مسئلہ کشمیر اور بھارت میں فکری بیداری

جمعرات 23 اپریل 2015

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

یہ اشونی کمار چوپڑا ہیں ۔ ان کا تعلق بھارت کی حکمران جماعت بھارتی جنتا پارٹی سے ہے ۔ موصوف حالیہ انتخابات میں بے جے پی کے ٹکٹ پر رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے ہیں۔رکن پارلیمنٹ کے علاوہ چوپڑا نئی دہلی سے شائع ہونے والے ایک ہندی اخبار کے مالک اور ایڈیٹر بھی ہیں ۔چوپڑا نے گزشتہ روز نئی دہلی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ کشمیری عوام بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے ۔

اشونی کمار کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ کشمیریوں کے جذبہ حریت سے پوری طرح آگاہ ہیں اور جانتے ہیں کہ مفتی سعید ایک بہروپیا ہے ۔ چوپڑا مزید کہتے ہیں کہ کشمیری عوام بھارتی تسلط سے آزادی چاہتے ہیں اور ہمیں اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔محترم قارئین یہ خیالات اور جذبات محض ایک اشونی کمار چوپڑا کے نہیں ہیں بلکہ بھارت میں رہنے والا ہر حقیقت پسند شخص اسی قسم کے خیالات کا حامل ہے ۔

(جاری ہے)

تعصب اور جانبداری الگ بات ہے وگرنہ انصاف اور دیانتداری اس امر کی متقاضی ہے کہ کشمیر جیسی شورش زدہ ریاستوں کے مسائل کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جانا چاہئے ۔ اگر کشمیری یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ 30مارچ 1951کو اپنی منظور کردہ قرار داد نمبر 1951/91پر علمدرآمد کروائے،جس کے تحت بھارت اور پاکستان اس امر کے پابند ہیں کہ وہ وادی کشمیر میں آزادنہ اور غیر جانبدرانہ رائے شماری کا اہتمام کریں تاکہ کشمیری عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ از خود کر سکیں ، تو کوئی بھی انصاف پسند شخص کشمیریوں کے اس مطالبے کو غلط کیسے قرار دے سکتا ہے ۔

اسی طرح اگر کشمیری عوام بھارت کو جواہر لال نہروکی جانب سے کئے گئے وعدے یاد کرواتے ہیں تو اس میں کیا مضائقہ ہے ؟۔ چھ دہائیوں پر محیط پر امن کوششوں کے تسلسل کے بعد بھی اگر بھارت یا اقوام متحدہ کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق دینے میں ناکام ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم کشمیروں سے یہ تعرض کریں کہ ان کے بھائی بیٹوں نے بندوق کیوں اٹھائی ہے یا کشمیری نوجوان بھارتی فورسز پر حملہ آور کیوں ہوتے ہیں ۔


اشونی کمار پہلے پارلیمنٹریں یا صحافی نہیں جنہو ں نے کشمیری عوام کے جائز حق کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے مطالبات تسلیم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے اس سے قبل ٹائمز آف انڈیا کے ایڈیٹر سوامی ناتھن بھی برملا کہہ چکے ہیں کہ ” چھ دہائیوں کی کوششوں کے بعد بھی کشمیروں کی ناراضگی پچھلے کسی بھی دورسے زیادہ ہی دکھائی دیتی ہے اور اب مجھے ایسا لگنے لگا ہے کہ ہندوستان کشمیر پر ایسے ہی حکمرانی کرنا چاہتا ہے جیسے برطانیہ نے ہندوستان پر کی تھی ۔

کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق پر رائے دیتے ہوئے سوامی ناتھن کہتے ہیں کہ ”اگر زمینی حقائق بدل جائیں تو ایسے معاہدے بے کار ہو جاتے ہیں ہندوستانی راجہ مہاراجوں نے بھی برطانوی راج کے ساتھ الحاق کے معاہدے کئے تھے ،لیکن جب آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو ان دستاویزات کی کوئی اہمیت باقی نہ رہی ۔ہم نے ساٹھ سال پہلے کشمیریوں سے ریفرنڈم کا وعدہ کیا تھا اب ریفرنڈم کروانے کا وقت آگیا ہے اور اس ریفرنڈم کا فیصلہ کشمیری عوام کو ہی کرنے دیا جائے “۔

بھارت میں داخلی سطح پر کشمیر کے حوالے سے سوچ میں کس حد تک تغیر بپا ہوا ہے اس کے واضح تصویر اروندھنی رائے کا کشمیر کے حوالے سے نقطہ نظر ہے۔ واضح رہے کہ اروندھنی رائے ایک سماجی کارکن ہیں اور وہ متعدد کتابوں کے مصنف بھی ہیں ۔اروندھنی کا کہنا ہے کہ ”کیا موجودہ حالات میں کشمیر کو ہندوستان سے اور ہندوستان کو کشمیر کو سے آزادی حاصل نہیں کر لینی چاہئے ؟“۔

اب زرا بھارت کے مشہور انگریزی اخبار ”ہندوستان ٹائمز“کے ایڈیٹر ویر سنگھ کے خیا لات ملاحظہ فرمائیں ۔ویر سنگھ کہتے ہیں ”اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ گزشتہ چند مہینوں سے ہمیں جو بتایا جا رہا تھا کہ حالات معمول پر لوٹ رہے ہیں وہ سب غلط تھا ۔ ہمیں امن کی ظاہری علامتیں تو نظر آتی ہیں لیکن وہ ناراضگی اور غصہ نہیں جو کشمیریوں کے دلوں میں ہے ۔

ہم کچھ بھی کر لیں حالات بہتر نہیں ہوئے ۔اگر ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں تو ہم ان لوگوں پر کیسے حکمرانی کر سکتے ہیں جو ہمارے ساتھ نہیں رہنا چاہتے ، ریاست کشمیر میں ریفرنڈم کرانا چاہئے اگر وہ ہمارے ساتھ رہنا چاہیں تو ان کا استقبال ہے ، اگر نہیں تو انہیں زبردستی روکنے کا ہمیں کوئی حق حاصل نہیں ،ہمیں اب اس حل کے بارے میں سوچنا ہوگا جس کے بارے میں پہلے سوچنا بھی ممکن نہ تھا “۔

مشہور بھارتی کالم نگار جگ سوریابھی ویر سنگھ ہی کی طرح سوچتے ہیں ۔جگ سوریا کہتے ہیں کہ ”کشمیر سے علیحدگی کا وقت آگیا ہے ،وادی کشمیر سے جو آواز اٹھ رہی ہے وہ پاکستان کی نہیں خود کشمیریوں کی ہے اور پیغام بالکل واضح ہے کہ ہندوستان کو اب کشمیر کو آزاد کر دینا چاہئے ۔ضرورت پڑی تو ہندوستان کشمیر کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہے لیکن ہندوستان کے وجود کی بنیاد جمہویت اور جمہوری انحراف کا حق اور آزادی ہے اور اس بنیاد کے بغیر وہ قائم نہیں رہ سکتا ۔

سید علی گیلانی مہاتما گاندھی نہیں لیکن اگر انہوں نے اور ان کے حامیوں نے عدم تعاون جیسے وہ ہتھیار اٹھا لیے جو برطانیہ سے آزادی کیلئے استعمال کئے گئے تھے توکیا ہوگا؟۔ کیا ہندوستان اس پر امن تحریک کے خلاف طاقت کا استعمال کر پائے گا جیسا کے برطانیہ نے مجاہدین آزادی کے خلاف کیا تھا ”۔
درحقیقت اہلیان کشمیر کی لازوال قربانیوں اور استقامت نے ہر انصاف پسند کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ قوت اور طاقت کی بنیاد پر کشمیری عوام کے بنیادی حقوق کو سلب کرنا انسانیت کا تمسخر اڑانے کے مترادف ہے ۔

امر واقعہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے بلند ہونے والی امن اور آزادی کی صدا نے انسانی حقوق کے علمبرداروں کے سامنے اس استفسار کو لاکھڑا کیا ہے کہ خطہ کشمیر کی خواتین کی عفت کی پامالی ، معصوم بچوں کا خاک و خون میں نہانا، نوجوانوں کی غیر قانونی اسیری اور عمر رسیدہ افراد کو زدوکوب کرنا انسانی حقوق کے کس ضابطے اور اصول سے ہم آہنگ ہے ؟۔ اب یہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں پر منحصر ہے کہ وہ کشمیریوں کے اس سوال کو اپنے ضمیر تک رسائی دیتے ہیں یا نہیں ،اور اگر اس سوال کو زیادہ دیر تک التوا کا شکار رکھا گیا تو پھر یقینی طور پرجنوبی ایشیاء میں امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو پائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :