یمن میں امن

پیر 13 اپریل 2015

Danish Hussain

دانش حسین

بات تو یمن میں امن کی کی جا رہی ہے. لیکن دراصل یمن میں امن نہیں بلکے پورے مشرق وسطی میں قیام امن کی بات ہے. اور یمن میں قیام امن پورے مشرق وسطی اور مسلم ورلڈ کے لئے لازم و ملزوم ہے.

پہلی بات تو یہ ہے، کہ یمن کے تنازعے پر مشرق وسطی کے مسلم ممالک کا اتحاد، کاش ہمیں فلسطین،غزہ اور برما کے مسلمانوں کے لئے بھی نظر آتا اور تنازعے کشمیر میں بھارتی جارحیت میں بھی مسلم ممالک کا اتحاد کبھی نظر نہیں آیا.لیکن یمن اور سعودی عرب کے ذاتی تنازعے پر چند مسلم ممالک سعودی عرب کے اتحادی بن گئے. حوثی باغیوں سے لڑی جانے والی لڑائی میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے، کہ حرمین شرفین کو حوثی باغیوں سے خطرہ ہے۔ اوریہ بھی غلط تاثر دیا جا رھا ہے کہ حوثی باغی شیعہ ہیں۔جوکہ فرقہ واریت کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔

(جاری ہے)

حالانکہ حیقیت اس سے متضاد ہے۔ حوثی بارہ امام کو مانتے ہیں اور امام شافعی کے پیروکار ہیں۔ حوثیوں کے عقائد بریلوی حضرات سے مماثلت رکھتے ہیں۔ 25 ہزار کے قریب ان حوثیوں کی لڑائی سعودی عرب سے نہیں بلکہ سعودی عرب کی یمن میں کی مداخلت سے ہے۔ اور جہاں تک بات حرمین شرفین کی ہے تو کوِئی بدترین مسلمان بھی ایسا نہیں سوچ سکتا۔ چاہے وہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتا ہو۔ حرمین شرفین اس کے لیے محترم ہے۔اور یمن میں موجود حوثی باغی مکہ سے تقریباَ1500کلومیٹر دورہیں۔ حرمین شرفین تو دور کی بات،سعودی عرب کے بارڈر کو بھی شاید کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔اور خدانخواستہ حرمین شرفین کو کسی نے بھی میلی آنکھ سے دیکھا چاہے وہ دنیا کی جتنی بھی بڑی طاقت ہو، تو یقیناَ پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک بھرپور دفاع کریں گےاوراس دفاع کا استحقاق ہمیں حاصل ہوگا۔
موجودہ بگڑتی صورتحال میں مسلم ممالک کو سعودی عرب کا فریق بننے کی بجائے ثالث کا کردار ادا کرنا چائیے۔ اور یہی پورے خطے کے حق میں بہتر ہے۔اور جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو پاکستان ہمیشہ سےمسلم دنیا میں ایک توجہ کا مرکز رہا ہے۔اور سعودی عرب تو ویسے بھی ہمارا برادر ملک ہے۔جن سے کئی معاملات میں ہماری وابستگی رہتی ہے۔ اور اس تنازعے پر بھی سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کو دعوت عام موصول ہوئی ۔جبکہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو خود حالت جنگ میں ہے۔ اور پاکستان کو اپنی تمام تر توجہ آپریشن ضرب عضب پر مرکوز کرنی ہے۔ایسے میں ایک مسلمان ملک کے خلاف فریق بننا قطعی طور پر پاکستان کے مفاد میں نہیں۔پاکستان کو چاہیے کہ فریق بننے کی بجائے مصالحت کار کا قائدانہ کردار ادا کرے۔ اور یہ بات خوش آئند ہے کہ پارلیمنٹ نے بھی متفقہ طور پر یہی فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان فریق بننے کی بجائے مصالحتی کردار ادا کرے گا۔ افغانستان اور بھارت بارڈر پہلے ہی غیرمحفوظ ہیں،ایسے میں ایران بارڈر پر شورش ہوناخطرناک ثابت ہوسکتاہے۔پاکستان حرمین شرفین کی حفاظت کے وعدےپر من وعن عمل کررہاہے۔ اورتقریباَ1000پاک فوج کے جوان حرمین شرفین کی حفاظت پر مامور ہیں۔ دیکھا جائے تو حرمین شرفین کی حفاظت تو حوثیوں پر بھی عائد ہوتی ہے، کیونکہ حرمین شرفین تمام مسلمانوں کےلیے محترم ہےاور ہمارےایمان کا حصہ ہے۔ پاکستان،ترکی سمیت دوسرے ممالک کو چائیے کہ اس معاملے میں مصالحتی کردار ادا کریں۔ اور سعودی عرب اور ایران کی ذاتی لڑائی کا محاذ یمن کو بننے سے روکیں،تاکہ یمن سمیت پورےخطے میں قیام امن ہوسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :