مقصدِ حیات۔۔ ۔۔آخری قسط

جمعرات 2 اپریل 2015

Imran Ahmed Rajput

عمران احمد راجپوت

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا بڑا سبب مسئلہ " روحانیت یا بعد الطبیعیات " ہے جس نے انسان کی دنیاوی زندگی کو بالکل پس پشت ڈال دیا اور حقیقی زندگی کو اس عالم سے متعلق ہی نہ سمجھا ۔ اگر یہاں کی زندگی کو اہمیت دی جاتی تو اس کی اصلاح کی طرف توجہ بھی کی جاتی لیکن بلا استشناء تمام مذاہب نے مادی حیات کی تخفیف کی اور اس کو ناقابل اعتناء سمجھا ۔ اس لئے اصولاً کوئی مذہب دنیاوی لحاظ سے کامیاب نہ ہوا اور انسان کے نفسیاتی میلان نے جو ہنگامہ یہاں کر رکھا ہے اس کا کوئی علاج کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔یہی تلخ تجزیہ تھا جس نے دنیا میں مادہ پرست جماعت پیدا کردی اور دنیا کے اصول سے سمجھنے اور کاربند ہونے پر مجبور کردیا۔ پھر ہر چند ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ماوئین نے جو کچھ سمجھا وہ بالکل درست ہے یا ان کے مقرر کئے ہوئے اصول دنیا کے امن و نجات کے ضامن ہوسکتے ہیں ۔

(جاری ہے)

لیکن اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ ان کا مقصود بالکل بر محل ہے اور "قضیہ زمین بر سر زمین"کے اصول پر کار بند ہوتے ہوئے وہ انسانی دماغ کی بہت سی تشویشوں کو دور کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

ان کے سامنے نہ ایسے خدا کا سوال ہے جس نے قادر مطلق اور " فعال لما یرید" ہونے کی حیثیت سے انسان کو دنیا میں عضو بیکار بنا رکھا ہے اور نہ وہ اپنا وقت اس مسئلہ پر غور کرنے میں ضائع کرتے ہیں کہ دنیا کیوں پیدا کی گئی وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ دنیا پیدا ہوچکی ہے اور اس میں ہم کو زندگی بسر کرنا ہے اس کے بعد کچھ نہیں ہے اس لئے ہم کو ہر ممکن کوشش کے ساتھ اس سے فائدہ اٹھا نا چاہیئے اور ترقی کی جتنی راہیں ہیں ان پر چل کر دنیا کو اپنے لئے جنت بنالینا چاہیئے۔
اس لئے بہ حالات موجودہ ہمارا یہ سوچنا کہ خدا نے کائنات کو کیوں پیدا کیا۔ حد درجہ تضیع اوقات ہے سوچنے کی بات صرف یہ ہے کہ جب ہم اس دنیا میں آگئے ہیں تو ہم کو زندگی کیو نکر بسر کرنا چاہیئے اور اپنا وقت کس طرح صرف کرنا چاہیئے ۔
خدا کی حقیقت کیا ہے دنیا سے اس کا کیا تعلق ہے ۔ اس تعلق کی بناء پر ہم کیا کرسکتے ہیں اور کیا نہیں یہ سب ایسے دور از کار سوالات ہیں کہ نہ اِس وقت تک ان کا کوئی شافی جواب دیا جاسکا اور شایدنہ ایسا آئند ممکن ہوسکے ۔ انسان واقعات و حوادث کا بندہ ہے۔ اسباب و علل کی دنیا میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے اسلئے اسے انہیں باتوں پر غور کرنا چاہئیے جس سے اُس کی زندگی متعلق ہے ۔ اگرخدا نے " کُن" کہہ کردفعتاً عالم کو پیدا کردیا تو کیا،اور تدیجی ارتقاء کے ساتھ عالم کو سنوار ا تو کیا ،انسانی دکھ درد کا علاج اِن میں سے کسی اعتقاد سے متعلق نہیں۔ پھانس اگر چبھی ہے تو اس کی تکلیف نکالنے ہی سے دور ہوسکتی ہے نہ کہ اس بات پر غور کرنے سے کہ پھانس کی حقیقت کیا ہے اور وہ کیونکر گوشت کے اندر پہنچ گئی۔
گھر میں جس وقت آگ لگتی ہے تو اُس کا سبب دریافت کرنے سے پہلے اُس کے بجھانے کی فکر ہوتی ہے۔ اس لئے وہ لوگ جو حقیقی معنی میں نوع انسانی کے خیر خواہ ہیں۔ ان کو نہ خدا کی حقیقت پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور نہ یہ سوچنے کی کہ اُس نے دنیا کو کیوں پیدا کیا بلکہ صرف ان تدابیر پر غور کرنے کی کہ تمام انسان باہم مل کر صلح و آشتی کی زندگی کیو نکر بسر کرتے ہیں۔
مذاہب عالم اور اقوام عالم کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ حق و باطل ، کفر و شرک یہاں تک کہ مذاہب و مسالک کی یہ جنگ جو آج نظر آرہی ہے کوئی نئی چیز نہیں بلکہ اس کی ابتداء اُسی وقت سے ہوئی ہے جب انسان اپنا جذبہ تفوق پرستی لے کر سامنے آیا پھر یہ جنگ یقینا علمِ مذہب کی جنگ نہیں کیونکہ اگرمذہب کا مقصودِ حقیقی صرف خدا شناسی ہے تو پھر مجھے کوئی سمجھائے کہ دنیا کا وہ کون سا علم ہے جو معناً اس غائت تک نہیں پہنچتا بلکہ یہ جنگ ان رقیبوں کی تھی جو ایک ہی محبوب کے جلوہ کے لئے بیتاب تھے ان جانداد گان خود فراموش کی تھی جو سوا اپنے کسی اور کو " خلوتیانِ راز" میں شامل دیکھنا پسند نہ کرتے تھے یا زیادہ صحیح الفاظ میں یوں کہیئے کہ وہ اپنے ہی ذوق سجود کا کا تفوق ثابت کر کے آستانہ " محبوب" کو اپنے لئے مخصوص کرلینا چاہتے تھے اور یہ کمزوری کم و بیش ہر زمانہ کے انسان میں پائی گئی ہے اور آج بھی تمام افتراق و اشفاق اسی کمزوری کا نتیجہ ہے۔
قارئین فلسفہ و استدلال کی دنیا میں آکر جس وقت اس مسئلہ پر غور کیا جائے گا تو معلوم ہوگا کہ اس کا سبب صرف یہ ہے کہ خدا کے جس تصور کو مذاہب عالم نے پیش کیا وہ صحیح نہ تھا۔ ہوسکتا ہے کہ صرف قومی نظام تمدن کے لحاظ سے وہ کسی قدر مناسب رہا ہو لیکن اخوت عامہ اور ہمہ گیر ی کے لحاظ سے وہ نامکمل تھا۔ دنیا میں صرف ایک ہی مذہب ایسا ہوا ہے جس نے ہزاروں لاکھوں سال کی اس الجھی ہوئی گتھی کو سلجھایا اور اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اب نہ مذہب کے لحاظ سے کسی اور مذہب کی ضرورت دنیا کو باقی ہے نہ مبلغ ِ مذہب کی حیثیت سے کسی اور ہستی کے رونما ہونے کی ضرورت ہے اور وہ مذہب اسلام ہے جو نہ کسی ملک کے لئے مخصوص ہے نہ کسی قوم کے لئے مختص ، اس کی دعوت گبرو ترسا ، یہودو نصاری ، عالم و جاہل ، امیر و فقیر، شاہ وگدا، مشرق و مغرب، شمال و جنوب ، ہر طبقہ و ہر ملک کے لئے یکساں ہے۔ اور اِسی لئے اس نے جو مفہوم خدا کی کبریائی کا پیش کیا ہے وہ ایسا جامع ، ایسا قرینِ عقل ، ایسا ہمہ گیر اور اس درجہ وسیع ہے کہ جس آسانی سے ایک جاہل اسے قبول کر سکتا ہے بالکل اسی طرح ایک فلسفی بھی اس کے ماننے پر مجبور ہے۔
وہ زمانہ جب " آسمانی بادشاہت " کا وعظ کہہ کر خدا کو ایک دنیاوی صاحب جبروت بادشاہ کی طرح پیش کیا جاتا تھا ختم ہوگیا ۔ وہ عہدجب عقولِ انسانی صرف مرئی و محسوس اشیاء پر ایمان لاسکتے تھے اور جب ضرورتاً و مصلحتاً مسیح کو خدا کی صورت میں پیش کرنے کی ضرورت ہوتی تھی گزر گیا۔وہ دور ِ انسانیت جب تمرکزِ نفس (Concentration) کے لئے رمزی اور اشاری (Symbolic) طریق ِ عبادت محسوس کر کے خدا کے وجود کو بتوں ، ہیکلوں ، تمثالوں اور مجسموں میں تبدیل کیا گیا باقی نہیں رہا۔ یہ تمام زمانے آج سے تقریباً 1400 سال قبل ختم ہوگئے جب ریگستانِ عرب سے ایک انسانِ کامل کا ظہور ہوا اور اُس ہستی نے نہایت ہی مختصر سادہ الفاظ میں خدا کے وجود کا وہ فلسفہ بیان کیا جو اس سے قبل کسی نے بیان نہ کیا تھا ۔ آپ نے ثنویت و تثلیث کی تردید کی ، تجسیم و تشکیل کو غلط ٹھہرایا ، تشت و انتشار کو محو کیا تفریق و افتراق کی راہوں کو بند کیا اور یہ بتایا کہ خدا تمام مکانیات و زمانیات سے بے نیاز ہے، مادیات کی دنیا سے علیحدہ ہے اور تمام ان تسبتوں و اضافتوں سے منزہ جو عقولِ انسانی کو کسی وجود کے سمجھانے کے لئے متعین کی جاتی ہیں۔
ایک طرف تو آپ نے یہ بتایا کہ اس کا قیام عرشِ بریں پر ہے ۔ یعنی ذاتِ انسانی سے علیحدہ کائنات کی فضائے وسیع و لامتناہی میں جو کچھ ہے وہ سب اُسی کا پیدا کیا ہوا ہے اور دوسری طرف اُس کو شہ رَگ سے زیادہ قریب بتایا یعنی جس حد تک ذاتِ انسانی کا تعلق ہے اُس کے قرب کی کوئی انتہا نہیں، وہ سانس میں جاری ہے، خون میں ساری ہے، روح میں دوڑ رہا ہے،قلب میں جاگزیں ہے اُس کو رحمان و رحیم بتایا اور جبار و قہار ظاہر کیا ، بظاہر یہ نام ایک دوسرے کی ضد ہیں لیکن یہیں سے یہ نکتہ حل ہوتا ہے کہ جن کو اسماء حسنیٰ کہا جاتا ہے۔ وہ نہ خدا کے ذاتی نام ہیں نہ صفاتی بلکہ آثاری و مظاہری اسماء ہیں جن کا تعلق کائنات کے ہر تغیر و تبدل ، زندگی کے تمام اصول اور ہستی کے جملہ اعتبارات و امتیازات سے ہے یعنی اگر انسان خوش و پرامن زندگی بسر کررہا ہے تو یہ بھی اُسی کا مظہر ہے اور اگر قہر و جبر کی ساعتیں گزار رہا ہے تویہ بھی اُسی ایک ذات کی وجہ سے ہے جس نے اسباب و علل پیدا کر کے عالم کی تمام کیفیات مادی و ذہنی کو اپنے سے منسوب کیا اور جن کے ترک و اختیار کے لئے انسان کو عقل ِ کامل عطا فرمائی۔
یہ تھا خدا کا وہ تصور جو بانی ِ اسلام نے بتایا اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس سے زیادہ پاکیزہ و منزہ خیال جو بلند ترین فکرِ انسانی کے لئے بھی قابلِ قبول ہو اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ یہی ہے وہ اصل اصولِ مذہب جو انسان کو وسیع النظر بناتا ہے ، جو تمام افراد کو ایک رشتہ اخوت سے وابستہ کرسکتا ہے اور جو دلوں کو تعصب و جہل ، کینہ و بغض سے پاک رکھتا ہے، جس پر چل کر اشرف المخلوقات کا رتبہ پانے والا انسان اپنے اصل مقصدِ حیات کو پہنچ سکتا ہے۔۔۔۔۔ختم شد

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :