کرامت بخاری کا صبر

جمعرات 16 اپریل 2015

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

تہذیب، تمدن،ثقافت اور علم و فن کے گہوارے لاہور میں بہار اترتی ہے تو باغات اور سیرگاہیں رنگ برنگے پھولوں کی مہک سے معطر ہوجاتی ہیں۔عوامی مراکز میں شعر و سخن اور موسیقی کی مجلسیں منعقد ہوتی ہیں جہاں ذوق جمال اور تسکین روح کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس بار دفتری مصروفیات نے مجھے ایسا گھیرے رکھاہے کہ جشن بہاراں کی کسی تقریب سے لطف اندوز ہونے کا موقع نہ مل سکا،لیکن معروف شاعر و ادیب اورمحبتیں بانٹنے والے جناب کرامت بخاری کے فن اور شخصیت کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں شرکت سے سارا ملال دور ہوگیا۔


اس تقریب کا انعقاد انٹرنیشنل رائٹرز فورم کی روح رواں (ڈاکٹر عمرانہ مشتاق) اوربزم خیال و فن کے بانی ممتاز راشد نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔شہر کی معروف علمی و ادبی شخصیات کے علاوہ جناب کرامت بخاری کے پرستاروں کی بھی اچھی خاصی تعداد تقریب میں موجود تھی۔

(جاری ہے)

جناب ساجد گل،سلمیٰ اعوان،ریحانہ اشرف ،توقیر صدیقی ،ڈاکٹر کنول فیروز،اعتبار ساجد،سرفراز سید اور ڈاکٹر اجمل نیازی نے کرامت بخاری کے فن اور شخصیت پر مضامین پڑھے اور ان سے برس ہا برس کے تعلقات کے واقعات سنائے ۔

میرا بھی کرامت بخاری سے گزشتہ بارہ سال سے چھوٹے بھائی کا رشتہ قائم ہے۔ یہ 2001ء کے اوائل کا تذکرہ ہے میں نوجوانی کے بہترین مہینے بغیر تنخواہ لیے تین اخبارات میں گزارنے کے بعد مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہوگیا تھا۔ بدقسمتی سے ان دنوں ایک ”بے باک “صحافی اور اخباری ادارے کے مالک نے اپنے اخبار میں کارکنان صحافیوں سے بلا معاوضہ کام لے کر یہ ”خبریں“ دیگر اخباری مالکان تک پہنچا دی تھیں کہ قلم کے مزدوروں کو محنت کا معاوضہ نہ بھی دیا جائے تو وہ اپنے خونِ جگر سے ادارے کی آبیاری کرنے کا فرض ادا کرتے رہتے ہیں۔


مایوسی اور یاسیت کے ان تلخ دنوں میں جناب کرامت بخاری نے مجھے عملی زندگی میں متحرک ہونے کا حوصلہ دیا یہ ان کی محبت کی کرامت تھی کہ میرا قلم اور قرطاس سے پھر ناتا جُڑ گیا۔اس بارہ سالہ رفاقت میں مجھے اور ہمارے گپ شپ گروپ کے دیگر ساتھیوں واجد علی،ڈاکٹر عظیم اور تنویر وٹوکو ان کے ساتھ بے شمار ملاقاتوں کا موقع ملا ہم نے انہیں ہمیشہ عجزو انکساری اور درویشی کی خوشبو سے مہکتا ہوا پایا۔


کرامت بخاری کو قدرت نے سادہ، عام فہم الفاظ کو استعمال کرتے ہوئے چھوٹی بحروں کے شعروں میں گہری سے گہری اور ان کہی بات کرنے کے ہنر سے نواز رکھا ہے۔اب تک کے فنی سفر میں” تشنگی“،”کیوں جاگتے ہو“،”رنجِ رائیگاں“،”دستِ آرزو“ ،”جزیرہ خواب“ پر مشتمل چھ شعری مجموعے اس کے علاوہ تنقیدی تاثرات اور تخلیقی تاثرات کے عنوانات سے دو تنقیدی جائزوں پر مشتمل کتب بھی شائع ہو چکی ہیں۔

اِک زمانے میں وہ مشاہیرعلم و ادب کے انٹر ویو بھی کیا کرتے تھے، ان انٹریوز پر مشتمل ایک کتاب” مشاہیر کے انٹرویوز“ شائع ہوچکی ہیں کرامت بخاری کی شخصیت اور فن پر دوکتب شائع ہوچکی ہیں ان کی شاعری کے انگریزی ترجمے کی کتاب بھی منظر عام پر آچکی ہے۔کرامت بخاری وہ واحد پاکستانی شاعر ہیں جن کی شاعری اندرون و بیرون ملک ایک سو بیس جرائد میں باقاعدہ سے شائع ہوتی ہے۔

انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کی شخصیت اور فن پرایجوکیشن یونیورسٹی لاہور،اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور میں ایم اے کے مقالے لکھے جاچکے ہیں جو کہ کسی شاعر و ادیب کے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔
کرامت بخاری پیشہ کے لحاظ سے بیروکریٹ ہیں ان کا تعلق آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس گروپ سے ہے۔

انہوں نے اپنی بیس سالہ سرکاری نوکری نہایت ایمانداری اور فرض شناس کے طورگزاری ہے۔اہم ترین عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود حرام کا ایک روپیہ بھی قبول نہیں کیااور نہ ہی کسی طاقت ور سے طاقتورشخص کی سفارش پر کوئی غلط کام کیاہے۔
ان کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں جناب کنول فیروز اور ڈاکٹر اجمل نیازی نے ان کی ادبی خدمات کے علاوہ بحیثیت سرکاری افسر ان کی ایمانداری اور قناعت پسندی کا ذکر بھی کیا۔

ڈاکٹر اجمل نیازی نے کرامت بخاری کے افسر اعلیٰ کی ان زیادتیوں کا ذکر بھی کیا جن سے یہ درویش صفت شاعر ان دنوں نبرد آزما ہے۔ ڈاکٹراجمل نیازی نے کرامت بخاری کو بہادر آدمی قرار دیا۔ ڈاکٹر اجمل نیازی کی اس بات سے مجھ سمیت ہر وہ فرد متفق ہے جو کرامت بخاری کے دوستوں میں سے ہے۔اصولوں کی پاسداری اور تقویٰ کی حد تک اپنے فرائض منصبی سرانجام دینے والے کرامت بخاری اکتوبر2011میں ملتان ڈویژن میں ایک اہم سرکاری ادارے کے سربراہ کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے تھے جب ان کے محکمہ کے سربراہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان بلند اختررانا نے ایک ذاتی کام نہ کرنے کی پاداش میں سزا دینے کا فیصلہ کرلیاتومشکلات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔

کرامت بخاری کے ساتھ پہلی زیادتی یہ کی گئی کہ انہیں گریڈ21میں ترقی نہیں دی گئی حالانکہ وہ اس گریڈ کی اہلیت پر پورا اترتے تھے ۔کرامت بخاری نے ملتان ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ ہائی کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ کردیا تو ان کا تبادلہ کردیا گیا حتیٰ کہ ایک سال میں آٹھ مختلف شہروں میں تبادلے کیے گئے۔ایسا کرکے جہاں انہیں ذہنی اذیت سے دوچار کیا گیاوہاں اس بات کا اہتمام کرنے کی بھی کوشش کی گئی کہ وہ کسی شہر میں زیادہ عرصے کے لیے تعینات نہ رہیں اور قانون کے مطابق اس شہر کی عدالت میں داد رسی کی درخواست دائرنہ کرسکیں۔

اسی اثناء میں ان کی تنخواہ روک دی گئی۔ایک سفید پوش افسر نے تنخواہ کے بغیر کس طرح گزارہ کیا ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں انہوں نے ماہ رمضان اور عید بھی بغیر تنخواہ کے کے گزاری ان کے پاس وکیل کو دینے کے لیے رقم بھی نہیں تھی ایک دوست وکیل نے بلا معاوضہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں تنخواہ جاری کروانے کے لیے درخواست دائر کر دی۔ ہائی کورٹ کے حکم پر تنخواہ تو جاری ہوگئی مگر چند ماہ بعد پھر بند کردی گئی۔

کرامت بخاری کے حق میں اسٹیبلیشمنٹ ڈویژن دومرتبہ سمری وزیر اعظم کو ارسال کرچکی ہے جسے دونوں مرتبہ وزیر اعظم نے منظو رکیا اور کرامت بخاری کو اس کا جائز حق دینے کے احکامات جاری کئے۔مگر وزیر اعظم کے احکامات پر آج تک اس افسر نے عمل درآمد نہیں کیا جس کے خلاف سپریم جوڈیشنل کونسل میں کیس چل رہا ہے اور جسے سابق وزیر اعظم نے آؤٹ آف میرٹ 20گریڈ سے22گریڈ میں ترقی دے کرآڈیٹرجنرل آف پاکستان بنا دیا تھا۔

کرامت بخاری کے ناکردہ گناہوں کی سزا جاری ہے انہیں نہ کسی پوسٹ پر تعینات کیاجارہاہے نہ اگلے گریڈ میں ترقی دی جارہی ہے اور نہ ہی تنخواہ دی جا رہی ہے ۔اس صورت حال پر جب بھی بات ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں۔میں ہر زیادتی پر صبر کررہاہوں کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتاہے۔اور انہیں اجر عظیم سے نوازتاہے۔اس باجمال اور باکمال شاعر کی غزل کے چند اشعار نذرِقارئین ہیں:
جلتے بجھتے سماں کے موسم میں
ہم ہیں وہم و گماں کے موسم میں
زندگی یوں بکھرتی جاتی ہے
جیسے پتے خزاں کے موسم میں
سمت کا خوف ہے سفینے کو
آج کے بادلوں کے موسم میں
سچ کی تاریخ لکھی جاتی ہے
صرف تیر و سناں کے موسم میں
خواہشوں کی نمو نہیں رکتی
جسم کے خاکداں کے موسم میں
موم کا جسم لے کے مت جاؤ
دھوپ کے سائباں کے موسم میں
میرے دل کے مکاں کے موسم میں
تم جہاں ہو وہاں پہ لے جاؤ
مر نہ جائیں یہاں کے موسم میں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :