاتھ دھوبیٹھے گا ،لیکن شاہدین کاخیال ہے کہ خواجہ صاحب ایسی ”بیوقوفی“ کرہی نہیں سکتے تھے کیونکہ بقول راویان ابھی تو انہیں اس معاملے کے اصلی ”منڈھ“ کاہی پتہ نہیں چلا ، بس قیاس آرائیوں کے گھوڑے دوڑائے جارہے ہیں۔

اب بندہ یہ بھی سوال کرسکتا ہے کہ بقول احسن اقبال چین کے ساتھ ہونیوالے معاہدے 2017 میں مکمل ہوجائیں گے ،قوم کو بتایا گیا ہے کہ ان معاہدوں میں توانائی کے منصوبے بھی شامل ہیں۔توپھر خواجہ صاحب کوکیسے الہام ہوا کہ ان معاہدوں کے باوجود لوڈشیڈنگ کا جن 2018تک قابو میں نہیں آسکتا․․․․․گویاپوری کی پوری دال ہی کالی ہے
#تحریک انصاف والے استعفیٰ لینے آئے اور نکاح نامہ لیکر چلے گئے،مشاہداللہ
خان صاحب کا نون لیگ کے اس قبیلہ سے ہے جو بزلہ سنجی اور ظرافت طبع میں کمال رکھتا ہے، باتوں میں ان سے کوئی نہیں جیت سکتا اور بقول راویان اگر ان کے پاس نون لیگ کی چھتری نہ ہوتو پھر یہ الیکشن نہیں جیت سکتے ۔

خیر یہ الگ بحث ،ان کی تازہ پھلجھڑی بھی عجب ہے، خانصاحب کا یہ فرمان اگر دھرنوں کے دوران جاری ہوتا تو پھر ان کے حوصلے کی داد دیناپڑتی لیکن چونکہ وہ ماضی کاقصہ ہے تو پھر طوفان ٹلنے کے بعد بڑھکیں مارنے کا کیافائدہ؟ورنہ دھرنوں کے دن تو نون لیگ اور ان کے قائدین کیلئے اس طرح سے بھاری گزرے کہ شاید وہ سوتے میں ڈر کے مارے اٹھ جاتے ہونگے․․․․اگر ایسا نہ ہوتا توہرآنیوالا نیا دن ان کی عجیب وغریب حرکات اوربوکھلاہٹ کے نمونے لیکر نہ آتا ۔

پتہ نہیں خانصاحب کس ضمن میں استعفے اور نکاح نامے کی بات کررہے ہیں ، اب یہ بھی طے نہیں کرسکے کہ آخر اس نکاح نامہ میں مذکرمونث کون تھا اور گواہوں کی تعداد کیا تھی، دلہن کاوکیل کون تھا یا کون مرد مجاہد دلہے کاوکیل بننے پر راضی ہوا، خان صاحب کو چاہئے تھا کہ ساری تفصیل سے آگاہ کرتے ۔ورنہ خواہ مخواہ شک رہ جائیگا کہ عموماً دولہے کو ہی نکاح کے بعد نکاح نامے کی ضرورت ہوتی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ باراتی کون تھے ؟پارلیمنٹ کے اندروالے یا باہر والے؟ ڈھول پتاشے کون بجارہاتھا ؟ اندر والے یا باہر والے؟ گانا بجانا کہاں جاری تھا؟پارلیمنٹ کے اندر یا باہر؟؟ ضروری ہے کہ خانصاحب آئندہ کسی قسم کی بزلہ سنجی کامظاہرہ کرتے ہوئے اندر باہر کی خبروں کا بھرپور جائزہ لے لیاکریں کہیں ان کی کہی باتوں ان پر ہی نہ پلٹ پڑے
#ملک میں کبھی بھی جمہوریت رہی ہی نہیں:علامہ سید ساجد نقوی
نقو ی صاحب کا شمار سنجیدہ ،فہمیدہ سیاستدانوں میں ہوتا ہے ظاہر ہے کہ ایسا سیاسی مذہبی رہنما اگر ایسی بات کریگا تو پڑھنے اورسننے والا لازماً سوچنے پر مجبورہوجائیگا کہ آخر کچھ نہ کچھ تو ہے ،یاتو دال کے کچھ دانے کالے ہیں یاپھرپوری کی پوری دال ہی کالی ہے؟ پاکستانی سیاستدانوں اورسیاست کا جائزہ لیاجائے تونجانے کیوں ایک لطیفہ نماچند جملے ذہن میں گونجنے لگتے ہیں کہ پاکستانی سیاستدان کی جدوجہد بہت مثالی ہے یہ جمہوریت کے دنوں میں آمریت کیلئے اورآمریت کے دنوں میں جمہوریت کیلئے جدوجہد کرتے ہیں۔

اللہ بخشے نوابزادہ نصراللہ خاں کے حوالے سے یہ بات کہی اوربیان کی جاتی ہے لیکن ایسے کئی سیاسی مولاجٹوں کی کمی نہیں ہے کہ جو ”آبیل مجھے مار“ قسم کاکردار رکھتے ہیں، ایسے لوگ عموماً راہ چلتی آمریت کو چھیڑ کر دراصل پٹٹریوں پر بھاگتی دوڑتی جمہوریت کو چھوڑنے کا راستہ ہموار ضرور کردیتے ہیں۔اب بندہ کس کس کی مثال دے کہ
”ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں“
جمہوریت کے شیدائیوں کی کہانیاں بھی بڑی طویل ہیں جو آمریت کی وردی کانہ صر ف تحفظ کرتے رہے بلکہ ان کادعویٰ تھا کہ 2015تک پرویز مشرف مائی باپ رہیں گے لیکن جب آمریت میں جمہوریت کا کھیل کھیلنے والوں کابس چلاتو مشرف کو گھر جاناہی پڑا۔

آج بھی انہیں ”مائی باپ“کادرجہ دینے والے جمہوریت کے سب سے بڑے چمپئن ہیں۔ لہٰذا نقوی صاحب کی بات سے اتفاق تو ہے لیکن دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ اگر ملک میں مکمل طورپر جمہوریت نہیں تواس کے اصل ذمہ دار کون ہیں؟یقینا اس کے پس پردہ بھی انہی سیاستدانوں کا ہی نام آئیگا جو آج جمہوریت کے بڑے چغادری بنے پھرتے ہیں۔
آخری بات:بنگلہ دیش سے ون ڈے میچز میں شرمناک شکست کے بعد پاکستانی ٹیم واحد ٹی ٹونٹی میں بھی قوم کو شرمندہ کرگئی، اب تو ان شکستوں کی گونج پارلیمنٹ میں بھی سنائی دے رہی ہے، خورشید شاہ درست فرماتے ہیں کہ ورلڈ کپ میں ہونیوالی ”ڈرامہ بازی“ اورپھراس کے بعد جاری شکستوں کے اصل ذمہ داران سامنے لائے جائیں۔

شاہ جی!اس طرح تو پھر بورڈ پر مسلط ان سینکڑوں لوگوں کے نام بھی آئیں گے جو کرتے کراتے کچھ نہیں مگر قومی خزانے کو جونکوں کی طرح لوٹنے کھسوٹنے میں مصروف ہیں۔ لہٰذا یہ ضروری ہوگیا ہے کہ کرکٹ بورڈ سے سیاسی مداخلت ختم کرنے کے ساتھ ساتھ خواہ مخواہ کی بھرتیوں کو کالعدم قراردیکر ان عجیب وغریب ”کوچ نما کھلنڈروں“سے ٹیم کی جان چھڑائی جائے جن کی بطور کھلاڑی بھی ”کل“ سیدھی نہ تھی اورنہ ہی بطور ”کوچ“ ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :