امریکا میں دہشتگردی کے94 فی صد مقدمات جھوٹے

بدھ 8 اپریل 2015

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

یہ بات ہم نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ امریکا کے ہی کچھ انصاف پسند قانون دان کہہ رہے ہیں۔یہ کہانی کچھ اسطرح ہے کہ امریکی قانون دانوں کا ایک وفد آج کل پاکستان کے دورے پر ہے۔اس وفد میں امریکا کے مشہور سول رائٹس ادارے” سول رائٹس ایکٹویسٹ این سی پی سی ایف“ کے ایگزیکٹو ڈائرکٹر اسٹیفن ڈاؤن اور کیتھی مین لے بھی شامل ہیں۔ان حضرات نے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ امریکا میں دہشت گردی کے ۹۴ فی صد مقدمات چھوٹے ہیں۔

معصوم لوگوں کوغیر اخلاقی اور غیر قانونی طور پر مصنوعی مقدموں میں ملوث کر کے غیر منصفانہ سزا دی گئی ہے۔اس سلسلے میں ہم نے شیخ اُسامہ بن لادن کی مصنوعی شہادت کے موقع پر اپنے ایک مضمون میں لکھاتھا کی مغرب میں اب بھی زندہ دل اور انصاف پسند ضمیرلوگ موجود ہیں جنہوں نے شیخ اُسامہ بن لادن کی شہادت اور اُس کو سمندر بر کرنے کی کہانی کو جعلی ثابت کیا ہے۔

(جاری ہے)

اب کراچی میں دورہ کرنے والے حضرات بھی انہی زندہ دل انصاف پسند ضمیر انسان ہیں جنہوں نے امریکا میں قائم کیے گئے مقدمات پر ریسرچ کر کے ثابت کیا ہے کہ مقدمات مصنوعی ہیں ۔شک کی بنیاد پر قائم کئے گئے ہیں اور جن قوانین کی بنیاد پر ان بے قصور لوگوں کو سزا سنائی گئیں ہیں ان نامناسب قوانین کو تبدیل ہونا چاہیے۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ پروجیکٹ سلام اور این سی پی سی ایف کے تحت کی جانے والی ریسرچ نے ثابت کیا ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے امریکا حکومت کی جانب سے قائم کیے گئے مقدمات کی اکثریت نا انصافی پر مبنی تھی۔

امریکا کی اکثریت دہشت گردی کی مہم درحقیقت مصنوعی اور جعلی طریقوں پر بنائے گئے مقدمات پر مشتمل ہے جس کا مقصد امریکی عوام کو یہ باور کرانا ہے کہ دہشت گردوں کی فوج امریکا میں جنگ ہار رہی ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں گرفتار افراد صرف حفظ ما تقدم اور احتیاطی اقدامات جیسی حکمت علمی کے تحت گرفتار کیے گئے تھے۔ اور حقیقت میں امریکا کو ان سے کوئی خطرہ لا حق نہیں تھا۔

ان حضرات کی اس سلسلے میں تازہ ریسرچ بعنوان”دہشت گردوں کی ایجاد: احتیاطی تدبیر کے تحت گرفتار کرنے کے قوانین“ دہشتگردی کے مقدمات کا عمیق جائزہ لیا گیا اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے بھیانک نتائج کو تنقید کانشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان قوانین کے تحت امریکی قانون نافظ کرنے والے اداروں نے بغیر کسی ثبوت کے ان افراد اور تنظیموں کو نشانہ بنایا جن کے نظریات، فکر اور مذہبی رجحانات ان کے اندازے کے مطابق ممکنہ طور پر ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔

امریکی قانون نافظ کرنے والے اداروں نے ان قوانین کو دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس ریسرچ کے تحت انہوں نے امریکا میں ۲۰۰۱ء سے ا ب تک دہشت گردی کے حوالے سے بنائے جانے والے ۳۹۹ مقدمات کا تفصیلی جائزہ لیا اور غیر منصفانہ قوانین کی تبدیلی پر زور دیا ہے۔ ان ۳۹۹ مقدمات کے جائزے سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کی ۹۴ فی صد مقدمات صرف احتیاطی تدبیر یا پھرمعمولی نوعیت کی غلطیوں کی بنیاد پر قائم کیے گئے ہیں جن کا دہشت گردی سے کوئی واسطہ نہیں۔

اب کوئی بھی انسان امریکا کے مسلمانوں کے خلاف مظالم کا اندازہ کر سکتا ہے کہ کس طرح گونتا موبے جزیرہ کی بنام زمانہ ٹارچل جیل ،جس میں ہاتھ پاؤں باندھے ہوئے بے گناہ لوگوں پر خونخوار کتے چھوڑے گئے تھے۔پانی میں کئی کئی گھنٹے منہ کی بل الٹا لٹکایاگیا تھا۔ افغانستان کی بلگرام جیل میں کیسے کیسے مظالم ڈھائے گئے تھے۔ جس کی قیدی نمبر ۶۵۰ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر ظلم کی انتہا کر دی گئی تھی۔

پھرامریکا کی تاریخ کا منفرد فیصلہ جو ایک یہودی جج نے ۸۶ سال قید کا سنایا تھا۔ افغانستان میں ہی طالبان کے اعزا کاٹ کر اپنے ڈرائنگ روموں میں سجانے کے لیے محفوظ کئے گئے تھے جس کا تذکرہ بھی اخباروں کی زینت بنتا رہا ہے۔ عراق کی جیل ابو غریب میں کیسے کیسے مظالم ڈھائے گئے۔ کچھ مظالم تو آزاد دنیا کے سامنے آشکار ہو چکے ہیں۔ اور کچھ کا پتہ نہیں چل سکا۔

نہ جانے مسلم دنیامیں امریکی پٹھو حکمرانوں نے کتنی خفیہ جیلیں سی آئی اے کو اپنے ملکوں میں بنانے دیں ہونگی۔ کتنے مظلوم لوگ ان جیلوں سے رہائی پا کر آئے اور اپنی اپنی ظلم کی داستانین سنائیں ۔ یہ سب امریکی مظالم کی داستانیں اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ ہمارے ملک کے ڈکٹیٹر مشرف نے ۶۰۰ پاکستانیوں کو ڈالروں کے عوض گرفتار کر کے امریکا کو فروخت کیا تھا جس کا اُس نے اپنی کتاب” سب سے پہلے پاکستان“ میں ذکر بھی کیا ہے۔

اب خود ہی امریکا کے زندہ دل ضمیر لوگوں نے ان بے گناہوں کی بے گناہی کو ثابت کر دیا ہے۔ ان بے گناہوں کے وارثین کا کہنا ہے کہ ہے کوئی مسلم حکمران جو ان مظلو موں کے لیے عالمی عدالتِ انصاف میں مقدمہ دائر کروائے اور ان کو انصاف دلائے ؟آج ہی کی دوسری اخباری خبر کے مطابق امریکا کی بدمعاشی کا اندازہ لگائیں کہ سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر لیون پنیٹا نے اپنی نئی کتاب ”وردھ فائیٹس“ میں انکشاف کیا ہے کہ اُس نے ایک کھانے کی دعوت، جس کا انتظام سابق صدر آصف زرداری نے کیا تھا میں سابق ڈاریکٹر آئی ایس آئی جنرل پاشا کے سامنے امریکا کے خلاف کسی بھی دہشت گردی پر جنگ کی دھمکی دی تھی۔

اس کھانے کی دعوت میں امریکا کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر رجم جونز بھی موجود تھے۔ اس پر جنرل پاشا نے احتجاج کیا تھا۔ امریکا نے جیسے ۹/۱۱ کا بہانہ بنا کر اسلامی دنیا کو تہس نہس کر دیا تھا۔ ماس ڈکٹرکیشن اسلحہ کا جھوٹا بہانہ بنا کر عراق کے دس لاکھ انسانوں کو موت کی نید سلا دیا گیا۔ افغانستان کے پہاڑوں میں چھپا بیٹھا اُسامہ بن لادن کو ۹/۱۱ میں ملوث کر کے ایک اسلامی ملک افغانستان میں لاکھوں لوگوں کو قتل کر کے اس ملک کا تورہ بورہ بنا دیا گیا۔

اب وہاں سے شکست کھا کر واپس ہوا ہے۔جگہ جگہ اسلامی دنیا میں شعیہ سنی فسادات کی آگ بھڑ کا کر بھی مسلمانوں سے صلیبی بدلہ لے رہا ہے۔پاکستان میں اپنے مقامی ایجنٹوں کے ذریعے افرا تفری پھیلائی ہوئی ہے جس میں اس کے مقامی ایجنٹ گرفتار ہوتے ہیں تو ان کی مدد کرتا ہے۔ ساری دنیا میں کہیں بھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے تو اسے مسلمانوں سے منصوب کر دیتا ہے۔

افغانستان کی ہاری ہوئی جنگ ہمارے ملک میں لے آیا ہے۔ جس سے پاکستان کا سوارب ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے۔پچاس ہزار سے زاہد فوجی اور سولین شہید ہو چکے ہیں۔یہودی اور نصرانی بین الاقوامی میڈیا نے امن و سلامتی کے دین اسلام کو دہشت گرد مذہب بنا دیا ہے۔ ساری اسلامی دنیا میں القاعدہ کے بہانے ڈرون حملے کر کے معصوم بے گناہ مسلمانوں کو شہید کرتا ہے۔


قارئین! ان ساری ظلم کی وارداتوں سے اسلامی دنیا کو کیا ہمارے پٹھو حکمران نجات دلا سکتے ہیں؟ اسلامی دنیا کے حکمرانوں کو اپنے رویے کو تبدیل کرنا ہو گا ورنہ آخرت میں یہ سارے مظلوم امریکا کے ساتھ ساتھ ان امریکی پٹھو حکمرانوں کے خلاف بھی اللہ سے انصاف مانگیں۔ دنیا میں ظالم کچھ بھی کر لیں لیکن آخرت میں اللہ کے عذاب سے نہ بچ سکیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :