آئین پاکستان اور اس کی پاسداری

اتوار 12 اپریل 2015

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

میرے ایک دوست ، میری ہی طرح عمر رسیدہ ہیں۔ ایک دن کہنے لگے۔یار !ہم نے یہاں کینیڈا آ کر بھی کچھ نہیں سیکھا۔ میں نت پوچھا ۔ کیا مطلب ؟ میرے سوال کے جوب میں انہوں نے کہا۔یا کمپیوٹر پر چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے بچوں سے مدد لینی پڑتی ہے۔میں نے اس وقت تو ان کی بات کے جواب میں ہاں یہ تو ہے کہہ کر بات ختم کر دی۔ اُردو پوائنٹ پر لکھنے والوں کو میں اپنی فیملی کے لوگوں کی طرح دیکھتا ہوں۔

دو چار ہفتے پہلے محترمہ پروفیسر رفعت مظہر صاحبہ کے کالم میں ان کی صاحبزادی کی شادی خانہ آبادی کے بارے میں پڑھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ میں نے محترمہ رفعت اور پروفیسر مظر صاحب کے لئے مبارک باد کا ایک پیغام لکھا۔ جب پیغام کو بھیجنے کی باری آئی تو اپنے دوست کی بات سچائی کی مہک لئے میرے پاس آ کر بیٹھ گئی۔

(جاری ہے)

اردو پوائنٹ کا پہلاس سسٹم کچھ آسان تھا۔

کوئی کالم اچھا لگتا تھا تو میں اپنی پسندیدگی کا اظہار کر کے فوراً بھیج دینا تھا۔میرا پیغام آج بھی میرے کمپیوٹر پر محفوظ ہے۔
جناب مظہر و بیگم مظہر صاحبہ۔
آپ کی صاحبزادی کی شادی خانہ آبادی کے بارے میں پڑھ کر بے حد خوشی ہوئی۔میری دعا ہے کہ اللہ سبحان تعالی اپنی شان ِ کریمی و رحیمی کے صدقے آپ کی لخت جگر کو زمانے بھر کی خوشیوں اور نعمتوں سے نوازے۔

آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راقم ایکبار پھر اپنی بات دھرا رہا ہے۔” اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان ٹریلر پر اراکین حکومت، بالخصوص میاں نواز شریف کے لئے بڑی غیر پارلیمانی زبان بولتے رہے ہیں۔“ لیکن جلسے جلوسوں کی زبان کو پارلیمانی زبان کے مقابل لانا ، بالکل ایسے ہی ہے ۔ جیسے اپنے کسی دشمن کو مسجد میں کھڑے ہو کر گالیاں دہی جائیں اور اپنی اس حرکت پر شرمندگی کا اظہار کرنے کے بجائے، بڑی معصوم سی شکل بنا کر یہ کہا جائے کہ ہم نے بڑی گالیاں سنی ہیں، ہم نے بڑی گالیاں سنی ہیں۔


اسد شریف میرے چند پسندیدہ صحافیوں میں سے ایک ہیں۔آج اُن کا ٹالک شو ”پاور پلے “ دیکھ کر بڑا دکھ ہوا ۔سارا پروگرام تحریک انصاف کے پارلیمنٹ سے مستعفی ہو کر واپس آنے پر تھا۔ سینیٹر زاہد صاحب ،
نہ جانے کس پارٹی سے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے ظفر شاہ صاحب اور اسد شریف تینوں حضرات نے پاکستان تحریک انصاف کے آدمی کو گھیر رکھا تھا اور اس کے چھوڈے اتار رہے تھے۔


پاکستان کا آئین کیا کہتا ہے ؟ اسے تو میں کوئی اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہوں۔میرے قریب وہ موم کی ناک سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا اور اسے موم کی ناک بنانے والے اس کے محافظ ہیں۔کم بیش چار پانچ برس پہلے محترم سہیل وڑیچ یہا تشریف لائے تھے۔ یہاں کے کثیر الاشااعت اخبار ا ، جو امریکہ اور کینیڈا کے کئی بڑے شہروں سے شائع ہوتا ہے، ”پاکستان پوسٹ “ نے موصوف کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام بھی کیا تھا اور مجھ نا چیز سے اس کی صدارت بھی کرائی تھی۔

سہیل وڑیچ صاحب نے کمال مہربانی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے دستخطوں کے ساتھ اپنی کتاب ”جسٹس منیر سے جسٹس افتخار تک،عدلیہ کے عروج و زوال کی کہانی۔ بھی عنایت فرمائی تھی۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس کتاب کو پڑھ کر پاکستان کی عزت و وقار کو اپنی عزت سمجھنے والے سبھی پاکستانیوں کو بے حد دکھ ہوا ہو گا۔ ہمارے معزز ججوں کے نظریہ ضرورت نے ہمارے آئین کو موم کی ناک بنا دیا ہوا ہے، اس لئے آئین کیا کہتا ہے۔

اسے تو میں کوئی اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہوں، لیکن دنیا بھر میں جو ایک رواج رائج الوقت ہے۔ میں اس کی بات ضرور کروں گا۔ استعفیٰ منظور ہو جائے تو استعفیٰ ، منظور نہ ہو تو ردّی کاغذ کا ایک ٹکڑا۔سوال ہے استعیفوں کو منظور کرنے کا اختیار کس کے پاس تھا ؟ ٹحریک انصاف کے پاس یا مسلم لیگ (ن) کے پاس، جو حکومت میں ہیں۔ عمران خان تو اپنے ٹریلر پر کھڑے ہو کر بار بار اپنے استعفوں کو منظور کرنے کے لئے کہتے رہے ہیں۔

یہاں تک کہ صاحب اختیار لوگوں پر برستے بھی رہے ہیں۔ اور اسپیکر قومی اسمبلی مسلم لیگ (نٌ) کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔کچھ صحافیوں نے جب ان سے پوچھا کہ آپ نے سات ماہ کی طویل مدت میں استعفوں کو منظور کیوں نہیں کیا۔ تو انہوں نے اس سوال کو مذاق میں اڑدیا۔ کیا اب سارا نزلہ صرف تحریک انصاف پر ہی گرانا زیادتی نہیں ہے ؟ کیا میاں صاحب کا یہ جملہ کہ ہم نے بہت گالیاں سنی ہیں۔

ہم نے بہت گالیاں سنی ہیں، اس بات کا شاہد نہیں کہ یہ سارا تماشا محض ان گالیوں کا حساب چکانے کے لئے کیا گیا ہے۔پارلیمنٹ کے وقار کو خاک میں ملا کر اپنی کسی بات کا بدلہ لینا بھاٹی یا گوالمنڈی کے کسی ماجھے ساجے پر تو جچ سکتا ہے لیکن ایک وذیر اعظم کو زیب نہیں دیتا۔جہاں تک تحریک پاکستان کے استعفوں کا تعلق ہے۔عمران خان ۹۲ میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ سے پہلے کرکٹ سے بھی مستعفی ہو چکے تھے۔

لیکن جب جنرل ضیا الحق (مرحوم ) نے ان سے درخواست کی کہ وہ ورلڈ کپ میں پاکستان کی قیادت کر نے کے لئے واپس آ جائیں تو وہ واپس آ گئے۔ اُس وقت تو کسی نے عمران خان کو ”یو ٹرن“ کا طعنہ نہیں دیا تھا۔ بلکہ وہ قوم کی آنکھوں تارا اور ہیرو تھے۔ ان کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ وہ اربوں کھربوں روپیوں کے لٹیروں کے لئے آ ئینہ بن کر سیاست میں آ گئے ہیں۔

جب کہ کسی حمام میں، جہاں سبھی ننگے ہوں، آئینہ لے کر جانا اُن ننگوں کو اپنا دشمن بنانے والی بات ہے۔
میں آئین پاکستان کو اس لئے بھی نہیں مانتا کہ جس آئین میں قیام ِ پاکستان پر حملہ آوّر ہونے والو ں کے لئے کوئی سزا نہیں ہے۔اُس آئین کو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہیے اور اگر ایسے لوگوں کے لئے ہمارے آئین میں کوئی سزا ہے تو پھر چند وزارتوں پر اپنا ایمان بیچ دینے والے مولانا فضل الرحمن ، جن کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے ،” شکر الحمد اللہ کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے“ قومی اسمبلی میں کس مُنہ کے ساتھ نظر آتے ہیں۔

ہمارے وزیر دفاع جو کبھی پاکستان پر اپنی زندگیاں قربان کرنے والوں کے خلاف اپنے ہلکان کا مظاہرہ کرتے ہیں تو کبھی ایک انتہائی صاف ستھرا دامن رکھنے والے اور پاکستان کو اک نیا پاکستان بنانے کے داعی پر اپنے شرمناک ہلکان کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ کبھی قیام پاکستا ن کو ایک گناہ قرار دینے والے مولانا فضل الرحمن پر بھی تو برسیں ؟ لیکن وہ ایسے کیوں کریں گے ؟ یہ سب ایک ہی قبیلے کے لٹیرے ہیں۔کسی قومی مسئلے پر ا کٹھے ہوں نہ ہوں۔۔لیکن اپنی اپنی کرپشن کو ہضم کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر سیسہ پلائی دہیوار بن جاتے ہیں۔ان لٹیروں کی موجودگی میں پاکستان کا اللہ ہی نگہبان ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :