حقوق و آزادی

پیر 27 اپریل 2015

Hussain Jan

حُسین جان

معاشرہ جب ہمارے جیسے جاہل لوگوں سے بھرا ہو گا تو اسے متوازن رکھنا تقریبا ناممکن ہوجائے گا،پوری دُنیا میں دو طرح کے لوگ پائے جائے ہیں ۔ ایک تو جو اپنے آپ کو آزاد خیال کہتے ہیں ،اب اگر ہم آزاد خیال کا متصاد بنایں تو بنتا ہے قید،یا غلام خیال، لیکن دوسری طرح کے لوگوں کو غلام خیال یا قید خیال نہیں بلکہقدامت پسند کہا جاتا ہے۔ ان دونوں گروپوں کی اپنی اپنی بین ہے جسے یہ ہر وقت بجائے رکھتے ہیں اور معاشرئے میں امن و امان اور سکون کی فضاء کو قائم نہیں رہنے دیتے ۔

مزے کی بات ہے دونوں ٹائپ کے لوگ ہر وقت خواتین کے حقوق و آزادی کا رونا روتے رہتے ہیں ۔ مگر آج تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ حقوق اور آزادی میں کیا فرق ہے۔ ہمارے آزاد خیال لوگوں کے نزدیک عورتوں کی آزادی کا مطلب اُنہیں جینز پہنے ،سلیف لیس شرٹ پہنے کے ساتھ ساتھ ہر وہ آزادی ہو جسے مرد حضرات انجوائے کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

دوسری طرف ہمارے قدامت پسند بھائی ہیں جو کہتے ہیں کہ عورتوں کو ہمیشہ چار دیواری کے اندر رکھا جائے ،اُن کی ماں بہن پر کسی کی نظر نا ہو مگر وہ جب چاہیں جسے چاہیں تاکتے رہیں۔

ہر مرد کی خوائش ہوتی ہے کہ اُس کی چار چار گرلز فرینڈز ہوں مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی تمنا رکھتا ہے کہ اُس کی بہن کسی کی گرل فرینڈ نا بنے۔ آتے جاتے لڑکیوں کو ایکسرئے کی نگاہ سے دیکھنے والے کچھ پاگل سوچ رہے ہوتے ہیں کہ شکر ہے ہماری ماں بہن تو محفوظ ہے ۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے اگر آپ کسی عورت کو گھور رہیں ہے تو آپ کی اپنی عزت محفوظ راہ سکتی ہے۔

میرے ساتھ ایک عددلڑکی ہروقت ضرور موجود ہو مگر میری بہن ہمیشہ بھائی کے ساتھ ہی جائے۔
خیر یہ تو ہمارے معاشرئے کا المیہ ہے ہم بات کر رہے تھے حقوق و آزادی کی تو یہ دو مختلف چیزیں ہیں، حقوق کا مطلب یہ ہے اگر آپ کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے تو عورتوں کو بھی ہونا چاہیے،اگر آپ باپ کی جائیداد میں وارث ہیں تو بہن بھی ہو۔ آپ ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ شادی کے معاملے میںآ پ سے مشورہ ضرور کیا جائے تو لڑکیوں کو بھی حق حاصل ہونا چاہیے کہ اُن سے بھی مشورہ کریں۔

حقوق کا مطلب اگر آپ کے پاس اپنے خلاف ہونے والے ظلم کی داستان ہر ایک کو سنانے کا حق ہے تو عورتوں کو بھی یہی حق ہونا چاہیے۔ آپ چاہتے ہیں کہ پولیس ہر اُس شخص کو گرفتار کر لے جس نے آپ کا حق کھایا ہے تو لڑکیوں کے حق کھانے والوں کو بھی پولیس کی حراست میں ہونا چاہیے۔ اسی طرح دوسری طرف اگر آپ اپنی بہن کو بوائے فرینڈ کی اجازت نہیں دیتے تو آپ کی بھی کوئی گرل فرینڈ نہیں ہونی چاہیے۔

اگر آپ سارا سارا دن موبائل ہاتھوں میں لیے لڑکیوں سے باتیں کرتے پائے جاتے ہیں تو یقینا مخالف صنف کو بھی ترغیب ملے گی کہ وہ بھی یہی کام کرے۔ عورتوں پر ظلم کی داستانیں رقم کرنے والے اپنے انجام سے غافل رہتے ہیں اور اُس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرئے میں عورت کو تحفط حاصل نہیں۔ عورت پر ظلم ہو تو نام نہاد این جی او ٹائپ کے ٹاؤٹ آگے آتے ہیں جو پہلے ہی چندہ کھانے والے مشہور ہیں لہذا ان کے شور شرابے کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

اگر عورت کے حق کے لیے عام آدمی آواز اُٹھائے تو اُس کے نتائج بہتر نکل سکتے ہیں۔ موم بتیاں جلانے سے اگر معاملات ٹھیک ہوتے ہوں تو پاکستان کے ہر گھر میں لوڈشیڈنگ کے وقت موم بتی جلتی ہے۔ ہاتھوں میں آٹھ دس موم بتیاں اور بینر لے کر عورت کے حقوق کے لیے نہیں لڑا جاسکتا بلکہ اُس کے لیے کڑی محنت کی ضرورت ہے ۔ ہاتھوں میں سگریٹ کا پیکٹ پکڑئے جب کوئی خاتون کسی عورت کے حق کے لیے آواز اُٹھاتی ہے تو لوگ مظلوم کوبھی داغدار سمجھتے ہیں۔

طلاق یافتہ یا نائکہ ٹائپ کی عورت جب حقوق کی علمبردار بن جائے تو معاشرئے میں انصاف ناپید ہو جاتا ہے۔ رات کو شراب نوشی اور عورتوں کے ساتھ کھیلنے والا جب صبح عورت کے حقوق کی بات کرتا ہے تو یوں لگتا ہے کہ گندئے کپڑئے کو پیشاب سے دھونے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہمارے ہاں عجیب ریت پڑ گئی ہے جو لوگ عوام کا خون چوستے ہیں وہی عوا م کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور ہم لوگ بیوقوفوں کی طرح اُن کے ہر بات کو سعی مان کر اُن کے پیچے دم ہلاتے پھرتے ہیں۔

لمبی لمبی گاڑیوں میں پھرنے والے کیا غریب کا دکھ درد سمجھ سکتے ہیں۔
اب بات کرتے ہیں آزادی کی جو کہ حقوق سے تھوڑی سی مختلف ہے۔ یہ تو سب مانتے ہیں کہ بے لگام آزادی بربادی کی وجہ بنتی ہے۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ ہم "Its my choice"دور میں راہ رہے ہیں ۔ بہت سی ایسی باتیں ہیں جن میں کسی کو بھی آزادی نہیں دی جاسکتی چاہے وہ لڑکی ہو یا لڑکا۔ ہمارے ہاں لڑکوں کو رات رات بھر گھر سے باہر رہنے کی آزادی دی جاتی ہے جو کہ ایک بہودہ حرکت ہے۔

اسی طرح کسی کو قتل کی آزادی نہیں دی جاسکتی۔ کسی کو معاشرئے میں بہودگی پھیلانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اگر کوئی سڑک پر ننگا پھر رہا ہے تو کیا یہ آزادی ہے ایسی آزادی کسی کام کی نہیں جو معاشرئے میں بگاڑ کی وجہ بنے۔ سنا ہے 60فیصد گوروں کو اپنے والد کا پتا ہی نہیں ہوتا کہ وہ کون ہے۔ اب ایسی بھی آزادی کس کام کی۔ ہاں سب کو لکھنے پرھنے کی آزادی ہونی چاہیے۔

سب کو اپنی مرضی سے سیاسی جماعت میں شامل ہونے کی آزادی ہونی چاہیے۔ تمام لڑکیوں کو سکول و کالج جانے کی آزادی ہونی چاہیے، سیر و تفریح کی آزادی ہونی چاہیے۔ آزادی وہی بھلی جس سے نقصان کا اندیشہ نہ ہو اگر عزت جانے کا ڈر ہو تو ایسی آزادی کو چاٹنا ہے۔ لوگوں کو آزادی کے نام پر بہکانے والے ہر موڑ پر ملتے ہیں، جب اپنا اُلو سیدھا ہو جاتا ہے تو اینٹیں مارنے والوں میں سب سے آگے یہی ہوتے ہیں۔

کیا بدصورت کتے پالنے والے خوبصورت انسانوں سے محبت کرسکتے ہیں۔ انسان کی تذلیل کرنے کا نام آزادی نہیں بلکہ محبت ،پیار اور سلوک سے رہنے کا نام آزادی ہے۔ ہمیں اپنے معاشرئے میں اک نئی طرح کی آزادی متعارف کروانی چاہیے جس سے معاشرئے میں بگاڑ نہیں بلکہ سنوار پیدا ہو۔ اسی آزادی سے ہم ترقی یافتہ اقوام کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ جینزیا نیکر پہننے کا نام آزادی نہیں ،آزادی وہ ہے جو آپ کو دماغی طور پر مضبوط بنائے۔

آپ میں اعتماد بڑھائے اسی کو آزادی کہتے ہیں۔ گوروں کی نقل کرنی ہے تو کرو مگر ہر اُس بات میں جن باتوں کو اپنا کر انہوں نے ترقی کی مناذ ل طے کیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ بکنی پہن کر قوموں نے ترقی نہیں کی۔ دن رات ایک کر کے آج یہ مقام حاصل کیا ہے کہ ہم جیسی اقوام اُن کی مدد کی ہمیشہ منتظر رہتی ہیں۔
لہذا حقوق آزادی کو ساتھ ساتھ چلانے کے لیے بہت سے اقدامات کرنے پڑتے ہیں ،یہ نہیں کہ صاحب بہادر کا بیٹا تو لینڈ کروزر میں پھر رہا ہے مگر جن کے پیسوں سے یہ گاڑی آئی ہے اُن کے بیٹوں کو دو وقت کی روٹی نہ ملے۔

لیڈران اور اُن کا کنبہ خود تو امریکہ لندن سے علاج کروایں اور ملک میں سرکاری ہسپتال لوگوں کو دھکے دے کر نکال رہیں ہوں۔ ایک بریانی کی پلیٹ لیے ااپنا ووٹ دینے والوں کو اگر اپنی آزادی پیاری ہے تو اپنے اندر حقوق و آزادی کا شعور بیدار کریں اسی سے آزادی ممکن ہیں، ورنہ دو وقت کی روٹی تو بھکاری بھی کھا کر سو جاتا ہے۔ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ آپ کا ہاتھ لینے والا ہو گا یا دینے والا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :