خادم اعلیٰ اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی توجہ کیلئے

بدھ 8 اپریل 2015

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

بے سکونی اور اضطراب کی ملی جلی کیفیات ہیں جنہوں نے روح کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ دن بھر کی شدید تھکاوٹ کے بعد جب آنکھیں بند کر نے کی کوشش کرتا ہوں تو زین کی خون آلود نعش آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے ۔ بے قراری کا طو فان ہے جو وقت کے ساتھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ بیوہ اور غم سے نڈھال ماں کی آنکھوں سے چھلکتے آنسو،اداس چہرہ،بہنوں کی ”بھائی کو آخری بار دیکھ لینے دو“ جیسی دل کو پھاڑ دینے والی آہ و بکاکانوں میں گونجتی ہیں تو ہزار کوششوں کے بعد اس کیفیت سے فرار کی ہرسعی نا کام و نامراد واپس لوٹتی ہے۔


قارئین !ابھی تو 7سال قبل سیالکوٹ میں دو حافظ قرآن بھائیوں کے درد ناک قتل کا واقعہ ذہن سے محو نہیں ہوا،شاہ رخ جتوئی کے ہاتھوں شاہ زیب کا بے ہیمانہ قتل ، یو حنا آباد میں حیوان نما انسانوں کی طرف سے دو نوجوانوں کو مارنے، لاشوں کو گھسیٹنے اور پھر آگ لگا کے اپنی حوس کو بجھانے کے لئے انہوں نے جس کرب میں مبتلا کیا ابھی تو اس کا درد بھی کچھ کم نہیں ہوا تھا کہ طاقت اور شراب کے نشے میں مست امیر زادے نے اپنی محبوبہ کوخوش کرنے کے لئے نویں جماعت کے13،سالہ طالبعلم زین کہ جس کے سر سے والد کا شفقت بھرا سایہ بھی اُٹھ گیا تھا اور جو اپنے اور اپنی بہنوں کے تعلیمی اخراجات کو پورا کر نے اور گھر کے چولہے کو جلانے کی خاطر سموسے فروخت کر کے بو ڑھی ماں کا واحدسہارا بنا ہواتھاکو جس بے دردی سے قتل کیا اِس کی مثال کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتی ۔

(جاری ہے)


افسوس تو اس بات کا ہے کہ ملک عزیز میں پچھلی کئی دہائیوں سے 1فیصد طبقہ 99فیصد لوگوں پر حاوی ہے اور انہیں بھیڑ ، بکریاں سمجھتے ہوئے جب دل میں آتا ہے طاقت کے نشے میں مست یہ لوگ جب اور جہاں چاہتے ہیں زین جیسے معصوموں کو اپنی حوس کا نشانہ بنا ڈالتے ہیں۔ایسے بیسیوں واقعات ہیں جس میں ملوث با اثر لوگوں کی طاقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ اول تو یہ قانون کی گرفت میں آتے ہی نہیں اور اگر آجائیں تو ان کے بچ نکلنے کے رستے پہلے سے تیار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وُہ با عزت رہا ہو جاتے ہیں۔


یہی وجہ ہے کہ اس واقعے میں بھی نوابزادے کو کسی بات پر غصہ آیا تو اندھا دھند فائرنگ کی، لوگوں کی جان لی اور پھر بڑے اطمینان کے ساتھ گھر کو روانہ ہو گئے۔پولیس میں موجود کچھ کالی بھیڑوں جن کی حرام خوری کی وجہ سے انکے دل بھی کالے ہو چکے ہیں کی مہر بانی سے قاتل شام سے صبح تک پروٹوکول کے ساتھ گھر میں موجودرہا ۔
بھلا ہو میڈیا والوں کا جنہوں نے شور مچا یا ،حکام کے کانوں پر جوں رینگی، پولیس کو اوپر سے احکامات جاری ہوئے اور قاتل گرفتا ر ہوا۔

ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ قاتل کو تھانے میں اب بھی ”پروٹوکول “ سے نوازا جا رہا ہے جس کے چہرے پر خوف اور ندامت کے بجائے سابق وزیر اپنے باپ ، ممبر اسمبلی بھائی کی طاقت اور پیسوں کی نہ ختم ہونے والی ریل پیل کے غرور میں لپٹے ،با عزت رہا ہونے والے احساسات دکھائی دے رہے تھے۔
جناب خادم اعلیٰ ! آپ ایک درد دل رکھنے والے انسان ہیں اور اسی درد کو سینے میں چھپائے آپ زین کے گھر تعزیت کے لئے تشریف لے کر گئے جہاں آپ نے مقتول کی والدہ ، بہنوں اور لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کیا اور اس بات کا بھی یقین دلا یا بلکہ وعدہ کیا کہ انہیں فوری انصاف ملے گااور اس سلسلے میں کسی سفارش اور سیاسی دباؤ کو خاطر میں نہ لا یا جائے گا۔

مجھے یقین ہے کہ آپ ماضی کی طرح اپنے اس وعدے سے بھی وفا کریں گے اور فی الفور اس واقعے میں ملوث مجرموں بشمول کو تاہی اور غفلت کا مظاہرہ کر نے والی پولیس کی کالی بھیڑوں کو بھی نشان عبرت بنا ئیں گے۔
جناب چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ! آپ انصاف فراہم کر نے والے ادارے کے سپہ سالار ہیں ، آپ کی درد مندی کا زمانہ اعتراف کر تا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنی تعیناتی پر کسی قسم کا گارڈ آف آنر لینے سے انکار کیا اور حلف لینے کے بعد جس طرح آپ نے آبدیدہ آنکھوں کے ساتھ انصاف کو ترجیحی بنیادوں پر فراہم کر نے کی بات کی اور پھر ملتان میں بھی آپ نے ”میں نے ابھی کوئی کار نامہ انجام نہیں دیا “ کہہ کے یک دفعہ پھر گارڈ آف آنر لینے سے ا نکار کیا ہے ۔

میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ زین قتل کیس پر سو موٹو ایکشن لیتے ہوئے ”سٹیٹس کو“ کی ان جونکوں کو کچلنے اور ان کو قرار واقعی سزا دے کر ضمیر اور اللہ کی عدالت میں سُر خرو ہو سکتے ہیں۔
میرے ذمے تو قلم کا اٹھا نا تھا، سو اٹھا دیا ، باقی یہ آپ کی ذمہ داری کہ آپ کب اور کیسے دکھیاری ماں کو انصاف فراہم کرتے ہیں ،کیسے اس کے دکھوں کو مداوا کرتے ہیں اور کیسے اس واقعے میں ملوث مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کر کے مستقبل میں 1،فیصدرئیس زادوں کوکیا پیغام دیتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :