میاں صاحب ترجیحات بدلیں!

پیر 6 اپریل 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

میری عموما کوشش ہوتی ہے کہ سیاست کی بجائے کسی فکری یا سماجی موضوع پر لکھا جائے ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ بھینس کے سامنے بین بجانے سے بہتر ہے آپ کوئی اور شغل ڈھونڈ لیں ۔لیکن کالم چھپنے کے بعد قارئین جو اپنی بپتا سناتے ہیں اور رشوت اور کرپشن کلچر کی جو کہانیاں سنائی جاتی ہیں انہیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ موضوع ایسا بھی نہیں کہ اس سے جان چھڑائی جائے۔

نواز شریف کہتے ہیں پاکستان ترقی کر ہا ہے ،سڑکیں ،پل ، میٹرو اور موٹر وے جیسے پروجیکٹ لاوٴنچ ہو رہے ہیں ، اسلام آباد اور ملتان میں میٹر ودوڑنے والی ہے ،کراچی لاہور موٹروے کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے،اسلام آباد کا نیو ایئر پورٹ آپریشنل ہونے والا ہے ،تھری جی اور فور جی اپنے رنگ بکھیر رہی ہے ، لاہور میں وائی فائی کی سہولت دینے کے منصوبے بن رہے ہیں اورپورے ملک میں موٹروے کا جال بچھایا جا رہا ہے ۔

(جاری ہے)

سمجھ نہیں آتی کہ حکمرانوں کی ذہنی اپروچ ہی اتنی ہے یا انہوں نے بھنگ پی رکھی ہے کہ انہیں اصل مسائل دکھائی ہی نہیں دیتے۔ پتا نہیں انہیں کون سا بیرم خان مل گیا ہے جو انہیں نئے نئے آئیڈیا ز اور نئے منصوبے پیش کرتا رہتا ہے اور یہ آنکھیں بند کر کے جی حضور جی حضور کہتے رہتے ہیں ۔عوام مر رہے ہیں اور انہیں میٹرو بنانے کی پڑی ہے ، عوام کو صاف پانی میسر نہیں اور یہ ملک میں موٹروے کے جال بچھانے نکل پڑے ہیں ، لوگ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ برداشت کر رہے ہیں اور انہیں سڑکیں بنانے سے فرصت نہیں، لوگ صبح آفس جانے کے لیئے بجلی کے انتظار میں لیٹ ہو جاتے ہیں انہیں تھری جی اور فور جی کی پڑی ہے ۔

لوگ پرائیویٹ ہسپتالوں کی فیسیں نہ ہونے کی وجہ سے اپنے بوڑھے والدین کو مرنے کے لیئے چھوڑ دیتے ہیں اور انہیں وائی فائی کی فکر کھا ئے جا رہی ہے۔ جب میرے محلے اور علاقے میں ہسپتال نہ ہونے کی وجہ سے میری ماں میرے ہاتھوں میں دم توڑ دے گے تو بھاڑ میں جائیں یہ سب میٹرو شیٹرو،جب ایک ماں کا بیٹا قریبی ہسپتال نہ ہونے کی وجہ سے اس کی آنکھو ں کے سامنے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائے گا تویہ اپنے منصوبوں اور اپنے پروجیکٹس کو اپنے پاس رکھیں ۔

پتا نہیں ان کا بیرم خان اور ان کے نورتن انہیں صحیح مشورے کیوں نہیں دیتے ۔ میاں صاحب عوام کو یہ میٹرو شیٹرواور موٹروے نہیں چاہئے ، انہیں تھری جی اور فور جی بھی نہیں چاہئے ، اگر آپ انہیں کچھ دینا چاہتے ہیں تو انہیں سہولیات دیں سہولیات،انہیں بڑی بڑی بلڈنگیں ، بڑے بڑے پارک ، بڑی بڑی سڑکیں ، بڑے بڑے پل اور بڑے بڑے ایئرپورٹ نہیں چاہئے ۔

سمجھ نہیں آتی کہ آپ کے نورتنوں میں کوئی بھی ایسا نہیں جو آپ کو صائب مشورہ دے ،آپ کی آنکھیں کھلوائے اور آپ کو دکھائے کہ عوام کیا چاہتے ہیں ۔ملک کے ساٹھ فیصد عوام دیہات میں رہتے ہیں گو انہیں میٹرو ،موٹروے، ایئرپوٹس اور وائی فائی جیسے منصوبوں سے ذرا تعلق نہیں اور جو شہروں میں رہتے ہیں ان میں سے بھی تیس فیصد ایسے ہیں جو مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ،ان کی ماہانہ تنخواہ سے ان کا بھرم بھی قائم رہ جائے تو بڑی بات ہے تو پھر کس کے لیئے آپ یہ منصوبے بنا رہے ہیں ؟کیا چیچوں کی ملیاں کے دیہاتی میٹرو پر سفر کریں گے اور کیا چیچہ وطنی کے گاوٴں دیہات میں رہنے والے موٹروے پر کرولا اور بی ایم ڈبلیو دوڑاتے پھریں گے؟اور کیا بلوچستان کے صحرا کا کو ئی جوڑا ہنی مون منانے اسلام آباد کے ایئرپورٹ سے سوئزرلینڈ کے لیئے اڑان بھرے گا ؟تو پھر آپ اور آپ کے نورتن کیوں نہیں سمجھ رہے ،آپ کی بھنگ کا نشہ کیوں نہیں اتر رہا۔

آپ ملک کی دس فیصد ایلیٹ کلاس کے لیئے پورے ملک کے وسائل جھونک کر کہتے ہیں ملک ترقی کر رہا ہے ، واہ کیا منطق ہے ،آپ کی قابلیت کو دیکھ کر دل کرتا ہے آپ سے درخواست کی جائے کہ یونان کے دم توڑتے فلسفے میں آپ ایک نئے باب کا اضافہ کر دیں یہ آپ کا بنی نوع انسان پر احسان ہوگا۔
میاں صاحب یہ سب بعد کی باتیں ہیں پہلے آپ عوام کو گھر دیں ،مکان دیں ، ہسپتال دیں ، پینے کا صاف پانی دیں ، بجلی دیں ، راشن دیں ، نوکریاں اور کارو بار دیں ، فری تعلیم دیں،پہلے آپ عوام کی عزت نفس کو بحال کریں انہیں قطاروں میں کھڑا کرنے کی بجائے سہولیات ان کے گھر تک پہنچائیں ، ان کے پیاروں کی جان بچائیں ، معیاری اور سستی ٹرانسپورٹ دیں ، بزرگ شہریوں کو عزت و احترام دیں ،آٹا ،گھی ، دالیں ،پھل ، سبزیاں عوام کی پہنچ تک لائیں ،انہیں مچھلی نہ دیں مچھلی پکڑنے کا گر سکھائیں ۔

آپ مریضوں کو لاہور منتقل کرنے کے لیئے موٹروے نہ بنائیں بلکہ متعلقہ اضلاع میں ہسپتال بنا دیں ۔میاں صاحب آپ جو منصوبے شروع کرنے جا رہے ہیں یا شروع کر چکے ہیں ان سے اٹھارہ کروڑ عوام کا کچھ بھلا نہیں ہو گا۔ پتا نہیں آپ کے سقراط،بقراط، افلاطون اور کالی داس آپ کو کیا رام کہانیاں سنا رہے ہیں لیکن اگر آپ حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو ایک دن بھیس بدل کر عوام میں آئیں عوام آپ کو کیسی کیسی صلواتیں سناتے ہیں آپ کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔


اب چلتے چلتے ایک واقعہ سن لیں ، میاں صاحب کہتے ہیں دہشت گردوں کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی،ہر صورت دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے گا ۔میاں صاحب اجازت ہو تو آپ کے ماتھے پر بوسہ دے لوں ؟آپ کے عزم اور آپ کی استقامت کو سلام کرنے کو دل چاہتا ہے ۔پہلے یہ واقعہ سن لیں پھر اس کے بعد آپ کی مرضی جو رائے آپ قائم کریں۔ پچھلے دنوں ایک دوست بتا رہے تھے کہ میرا ایک دوست سرگودھا سے مالٹے کا ٹرک لے کر اسلام آباد جا رہا تھا ، رات دو ڈھائی بجے کا وقت تھا ، فیض آباد سے آگے اسلام آباد کی حدود میں داخل ہو نے لگے تو پولیس نے رکاوٹیں لگا کر راستہ روکا ہوا تھا اور ہر گاڑی کو چیکنگ کے بعد اسلام آباد کی حدود میں داخل ہونے دیا جاتا تھا۔

جب ان کی باری آئی تو پولیس کا ایک اہلکار ڈرائیور کے پاس آیا، کاغذات طلب کیئے جو نہیں تھے ، بات چائے پانی پر آگئی ، ڈرائیور نے ترلا منت کیا کہ چائے پانی کے لیئے پیسے نہیں آپ مالٹوں پر گزارہ کر لیں ، ایک دو بار اصرار کے بعد وہ جوان مان گیا ۔ڈرائیور نے پانچ چھ مالٹے دیئے اور یہ جا وہ جا ۔ بعد میں ڈرائیور نے بتا یا کہ میں نے مالٹے بھی وہ دیئے تھے جو تین چار دن پرانے تھے اور ان کا ذائقہ بھی بدل چکا تھا حالانکہ اس کے پاس تازہ مالٹے موجود تھے۔اب بولیں میاں صاحب کے بیان پر آپ کیا تبصرہ کریں گے۔صرف ایک منٹ کے لیئے فرض کر لیں اگر اس ٹرک میں دھماکہ خیز مواد ،اسلحہ ،خود کش جیکٹ یا بارود ہوتا تو سوچیں کیا ہوتا ؟؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :