ینگ ڈاکٹرز ہڑتال اور صحت عامہ کی صورت حال

ہفتہ 11 اپریل 2015

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

پاکستان سمیت دنیا بھر میں مختلف دن منائے جاتے ہیں جن کے منانے کا مقصد متعلقہ ایشوز کو اجاگر کرنے کے ساتھ ان کا حل تلاش کرنا ہوتا ہے ،مہذب ممالک میں تو کسی بھی خاص عالمی دن اور ایشو کے حوالے سے گزشتہ برسوں کی کاردگی اور آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کرنا ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں کوئی بھی عالمی دن صرف اس لئے منایا جاتا ہے کہ یہ ”عالمی دن“ ہے ، صحت تعلیم ، انسانی حقوق، حیوانات، جمادات، نبادات سے لیکر ماحول اور ارتھ ڈے تک منایا جاتا ہے ۔

سمینار منعقد ہوتے ہیں ریسرچ پیپر پڑھے جاتے ہیں مسائل کے خاتمے کا عزم کیا جاتا ہے زندہ دنیا زندہ مسائل کے خاتمے کے لئے کوشاں رہتی ہے۔ گزشتہ دنوں 7 اپریل 2015ء کو پوری دنیا میں عالمی یوم صحت (ورلڈہیلتھ ڈے)منایا گیا ۔

(جاری ہے)

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی زیر سرپرستی یہ دن منا یا جاتا ہے۔1948ء میں WHO نے با قاعدہ 7 اپریل کو اپنے کام کا آغازکیا تھا۔ اْسی سال بالکل پہلی دفعہ ،پہلی ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کا انعقاد کیا گیا۔

اس اسمبلی نے یہ فیصلہ کیا کہ 1950 سے ہر سال 7 اپریل کا دن ورلڈ ہیلتھ ڈ ے کی حیثیت سے منایا جایا کرے گا۔ دنیا تو اس دن کو کبھی نہیں بھولتی لیکن پاکستان میں اخبارات چینلز اور حکومت بھی اس دن کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سے خاموش ہی دکھائی دیتی ہیں۔
ایک طرف پاکستان میں عوام کو بیک وقت صحت عامہ کے حوالے سے بے شمار مسائل درپیش ہیں۔ تو دوسری جانب ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتالیں، ہسپتالوں میں صحت عامہ کے حوالے سے نامناسب سہولیات اور معلومات کا فقدان جس کی بنا پر سیریس مریضوں کی ہلاکتوں کے ساتھ زخمیوں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے، ینگ ڈاکٹرز کے کیا مطالبے ہیں گزشتہ کئی برسوں سے وہ اپنے مطالبات حکومت کے گوش گزار کر رہے ہیں کبھی ہڑتالیں تو کبھی مذاکرات لیکن ان کے مطالبات کی جانب پیش رفت ہوتی نظر نہیں آتی حکومت کی جانب سے مذاکرات کا لولی پاپ دیا جاتا ہے اور اس طرح کچھ عرصہ کے لئے ان کے احتجاج کو روک دیا جاتا ہے اور پھر کچھ ہی عرصے بعد یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہو جاتا ہے آج کل بھی ینگ ڈاکٹر سڑکوں پر ہیں اور مریض سسک رہے ہیں ۔

دیکھا جائے تو ہسپتالوں میں ینگ ڈاکٹر پر بہت زیادہ بوجھ ہے ایمر جنسی سے لیکر او پی ڈی اور وارڈز میں مصروف عمل ینگ ڈاکٹرز کو زہنی پریشانی سے بچانے اور یکسوئی سے کام کرنے کے ،لئے ان کے جو بھی جائز مطالبات ہیں حکومت کو ان پر ٹھنڈے دل سے غور کرتے ہوئے مان لینا چاہیے تا کہ مریضوں کے ساتھ ان کے لواحقین کی مشکلوں اور پریشانیوں میں بھی کمی آئے اور لڑائی جھگڑوں کی نوبت بھی نہ آئے جو اکثر ہوتے رہتے ہیں۔


اس وقت پاکستان میں صحت عامہ کے حوالے سے درپیش مسائل ہیں جن کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے ملک بھر میں مریضوں کی تعداد کے حساب سے ڈاکٹرز کی قلت ہے اس ضمن میں کچھ عرصہ پیشتر پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن( پی ایم ائے) کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ملک بھر میں لگ بھگ 118 میڈیکل کالجز ہیں جن میں سے بمشکل 10 ادارے معیاری تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔

پاکستان میں طب کی تعلیم حاصل کرنے والوں میں 80 فیصد تعداد خواتین کی ہوتی ہے، جن میں سے بیشتر تعلیم مکمل ہونے کے فوری بعد اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائگی شروع نہیں کرتیں۔جس کی وجہ معاشرتی پریشر ہے شادی کے بعد خاوند انہیں گھر گھرستی اور بچے پالنے کے لئے بٹھا دیتے ہیں یوں ملک و قوم کے پیسے کے ضیاع کے ساتھ ڈاکٹروں کی قلت کا ایک اہم سبب ہے اور صحت عامہ سے متعلق کئی مسائل کی وجہ بھی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں لوگوں کو طبی سہولتوں تک عدم رسائی اور ڈاکٹرز کی کمی کی وجہ سے 80 فیصد زچگیاں گھروں پر غیر تربیت یافتہ دائیوں کے ہاتھوں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں نوزائیدہ بچے اور مائیں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں ہر 1,200 کے قریب افراد کے لیے ایک ڈاکٹر، لگ بھگ 1,700 افراد کے لیے ایک ڈینٹسٹ اور 1,700 مریضوں کے لیے ہسپتال کا ایک بستر ہے۔

میڈیکل کے شعبے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ ملک میں طبی سہولتوں کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ صحت کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے جو اس وقت مجموعی قومی پیداوار کا محض 0.23 فیصد ہے۔حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں صحت عامہ کی صورت حال کو بہتر بنانے کی مسلسل کوششیں کی جا رہی ہیں اور اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت صحت کے شعبے کی وفاق سے صوبوں کو منتقلی اسی عمل کی ایک کڑی ہے۔

اس کے علاوہ حکومت نے حال ہی میں دوا سازی کی صنعت کی نگرانی کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کے سلسلے میں آرڈینینس بھی جاری کیا ہے۔ جسے ایک احسن اقدام قرار اس لئے دیاجانا چاہیے کہ حکومت کے اس عمل اور نگرانی سے جعلی ادویات سے عوام کی جان چھوڑ سکتی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو اپنی ریاستی ذمہ داری اداکرتے ہوئے شہریوں کے بینادی حقوق جن میں صحت سر فہرست ہے کے بجٹ میں اضافے کے ساتھ ایسی پالیسیاں بنانی چاہییں جس کا فائدہ عوام کو اور ڈاکٹرز حضرات یہاں سے کوچ کرنے کا نہ سوچیں۔

ملک میں پہلے ہی ڈاکٹرز کی قلت ہے جس کا فائدہ عطائیت، جعلی حکیم اور عامل اٹھاتے ہیں عوام جان و مال سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اس لئے حکومت کو صحت عامہ کی صورت حال پر فوری توجہ دیتے ہوئے عوام کو صحت کی سہولتیں خصوصاً دیہاتوں میں فراہم کرنے کے لئے پائیدار اقدامات اٹھانے چاہیں۔ ہسپتالوں میں مریضوں کا رش یہ بتاتا ہے کہ دیہی آبادی کی شہروں کی جانب تیزی سے نقل مکانی نے بڑے شہروں میں صحت کے اجتماعی اور انفرادی مسائل میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔

پاکستان میں دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگ بہتر روزگار اور طرز زندگی کی تلاش میں تیزی سے شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ گاوں سے شہر تک کے اس سفر میں ان کے ہمراہ ہیپاٹائٹس اور ٹی بی سمیت لاتعداد بیماریاں بھی منتقل ہو جاتی ہیں اور نتیجے کے طور پر بڑے شہروں کے ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے اور سہولیات کم پڑ تی جارہی ہیں۔ صحت کے لئے مناسب فنڈز دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات درپیش ہیں۔ علاج معالجے کے لئے ادویات کا حصول اور ڈاکٹرز کی فیس عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہے۔عوام کے دکھوں کا ازالہ صرف حکومت ہی کر سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :